آگے کنواں پیچھے کھائی
تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے جب اس کا خوب شور تھا اور مسلم لیگ ن اور پی پی پی جب اس کو کامیاب کروانے کے لیے بھاگ دوڑ کررہی تھیں تب بھی میں نے اپنے کالم " کیا اپوزیشن کامیاب ہو پائے گی ؟" میں لکھا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام دونوں صورتوں میں فائدہ عمران خان کا ہوگا. تحریک عدم اعتماد کی کامیابی عمران خان کی ڈوبی ہوئی کشتی کو صحیح سلامت منزل مقصود پر پہنچانے کے مترادف ہوگی. وہی ہوا جیسے تیسے بھی شدید آئینی بحران، سیاسی عدم استحکام اور منفی رجحان کے پیدا ہونے کے بعد عدم اعتماد کامیاب ہوگئی. مسلم لیگ ن نے پنجاب اور وفاق میں حکومت بنا لی. مگر اصل امتحان یہاں سے شروع ہوتا ہے.
عمران خان کے خلاف عدم اعتماد آنے سے پہلے تک ان کی کارکردگی پر ہر طرف تنقید ہورہی تھی. مہنگائی، بیروزگاری،غربت، ڈالر کی اڑان، معیشت کی تباہی، روپے کی بے قدری، اپنے کیے گئے وعدوں اور دعوؤں سے انحراف کی وجہ سے عمران خان کی پارٹی کے لوگ بھی سوچنے پر مجبور تھے اور بعض اوقات تو یہ ماننے پر بھی مجبور تھے کہ عمران خان صاحب ان کی توقعات پر پورا نہیں اتر پائے. بھلا ہو پی ڈی ایم کا جنہوں نے پورا اہتمام کیا کہ محض ایک ہفتے کے بعد ہی عمران خان کے بیرونی سازش کا شور مچاتے ہی دوبارہ اس طبقے کی تمام تر ہمدردیاں ان کی جھولی میں ڈال دیں اور باقاعدہ ان کو عمران خان کا دن رات دفاع کرنے کے لیے لیے تیار کردیا.
عدم اعتماد کی تحریک آنے کے بعد بات ہورہی ہے تو صرف بیرونی سازش کی، موجودہ حکومت کی، موجودہ حکومت میں شامل پارٹیوں کی، گزشتہ چار سالوں کی تمام ناکامیوں کا ملبہ موجودہ حکومت پر گرانے کی، عمران خان کی معصومیت کی، عمران خان کی مظلومیت کی اور بات ہورہی ہے تو کچھ دنوں سے بنی نئی نویلی حکومت کی کارکردگی کی. لیکن پچاس لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکری، ڈالر کی قیمت 112سے نیچے لانے کے وعدے، عدالتی اصلاحات، پولیس اصلاحات، الیکشن اصلاحات، نیا پاکستان، نظام کی تبدیلی، ریاست مدینہ کا قیام اور دیگر کئی ایسے خوشنما وعدوں کو تقریبا بھلایا جاچکا ہے۔
گذشتہ چار سالہ کارکردگی پر کہاں بات ہورہی ہے؟ کون پوچھ رہا ہے کہ 5.8 پر ملنے والی شرح نمو کو چار سالوں میں کتنا بڑھایا گیا؟ کون پوچھ رہا ہے کہ 2018 میں 25 ہزار ارب روپے ٹوٹل قرض تھا لیکن چار سالوں میں اس میں کتنا اضافہ ہوا؟ کون پوچھ رہا ہے کہ پاکستان میں ان چار سالوں میں کتنے نئے ڈگری کالج بنے؟ کتنے نئے ہسپتال بنے؟ کتنی یونیورسٹیاں بنی؟ صحت کے نظام کو کیسے اور کس قدر بہتر کیا؟ پولیس کو کتنا عالمی معیار کے مطابق بنایا؟ رشوت اور بدعنوانی کا خاتمہ ہوا یا اضافہ ہوا؟ اگر سرکاری دفاتر میں پہلے سے کئی گنا زیادہ رشوت بڑھی تو وجہ کیا تھی؟ حکومتی شخصیات کے قریبی لوگوں نے لوٹ مار مچائی تو کیوں مچائی؟ گذشتہ حکمرانوں سے کس قدر مختلف انداز میں ان چار سالوں میں حکومت کی گئی؟ جس غریب طبقے کو اوپر اٹھانے کا وعدہ کیا گیا تھا اس کو اتنا اوپر کیوں اٹھا دیا کہ وہ قبر تک پہنچ گیا؟ گزشتہ چال سالوں کہ حکومت کا محاسبہ کریں گے تو جواب میں صرف ناکامی، مایوسی اور مسائل ہی نظر آئیں گے...
لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اگر عمران خان کے پاس اقتدار میں آنے سے پہلے اس وقت کا مقابلہ کرنے اور حکومت کو چلانے کا کوئی پلان اور تیاری نہیں تھی تو کیا مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی کے پاس ان حالات کو سنبھالا دینے کا کوئی پلان موجود تھا؟ بدقسمتی سے صرف چند تعیناتیوں کو روکنے کے لیے یہ بھلا دیا گیا کہ ان مشکل ترین حالات کو سنبھالا دے بھی سکیں گے کہ نہیں؟
آج سخت فیصلے لینے کا وقت ہے اگر حکومت نے سخت فیصلے نہ لیے تو معاشی نقصان ہوگا اور اگر سخت فیصلے لے لیے تو سیاسی نقصان ہوگا اب مسلم لیگ ن پر قبل از وقت الیکشن کروانے کا پریشر بھی ہے. سخت فیصلے لے لیے تو عوام بلبلا اٹھیں گے اور اس بات کی کوئی گارنٹی بھی نہیں کہ ان سخت فیصلوں کا بوجھ مسلم لیگ ن کے ساتھ ساتھ دیگر اتحادی جماعتیں بھی اٹھائیں گی یا وہ اپنے ہاتھ کھڑے کر دیں گی....
اب فوری الیکشن کی طرف جانا بھی مسلم لیگ ن کے لیے موزوں نہیں ہے کیونکہ جو صورتحال آج سے تین ماہ قبل تھی وہ آج نہیں رہی. جو لوگ عمران خان سے سخت مایوس ہوچکے تھے وہ ان کی بدترین کارکردگی کے باوجود بھی آج انہیں مظلوم ثابت کرنے پر بضد ہیں. اب مسلم لیگ ن کے لیے انتہائی آزمائش کا وقت ہے اور اگلے چند ہفتے انتہائی اہم ہیں...
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں