قومی سیاست کو عمران خان سے پاک کئے بغیر……

بلاول بھٹو زرداری قومی سیاست میں ایک نوجوان کردار کے طور پر بڑے احسن طریقے سے آگے بڑھتے نظر آ رہے ہیں ان کے بیانات، ان کی تقاریر متوازن اور مناسب ہی نہیں بلکہ نظریاتی بھی ہوتی ہیں۔ وہ پیپلزپارٹی کے فکری و نظری کردار کے احیاء کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں عمران خان ایک اہم سیاستدان، لیڈر، کلٹ رہنما کے طور پر اپنا آپ منوا چکے ہیں۔ 1996ء میں تحریک انصاف کے قیام سے لے کر 2011ء میں مینار پاکستان کے جلسے تک، پھر 2018ء میں حکومت میں آنے اور اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں رخصتی تک عمران خان اپنی سیاسی عمر پوری کر چکے ہیں۔ انہوں نے جو کہا،جو بویا وہ قوم دیکھ چکی ہے اب وہ مکافاتِ عمل کا شکار ہیں۔ چلا رہے ہیں، چیخ رہے ہیں، ریاست کو بددعائیں دے رہے ہیں، اسے ناکام بنانے کی کاوشیں کررہے ہیں ان کا مقصدِ وحید انتشار، انتشار اور صرف انتشار ہے۔ بات ہو رہی تھی قومی سیاست کے ایک نوجوان کردار، بلاول بھٹو کی۔ جی ہاں ان کا ایک حالیہ بیان انتہائی اہم اور فکر انگیز بھی ہے او ران کی سیاسی بصیرت کا اظہار بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران سے جمہوری کردار کی امید نہیں، پاکستان کی سیاست کو ان سے پاک کرنا ہوگا، آج ملک کا نوجوان مایوس ہے تو اس میں بانی پی ٹی آئی کا کردار ہے“۔
بلاول بھٹو نے کیا خوب بات کی ہے کہ عمران سے جمہوری کردار کی امید نہیں ہے۔ عمران خان کا سیاست میں آنے سے پہلے بطور کرکٹر اور ٹیم کیپٹن کردار دیکھ لیں۔ اس میں رعونت، ڈکٹیٹر شپ، من مانی جیسی صفات نظر آئیں گی۔ 1996ء میں تحریک انصاف کے قیام کی تاریخ دیکھیں تو اس کے قیام میں ہماری اس وقت کی فوجی جتنا شامل تھی شاید تحریک انصاف کے پہلے سیکرٹری جنرل بھی ایک فوجی جرنل ہی تھے انہیں بنانے، چلانے اور اقتدار میں لانے والے سب فوجی کردار ہی تھے انہیں سیاست فوجیوں نے سکھائی جنرل پاشا سے لے کر جنرل فیض حمید تک، ان کے سارے ذہن ساز فوجی جرنیل بھی تھے ان کی ذہنی ساخت اور سیاسی تربیت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان سے جمہوری کردار کی امید نہیں ہے۔ عمران خان روزِ اول سے بھی نفرت و انتشار کی سیاست کرتے رہے ہیں۔ ہر ایک پر تنقید،ہر ایک کے خلاف نفرت انگیزی، طعن و تشنیع اور گالم گلوچ عمران خان کا وتیرہ رہا ہے۔ پارلیمان میں آنے کے بعد بھی انہوں نے بطور اپوزیشن صرف گالم گلوچ کا وتیرہ ہی اپنائے رکھا۔ شہبازشریف اور دیگر جماعتوں کے قائدین سے ہاتھ ملانا تک گوارہ نہیں کیا۔ میاں نواز شریف ہوں یا شہباز شریف، آصف علی زرداری، محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن، انہوں نے کسی کو نہیں بخشا، ہر ایک کی نام لے لے کر تضحیک کی۔ عمران خان غیر ملکی صیہونی عناصر کے ایجنٹ کے طور پر سیاست میں لائے گئے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا۔ یہ ڈاکٹر اسرار احمد اور حکیم سعید مرحوم و مغفور نے کہا تھا اور اس وقت کہا تھا جب عمران خان کا سیاست میں آنے کا دور دور تک امکان نہیں تھا۔ پھر عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے بچہ جمورا بن کر اقتدار میں آئے انہیں ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ پاکستان کو کمزور کریں گے، ہر شے برباد کریں گے، وہ ایسا کر رہے ہیں انہوں نے پاکستان میں ہر سطح پر تفریق کے ایسے پیچ بو دیئے ہیں کہ وہ اب برگ و بار لا رہے ہیں۔ انہیں ذمہ داری دی گئی کہ وہ سیاستدانوں کی مٹی پلید کریں۔ انہوں نے یہ کردار انتہائی خوش اسلوبی سے سرانجام دیا۔ اقتدار میں آنے سے پہلے بھی اور اقتدار حاصل کرنے کے بعد بھی انہوں نے یہ کردار بطریق احسن نبھایا ہے۔ انہوں نے کسی ایک کو بھی نہیں بخشا کہ جس کی پگڑی نہ اچھالی ہو، سرعام رسوا نہ کیا ہو۔ اپریل 2022ء میں اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد انہوں نے اپنی محسن، مربی اور مددگار عسکری اسٹیبلشمنٹ کو بھی نشانے پر رکھ لیا۔ ویسے تو ان کا روزِ اول سے ہدف ہی فوج تھی اور اب بھی ہے انہیں سیاست میں لانے کا مقصد وحید بھی پاکستان کو کمزور کرنا تھا اور ایسا کرنے کے لئے فوج کو کمزور کرنا ضروری ہے۔ فوج اور عوام کے درمیان عدم اعتمادی کی دیوار کھڑی کئے بغیر یہ ہدف حاصل نہیں ہو سکتا۔ وہ یہ ڈیوٹی بڑی تندہی سے انجام دے رہے ہیں اس لئے بلاول بھٹو کا کہنا کہ عمران سے جمہوری کردار کی کوئی امید نہیں، سو فیصد درست نظر آتا ہے، اگر پاکستان میں جاری سیاست کو درست سمت میں لے جانا ہے تو پاکستانی سیاست کو عمران خان سے پاک کرنا ہوگا، بالکل درست ہے باقی یہ مذاکرات، یہ ڈیل کی باتیں وغیرہ وغیرہ سب ٹامک ٹوئیاں ہیں۔ عمران خان اپنے دیئے گئے ہدف پر لگا ہوا ہے وہ جیل میں ہو یا بنی گالہ اور زمان پارک میں، اسے ملک سے باہر بھی بھیج دیا جائے تو پھر بھی وہ سیاست میں گندگی اور غلاظت پھیلتا رہے گا کیونکہ اسے مامور ہی اس کام کے لئے کیا گیا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ قومی سیاست کو عمران خان سے پاک و صاف کر دیا جائے، جہاں تک نوجوانوں میں ناامیدی اور مایوسی کی بات ہے تو اس میں دو آراء نہیں پائی جاتی ہیں کہ نوجوانوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔روزگار کے مواقع کی عدم دستیابی، سیاسی عدم استحکام، کمزور معیشت، پاکستان کا دہائیوں سے افغان جنگوں میں فرنٹ لائن ریاست کا کردار، دہشت گردی کا فروغ اور ایسے ہی دیگر عوامل نے عمومی صورت حال کو دھندلا دیا ہے۔ ریاست اپنا کردار درست انداز میں ادا نہیں کر پائی ہے ایسے ہی عوامل نے مل جل کر نوجوانوں میں مایوسی پیدا کر دی ہے ایسی صورت حال عمران خان کے پاکستان دشمن ایجنڈے کے لئے انتہائی سازگار ثابت ہوئی۔ عمران خان نے اپنے زور خطابت، سوشل میڈیا نیٹ ورک اور بیرونی ممالک روابط کے ذریعے پاکستان کے ناکام ریاست کے تصور کو اجاگر کیا اور نوجوانوں میں جاری نظام کے خلاف نفرت پیدا کی جب 2018ء میں عمران خان خود حکومت میں آئے تو 44ماہی دور حکمرانی میں انہوں نے نوجوانوں کے لئے کچھ بھی نہیں کیا جس سے نوجوانوں میں مایوسی اور بھی بڑھی۔ آج صورت حال ایسی ہے کہ 24کروڑ عوام میں 67فیصد 30سال اور اس سے کم عمر کے نوجوان ہیں۔ ریاست نے انہیں کوئی مثبت بیانیہ نہیں دیا۔ عمرانی بیانیے کے سحر میں انہیں شدید مایوسی کا سامنا ہے۔ اسی عامل کی طرف بلاول بھٹو نے نشاندہی کی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف عمرانی سیاست سے نوجوانوں کو باخبر کیا جائے بلکہ انہیں مثبت بیانیے کی طرف لایا جائے انہیں ملک و قوم کی تعمیر کے لئے آمادہ پیکار کیا جائے لیکن سب سے پہلے انہیں امید دلائی جائے، حوصلہ دیا جائے، قومی سیاست کو عمران خان سے پاک کیا جائے۔