پاکستان میں گورننس کے مسائل

پاکستان میں گورننس کے مسائل
پاکستان میں گورننس کے مسائل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں سٹیٹ بنک کے سابق گورنر جناب عشرت حسین کی کتاب ’’ گورننگ دا ان گوورن ایبل‘‘ کی تقریب رونمائی میں شریک تھا اور انگریزی میں ہونے والی طویل تقریریں سن رہا تھا، چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز میرا صحافی دوست عمر اسلم اپنے موبائل فون سے ان لوگوں کی فوٹیج بنا رہا تھا جو اس تقریب میں آنکھیں بند کئے بیٹھے تھے، میرا خیال تھا کہ میرے سمیت یہ سب ملکی معاملات پر عالم استغراق میں تھے جبکہ اس کا اصرار تھا کہ یہ سب سو رہے ہیں۔اس نے اسی دوران چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن ریٹائرڈ زاہد سعید کو سٹیج پر بیٹھے ہونے کے باوجود اردو کے حال یا انگریزی کے ہال دونوں سے ہی ذہنی طور پر غیر حاضر پایا تو ان کی بھی متحرک تصویر کشی کر لی مگر بہرحال اس سے میرے تعلقات کام کر گئے۔ اس تقریب میں سب سے زیادہ چوکنے اور ہوشیار صاحب کتاب کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب شہباز ہی تھے جو تقریب کے مہمان خصوصی ہونے کے ساتھ ساتھ ایوان وزیراعلیٰ میں منعقدہ اس تقریب رونمائی کی میزبانی کا فریضہ بھی سرانجام دے رہے تھے۔
پاکستان میں گورننس کوئی آسان کام نہیں ہے اور اس مشکل سے شہباز شریف سے بہتر کون آ گاہ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے چومکھی لڑائی لڑی ہے اور وہ اس کتاب کی تقریب رونمائی کے حوالے سے سب سے زیادہ مناسب شخصیت تھے۔ ڈاکٹر عشرت حسین کی کتاب جمہوری حکمرانی کے لئے ادارہ جاتی اصلاحات پر فوکس کر رہی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ کیا پاکستان کے لئے جمہوری اور پارلیمانی نظام سے ہٹ کر بھی حکمرانی کا کوئی تصور ہو سکتا ہے۔ ہم نے بطور قوم غیر جمہوری نظاموں کو عشروں تک آزمایا ہے اور آخر میں یک جہتی، نظرئیے اور جغرافیے سمیت ہر شعبے میں نقصان ہی اٹھایا ہے، ہاں، معاشی اشاریے ظاہر کرتے ہیں کہ ہم نے ترقی کی مگر اس کا جواب قرض کی مے پیتے ہوئے فاقہ مستی کے رنگ لانے پر یقین میں چھپا ہوا ہے۔ یہ درست ہے کہ جمہوری ادوار میں بھی قرضو ں میں غیر معمولی اضافہ ہوا مگر بات صرف قرض کے حصول کے حوالے سے اعداد و شمار تک نہیں ہے، ہمیں دیکھنا ہوگا کہ حقیقی اور پائیدارترقی کے لئے قرضوں کا استعمال کب ہوا۔ ڈاکٹر عشرت حسین پاکستان میں ان عہدوں پر رہے ہیں جہاں سے پاکستان میں حکمرانی اور منصوبہ بندی کے مسائل کی واضح ترین تصویر نظر آ سکتی ہے لہذا ان کی کتاب نظرانداز کرنے کے قابل نہیں ہے۔ دلچسپ امر تو یہ ہے کہ ڈاکٹر عشرت حسین نے بہترین گورننس میں بلدیاتی ادارو ں کی اہمیت پر زور دیا تو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی تسلیم کیا۔ا نہوں نے کہا کہ لاہور میں بیٹھ کے دور دراز کے علاقوں میں گورننس کے مسائل سے نہیں نمٹا جا سکتا۔ آمریت کے مقابلے میں جمہوری ادوار میں بلدیاتی اداروں کی موجودگی اور اثرپذیری کا رکارڈ قابل تعریف نہیں ہے۔ مسلم لیگ نون کی حکومت کریڈٹ لیتی ہے کہ اس کے ادوار میں زیادہ مرتبہ بلدیاتی انتخابات کروائے گئے مگر دوسری طرف بہرحال یہ آمریتیں ہی تھیں جنہوں نے ان اداروں کو اختیارات دئیے، چاہے وہ پارلیمان کے خلا ف ایک سازش ہی کے طور پر کیوں نہ تھے۔
میں نے کہا کہ پاکستان میں گورننس کے مسائل کو زیر بحث لانے کے لئے شہباز شریف سے بہتر کوئی شخصیت نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ سول و ملٹری بیوروکریسی کو کس طرح ساتھ لے کر چلنا ہے۔ میں ذاتی طور پر ان کی طرف سے ارکان اسمبلی کو کم اہمیت دینے کو تنقید کا نشانہ بناتا ہوں مگر مجموعی طور پر وہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت ملک کے تمام انتظامی یونٹس کے مقابلے میں کہیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کی حکمرانی کے حوالے سے سب سے بڑا اعتراض یہی تھا کہ وہ صحت ، تعلیم اور امن و امان کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر کرنے کی بجائے انفراسٹرکچر کے میگا پراجیکٹس کو زیاد ہ اہمیت دیتے ہیں مگر اسے کسی حد تک تشہیری مہم کی ترجیحات کی غلطی کہا جا سکتا ہے، ایک تازہ اشتہار بتا رہا ہے کہ پنجاب حکومت نے ستاون مہینوں میں ایک سو ستر ہسپتال بنائے ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ شہباز شریف جانتے ہیں کہ انہوں نے مقتدر حلقوں کو کیسے رام رکھنا ہے جو پاکستان میں گورننس کی عمارت میں بنیادی پتھر کی طرح اہم ہے کہ اگر آپ ان حلقوں کو خوش نہیں رکھتے تواس کے جوا ب میں وہ سیاسی لوگ ہی باقی نہیں رہتے جنہوں نے بہتر حکمرانی کی خاطر ادارہ جاتی اصلاحات پر عمل کرنا ہے۔ میں پیپلزپارٹی کی گورننس کے ماڈل کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ بھی اپنے ایک نظریاتی ماضی کے باوجود اس اہم ضرورت کو پورا کرنے میں کامیاب رہے، انہوں نے اپنی پارلیمانی مدت پوری کی۔ پاکستان میں گورننس کے مسائل میں دوسرے نمبر پر سب سے اہم جمہوری حکومتوں کی پارلیمانی مدت کی تکمیل نہ ہونا ہے۔ اس امر کو کسی سویپنگ سٹیٹمنٹ کے ذریعے مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ جمہوری حکمرانوں کو کم از کم مزید دوسے چار پارلیمانی ادوار سر جھکا کے گزارنے ہوں گے اور پھر وہ وقت آئے گا جب جمہوریت ہماری عادت بنے گی۔ ہم وہ عجیب و غریب قوم ہیں جس کے رائے عامہ تشکیل دینے والے بہت سارے عناصر عوام کی حاکمیت کے خلاف مقدمے میں فریق ہیں۔ پاکستان میں سیاسی فیصلے نظام کی بہتری، امن و امان کی بحالی، توانائی کے بحران کے خاتمے اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کی بنیاد پر ہوں گے تو مسائل کا حل کا نظام خود کار ہوجائے گا۔ پاکستان میں گورننس کے مسائل نے نیچے کی بجائے اوپر سے جنم لیا ہے جب ہمارے حکمران مارشل لائی نظامو ں کے تحت خود کو ہر آئین اور قانون سے بالاتر سمجھتے رہے ہیں۔
ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم پاکستان میں گورننس کو زیر بحث لائیں، سیاست میں نظریاتی تفریق روز بروز کم ہوتی چلی جا رہی ہے کہ اس وقت سیاست کے منظرنامے پر دونوں اہم جماعتیں سنٹر رائیٹ کی نمائندگی کر رہی ہیں ۔ میں کرپشن کے حوالے سے جاری بحث میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا کہ عشروں سے جاری الزام تراشی کی اس مہم کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ جب عمران خان کو ایک ناجائز بیٹی کا باپ اور شوکت خانم سمیت رفاعی اداروں کے فنڈز جوئے میں اڑا دینے جیسے الزامات کا نشانہ بنایا جا رہا تھا تو وہ نوجوانوں کے لیڈر کے طور پر ابھر رہے تھے ۔ انہیں چاہنے والے اس سوال پر غور کرنے کے لئے بھی تیار نہیں تھے کہ جب خان صاحب کا کوئی ذریعہ معاش ہی نہیں تو پھر وہ ارب پتی کیسے ہوتے چلے جا رہے ہیں اور یہی معاملہ نواز شریف کا رہا کہ جب انہیں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے ایک متنازعہ فیصلے میں نااہل قرار دیا تو ان کے جلسے پاکستان میں ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ اس کامطلب یہ ہرگز نہیں کہ پاکستان کے عوام کرپشن کو نظرانداز کرتے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کو درست کررہے ہیں اور اپنے فیصلے کرپشن کی لایعنی بحث کی بجائے پرفارمنس اور گورننس کے معاملات پر کر رہے ہیں۔ عمران خان کے حامیوں کا خیال تھا کہ بات بات پر مغرب کی مثالیں دینے والے خیبرپختونخوا میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے مگر وہ اس میں ناکام رہے اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے حامیوں کی تمام تر امیدیں عوام کی بجائے بابے رحمتے اور عابد باکسر وغیرہ سے ہیں۔ جو دبئی میں رہا ہوچکا ۔گورننس اور پرفارمنس کی بنیاد پر ہونے والے فیصلوں کی بنیاد پر پیپلزپارٹی اس سے بہت پہلے ہی ملک گیر سطح پر نااہل ہوچکی ہے۔