جب فوج اورسیاستدان ایک پیج پر آجائیں گے
نظام الدولہ
آرمی چیف جنرل باجوہ کی سینٹ میں بریفنگ ایک خوش آئیند کام ہوا ہے۔یہ جمہوریت پر فوج کے اعتماد کی دلیل ہے جسے اب کسی صورت کمتر کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔جنرل راحیل شریف سے موجودہ جنرل تک جمہوریت کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے فوج اپنا بھرپور کردار ادا کرتی نظر آتی ہے ، سینیٹرز نے آرمی چیف کی بریفنگ کے بعد فوج کے ساتھ مل کریک جہتی اور اتحادکو فروغ دینے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا عہد کیا ہے ۔۔۔ سیاستدانوں کو کرنا بھی یہی چاہئے۔لیکن افسوس کہ ہمارے سیاستدان بدعنوانی کی لت میں پڑے ہوئے ہیں ،بعضوں پر فوج کو تحفظات بھی رہے ہیں ۔اگر سیاستدان ملک کو کھوکھلا کرنے کی بجائے اسکی بنیادوں کو مضبوط بنانے پر توجہ دیں گے تو مفادات کی سیاست پر قومی سوچ غالب آجائے گی۔فوج اور سیاستدانوں کا ایک پیج پر آنا ہی قومی مفادات اور ذاتی مفادات میں حد فاصل اور فرق کی لکیر کھینچ دے گا۔
وطن عزیز میں ذاتی مفادات کو ہمیشہ قومی اور ملی مفادات پر ترجیح دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کے اہم ترین اور ہر قسم کی نعمتوں سے مالا مال اس ملک کوکبھی مکمل استحکام حاصل نہیں رہا نہ ہی کبھی عوام مطمئن اور پرسکون رہے ہیں۔ یہ بھی نہیں ہے کہ عوام کو ملکی حالات کا ادراک نہیں ہوتا۔ وہ حکومت، سیاستدانوں اور ملک کی تقدیر کے مالک افراد کی چالوں اور رویوں کو نہیں سمجھ پاتے۔ وہ بے بسی کے عالم میں سب کچھ ہوتا دیکھتے اور اضطراب میں مبتلا ہو جاتے ہیں کیونکہ برسر اقتدار طبقات بڑی آسانی کے ساتھ ان کی سوچ و فکر کو کچلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور یہ احساس دلانے میں بھی کامیاب رہے ہیں کہ اگر انہوں نے حکمران طبقے سے اختلاف کیا یا ان کی پالیسیوں پر لب ہلانے کی جرآت کی تو اسکا کیا انجام ہو سکتا ہے۔ اور حقیقت یہی ہے کہ ہزاروں آوازوں کو اس طرح ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا ہے کہ ان کی بازگشت بھی سنائی نہیں دی۔ ہر فرد محسوس کر رہا ہے کہ عوام کی حقیقی نمائندگی کرنے والا بہت جلد ’’ٹریپ‘‘ ہو جاتا ہے۔ منظر سے غائب ہو جاتا ہے یا خوفزدہ ہو جاتا ہے ۔ وہ لوگ ہی حاکموں کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت کرتے ہیں کہ جن کی پشت پر کچھ طاقتور اور با اثر افراد ہوتے ہیں اور یہ لوگ بھی کبھی نہ کبھی حکومتی نظام کا حصہ رہے ہوتے ہیں۔ ان کے ذاتی و نجی کارناموں کی کئی فائلیں حکومت کے پاس ہوتی ہیں۔ خفیہ اداروں کی ان رپورٹس کی بنیاد پر ان کی حدود و قیود متعین کر دی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دامن صاف رکھنے والے افراد کو حقیقی خطرہ سمجھتے ہوئے انہیں ’’طلوع‘‘ ہی نہیں ہونے دیا جاتا ۔ جب سیاسی نمائندگی کا دعویٰ رکھنے والے افراد جائیدادوں کے قبضے میں ملوث ہوجاتے ہیں اور دوسرے جرائم کو اپنا لیتے ہیں تو انہیں کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔
اس وقت صورتحال نہایت گھمبیر ہے مفاد پرست سیاسی ٹولہ اندرون خانہ مکمل طور پر متحد ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف بیانات محض رسمی کارروائی ہے۔ کبھی ایشوزپر بات نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ دفاعی اور قانون نافذ کروانے والے ادارے بھی نہایت بے بسی کے عالم میں ہیں۔ ‘‘ عسکری آپریشنز‘‘ بہت پہلے شروع ہونی چاہئے تھے مگر سیاسی حکومتوں نے اس سے اجتناب کیا۔ وہ توملک میں پے درپے ایسے واقعات رونما ہوئے کہ سیاسی حکومتیں اس معاملے میں مزید مزاحمت نہیں کر سکیں۔ دھرنے نے تمام مفاد پرست سیاستدانوں کوبھی محدود کر دیا تھا۔ دوسری طرف دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پربھی حملہ کر دیا اور بھی بہت سارے واقعات رونما ہوئے۔
اس وقت ایک اور بہت بڑا مسئلہ پیدا ہوچکا ہے اوریہ اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ فوری طور پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ یہ فوج اور سیاسی اداروں کے مابین فسادات پیداکرنے کا منصوبہ ہے ۔ سیاسی قوتیں ذاتی مفادات کو ترجیح دے رہی ہیں۔ اس وقت افواج پاکستان کئی محاذوں میں مصروف ہے۔ رد الفساد، نیشنل ایکشن پلان ، کراچی آپریشن، مقبوضہ کشمیر میں کشیدگی، پاک بھارت کشیدگی، پاک افغان بارڈر پر موجود صورتحال اور سکیورٹی کے مسائل، افغانستان میں نیٹو فورسزکا وجود اور بھارت کا کردار اور بھی بہت سارے مسائل ہیں۔ ایسے میں گوادر پورٹ اور سی پیک منصوبے کی سکیورٹی کی تمام تر ذمہ داری بھی فوج نے خود لے لی ہے۔ جسکی وجہ سے چین بھی کچھ مطمئن ہے۔ سی پیک منصوبے پرکام کسی نہ کسی انداز میں ہو رہا ہے اگرچہ روٹ بھی تبدیل ہوچکاہے اور کام کی رفتار بھی خاصی سست ہے ۔
جنرل باجوہ ذرا مختلف قسم کے جرنیل ہیں۔ وہ قومی منصوبوں کو کامیاب اورمکمل رکھنے کے خواہش مند ہیں۔ اس معاملے میں پاکستان کا سب سے قریبی دوست چین شامل ہے۔ اس منصوبے کی وجہ سے پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہو چکا ہے۔ روس کا رویہ مثبت انداز میں تبدیل ہو چکا ہے۔ وسط ایشائی ریاستیں بھی پاکستان کو اہم ملک کے حیثیت سے دیکھ رہی ہیں جبکہ امریکہ، بھارت اور یورپین ممالک خاص طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے سرخیل یہودی لابی ہر صورت اس منصوبے کاناکام بنانے کے درپے ہیں۔ عسکری اور سیاسی قوتوں کے اس تناؤ کی کوئی وجہ بھی سمجھ نہیں آرہی۔ حکومت بھی پاکستان کی۔ فوج بھی پاکستان کی ، عوام بھی پاکستان کی ، زمین بھی پاکستان کی، بندرگاہ بھی پاکستان کی اور ادارے بھی پاکستان کے، صرف سرمایہ چین کا ہے۔
عوام سوچ رہی ہے کہ ان کے ووٹ سے ایوانوں میں جانے والے کرپشن سے نکل کر کیوں نہیں دیکھتے،اسکی وجہ مفادات ہیں۔جہاں مفادات غالب آجائیں تو وہاں قومی مفاد کے سارے معاملات پس پست چلے جاتے ہیں شاید اس کاکوئی بھی حل نہیں ہے۔شاید ہم صرف ذاتی مفادات کے معاملے میں ’’ایک صفحے‘‘ پر اکٹھا ہوتے ہیں۔
۔
نوٹ : یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے ، ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔