امریکہ، برطانیہ، اسرائیل کے عملی حصہ دار بن گئے
اسرائیل اور مجاہدین کے درمیان جنگ میں شدت آ گئی اور اب امریکہ اور برطانیہ بھی عملی حصہ دار بن گئے، ہر دو کی طرف سے یمن میں حوثیوں کے خلاف کارروائی کی گئی اور خود ان کے بقول حوثیوں کے بنکرز اور اسلحہ خانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، اسرائیل کی بربریت بھی تو انہی کی حمایت سے جاری تھی اور یہ حضرات مظلوموں کا بھی دم بھرتے دکھائی نظر آتے تھے لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے اسرائیل کو حتمی طور پر منع کیا ہو یا سنجیدگی سے جنگ بندی کی کوشش کی ہو،الٹا ان کی طرف سے اسرائیل کی کھلم کھلا حمایت ہی کی گئی اور اب اس کا عملی ثبوت دے دیا گیا ہے، یہ صورت حال اور بھی پیچیدہ ہو گئی کہ اسرائیل حماس اور حزب اللہ کے بہانے مسلسل عام شہریوں اور شہری مقامات کو نشانہ بنا کر جہاں غزہ کے فلسطینی عوام کی نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے وہاں شہر کے شہر ملبے کے ڈھیر بن گئے ہیں، بڑی طاقتوں ہی کی حمایت کے باعث مسلم امہ بلکہ قریب تر مسلمان ملک بھی دبکے بیٹھے ہیں اور سب کی طرف سے زبانی مذمت پر گزارہ ہے حالانکہ اگر عملی مدد (اسلحہ وغیرہ) نہیں جا سکتی تو معاشی اور اقتصادی طور پر تو کچھ کیا جا سکتا ہے اگر امیر ممالک امریکی اور برطانوی بنکوں سے اپنی رقوم نکلوانے کا ہی اعلان کر دیں تو شاید اسی عمل سے کچھ اثر ہو لیکن ایسا نہیں کیا جا رہا، اگر ایسا ہی سلسلہ رہا تو پھر غزہ اور لبنان کے بعد شام، عراق اور ایران کی باری بھی آ سکتی ہے۔
اس حوالے سے ایران کا ذکر نہ کرنا مناسب نہیں ہوگا، نظر بظاہر اور حالات سے یہ ظاہر ہے کہ ایران بھی امریکہ، اسرائیل اور مغربی ممالک کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے ایران فلسطنیوں، حزب المجاہدین اور حماس کا واضح حامی اور ان تنظیموں کو خفیہ طور پر اسلحہ بھی مہیا کرتا ہے تاہم اس کی طرف سے بھی بہت محتاط رویہ اختیار کیا گیا ہے، اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے کئی روز بعد ایران کی طرف سے میزائل برسائے گئے تاہم مغربی میڈیا کی وجہ سے یہ علم نہ ہو سکا کہ اسرائیل میں نقصان کتنا ہوا، البتہ حال ہی میں حزب المجاہدین کے حملے بڑی حد تک موثر بھی ثابت ہو رہے ہیں۔ تاہم اسرائیل نے شاید ایسے کسی موقع کے لئے شہروں میں بنکرز بنا رکھے ہیں جن میں شہری پناہ لے لیتے ہیں،اسرائیل امریکہ سے حاصل کئے گئے اور امریکی تعاون سے ملک میں تیار کئے گئے جدید طیارے استعمال کر رہا ہے اور اس نے یہ جنگی طیارے بہت بھاری مقدار میں جمع کر رکھے ہیں، اس کا اندازہ اس امر سے لگا لیں کہ ایک وقت میں 25-25 سو طیاروں سے حملہ کیا جاتا ہے ان میں جدید امریکی طیارے بھی شامل ہیں۔ یوں اسرائیل دو بدو جنگ سے گریز کر کے فضائی حملہ زیادہ کرتا ہے اور لبنان میں اس کی طرف سے جو زمینی مداخلت ہوئی اس میں اسے نقصان اٹھانا پڑا اور فوجی اہل کار جہنم واصل ہوئے تاہم ابھی تک فضائی حملوں کا کوئی توڑ سامنے نہیں آیا، ممکن ہے کہ کسی وقت طیارے مار گرانے والے میزائل بھی مجاہدین کے پاس آ جائیں۔ ابھی تک ایسا نہیں ہوا اور یہ طیاے غزہ سمیت لبنان کو بھی ملبے کے ڈھیر میں منتقل کرنے کی عملی کوشش کرتے دکھائی دے رہے ہیں،اور یہی شاید مجاہدین کی کمزوری بھی ہے بات ایران کی ہو رہی تھی۔ بڑھکیں تین اطراف کی ہیں، امریکہ اب غذائی بندش کے حربے کی طرف جا رہا ہے جبکہ ایران کے خلاف حملے کی بات بھی کر رہا ہے، ان حالات میں تو ایران کو اپنے دفاع سے آگے بھی سوچنا ہوگا اور مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ اسلامی ممالک کو صورت حال کا بغور جائزہ لے کر اپنی کمزوریوں کو جانچتے ہوئے اپنا لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے۔ جو ایسا ہو کہ مغربی ممالک بھی سوچتے رہیں، بیانات اور دھمکیوں کا وقت تو گزر چکا۔ اب تو کچھ کرنے کا وقت ہے اور ایران کو کرنا ہی چاہئے کہ شاید اسی طرح مسلم امہ کو ہوش آ جائے۔
یہ جو بھی عرض کیا وہ سب مشاہدے کی بات ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کی نعمت سے سب نظر آتا ہے اور یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے علمبردار اور جانوروں کی تکلیف پر تڑپنے والے بچوں اور خواتین کے بہیمانہ قتل عام سے بھی متاثر نہیں ہو رہے اور اسرائیل کو فاتح دیکھنا پسند کرتے ہیں، اب ذرا غور فرما لیں کہ ہم پاکستانیوں کی کیا روش ہے جو ہمیشہ اور ہر المیہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ہم لڑاکی بڑھیا کی طرح تعن و تشنیع میں مصروف ہیں۔ ہمارے خود اپنے راہنمایاں کرام بیٹھ کر مسائل کا حل تیار کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ خود آپس میں برسر پیکار ہیں۔ جمہوریت کی مالا چپتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے بات کرنے کو تیار نہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حزب اقتدار ہر صورت آئینی ترامیم کی منظوری چاہتی ہے، چاہے اسے اپنا ہی نقصان کیوں نہ برداشت کرنا ہو، جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف بانی رہائی کمیٹی بن چکی ہے اور اس کے لئے بڑے بڑے دعوے کئے جا رہے ہیں، ان کی حالت نیم دروں، نیم بروں والی ہے کہ کبھی تو کوئی کامیابی ملے گی،ایسا کوئی مسئلہ نہیں جو بات چیت سے حل نہ ہو، یہاں تو اس عمل کی بھی نفی کی جا رہی ہے اور پہلے میں، پہلے تو والا مسئلہ ہے۔ اگر ہم اپنے ملک کے اندر بھائی چارے اور جمہوریت کی فضا پیدا نہیں کر سکتے تو ہمارے عوامی مسائل حل کرنے کی یقین دہانیوں کے باوجود مسائل بھی حل نہیں ہو رہے۔
پھر سے درخواست ہے کہ محاذ آرائی سے گریز کیا جائے اور باہمی تعلقات جمہوری پہلوؤں اور انداز پر استوار کر لئے جائیں تو پھر یہ کچھ نہ ہو جو اب ہو رہا ہے۔ وعدے اور یقین دہانیاں بہت ہو چکیں، اب تو عمل کے ذریعے ثابت کرنا ہوگا، توقع ہے کہ یہاں مثبت طریقے سے مفاہمت کے دروازے کھلیں گے اور یہ نہیں کہ کسی کی ضرورت کو استعمال کیا جائے۔