سڑک تاریک اور سنسان تھی ایک دو راہ گیروں سے راستہ پوچھنا پڑا

سڑک تاریک اور سنسان تھی ایک دو راہ گیروں سے راستہ پوچھنا پڑا
سڑک تاریک اور سنسان تھی ایک دو راہ گیروں سے راستہ پوچھنا پڑا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : عمران الحق چوہان 
قسط :43
ڈا کٹر اقبال ےقینا خوش حال آدمی تھے اور ان کی ثروت کا اندازہ اس وسیع با غیچے سے ہو تا تھا جہاں گھاس پر دریاں بچھا کر مہما نوں کےلئے فرشی کھانے کا انتظام کیا گیاتھا۔ حاشیے پر گاوتکیے رکھے تھے۔ ایک نیچی دیوار کی دوسری طرف سے آنے والی آوازوں سے اندازہ ہورہاتھا کہ اُس طرف خواتین کےلئے انتظام ہے۔ہم بھی جو گرز اتار کر ٹا نگیں دوہری کر کے سب کے ساتھ بیٹھ گئے۔سب ہی مہمان شلوار قمیص پہنے ہو ئے تھے سوائے ہم دو کے جو گندی جینز اور ٹی شرٹس میں ملبوس تھے۔ میرے گلے میں کیمرا اور کندھے پر شولڈر بیگ بھی تھا، جس میں دوران ِ سفر استعمال ہونے والی عام چیزیں، پنسل، نوٹ بُک، پانی کی بوتل اور رومال وغیرہ، رہتی ہیں۔ لوگوں نے مرحوم کی فاتحہ کےلئے ہاتھ اٹھائے تو ہم نے بھی خلوص ِ دل سے مر حوم کی مغفرت (اور کھانا اچھا ہونے)کی دعا کی۔ دوسری دعا تو فورا قبول ہو گئی جس سے پہلی دعا کی قبولیت کا بھی واضح اشارہ ملتا تھا۔ کھانے میں پلاو اور دیگی آلو گو شت کا سالن تھاجو لذیذ ہو نے کے علاوہ وافر بھی تھا جس کے بعد کم از کم مجھے تو مرحوم کی بخشش میں کوئی شبہ نہیں رہا۔دوران ِ طعام ہماری شرکت کی اطلاع شاید دیوار کے پار تک پہنچ چکی تھی اس لیے پہلے وقفے وقفے سے پھر تسلسل کے ساتھ ایک ایک دو دونسوانی سر منڈیر پر ابھرنے لگے۔پہلے ادھر ادھر دیکھا جاتا پھر ہمیں پہچان کر ایک لمحہ غور سے دیکھا جاتاپھر ان کی جگہ اور سر لے لیتے۔میزبان یعنی ڈا کٹر اقبال نے ہمیں خصو صی توجہ دی اور بار بار کھا نے کے متعلق پو چھتے رہے۔ ہم نے بھی تکلف کر کے انہیں مایوس نہیں کیا۔کھانے کے بعد ڈاکٹر صا حب نے مجیب الرحمٰن نامی آدمی کو ہمیں سڑک تک راہ دکھانے کےلئے ساتھ کر دیا۔ وہ بھلا آدمی گلیوں کی بھول بھلیوں سے گزار کر ہم دونوں کو ائیر پورٹ روڈ تک چھو ڑگیا۔ ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا اور چنار باغ لنک روڈ سے PTDC (پاکستان ٹور ازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن) کے ہو ٹل کی طرف چل پڑے۔ ابھی اپنے ہوٹل کے بند کمرے میں جاکر کیا کرنا تھا۔
 سڑک تاریک اور سنسان تھی ایک دو راہ گیروں سے راستہ پوچھنا پڑا۔آخر کافی چلنے کے بعد ایک دوراہا آیا اور ہم بائیں ہاتھ چنار باغ روڈ پر ہو لیے۔چند پرانی عمارتیں اور گھر، پاپلر اور سفیدے کے بڑے بڑے درخت اور کہیں کہیں روشن کوئی قمقمہ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمارے ہاں محکمہ¿ ٹو¿ر ازم کا دُور کا تعلق بھی سوشل ازم یا کمیونزم سے نہیں ہے ،اس کی بنیاد کیپٹل ازم پر ہے۔ پی ٹی ڈی سی کے ہوٹلوں میں عام سیّاح رہنے کا تصوّر بھی نہیں کر سکتا، صرف سرمایہ داراور غیر ملکی سیّاح ان کی رہائش افورڈ کر سکتے ہیں ، اس لیے اکثر ویران پڑے رہتے ہیں۔نہ اس محکمے سے سیّاحت کو کوئی فائدہ ہوا ہے۔ صرف عملہ بھاری تنخواہیں بٹور کر ملکی خزانے کو کھاتا رہتا ہے ۔ یہ ہوٹل سڑک سے ہٹ کر تھا اور اس کے کرائے حسب ِ معمول ہماری پہنچ سے باہر تھے چناں چہ شمالی علاقہ جات کے چند نقشے لے کر لوٹ آئے۔باہر مین روڈ پر ہم نے ایک دکان سے ”چھموس“ پیا(خوبانی کا چینی اورپانی کے ساتھ بنایا گیا شیک)۔چھموس فرحت بخش اور refreshing تھا۔ ناٹکو کی بس میں سفر کے بعد میری ٹا نگوں پر دھپڑ بن گئے تھے ، ایک میڈیکل سٹور سے انٹی الر جی گولیاں پوچھیں تو دکان دارعبد العلیم صا حب نے عمدہ گولیوں کا ڈاکٹری نمونہ مفت عنایت کر دیا۔
اب ہم بازار میں آوارہ گھوم رہے تھے۔ سرِ راہ ایک خستہ و خراب سنیما کے پاس پہنچ کر ہم دونوں پہلے تو گیٹ کیپر کی اجازت سے (جو اس نے بخوشی دے دی) فلم کی جھلک دیکھنے ہال میں گئے جہاں گنتی کے چند لوگ فلم دیکھ رہے تھے۔ سکرین پر چند اداکار مسخروں جیسی حرکتیں کر رہے تھے۔ ہال سے نکل کر ہم پروجیکٹر والے کمرے میں چلے گئے وہاں ایک پندرہ سولہ سال کا سیاہ فام لڑکا فلم چلا رہا تھا۔پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کا نام خرم مسیح ہے۔ وہ قلعہ گوجر سنگھ کا رہنے والاتھا اور روز گار کے لیے گلگت آیا ہوا تھا۔ کمرا گندہ اور گرم تھا۔ ہم نے خرم سے سلام دعا کے بعد فلم کو پروجیکٹر پر چڑھا نا اور چلانا سیکھا، پھردیوار میں بنے چورس سوراخ سے جھانک کر سنیما سکرین پر چلتی فلم کو دیکھا۔ ہمارے لیے یہ ایک نہایت خوش کن اور ایکسائٹنگ تجربہ تھا۔ نئی نسل کو سمجھ نہیں آئے گی کہ ہماری نسل کےلئے سنیما کیسی جادو کی جگہ تھی اور اس کے ساتھ کتنا رومان وابستہ تھا۔ میں گیٹ کیپر کے پاس شکریہ ادا کرنے رکا تو اخلاقاً اس سے باتیں کرنے لگا۔ اس نے بتایا کہ یہ سنیما کسی مقامی کی ملکیت ہے مگر ٹھیکے پر کسی پنجابی کو دے رکھا ہے :
”وہ خود یہ سنیما کیوں نہیں چلاتا ؟“ میں نے یوں ہی پوچھا۔
 ”یہ بے غیرتی کا کام مالک نہیں کرتا۔“گیٹ کیپر نے ہمیں بتا یا۔
 مالک بے غیرتی ٹھیکے پر دیتا اور اس کی آ مدنی کھاتاتھا۔یہ ہماری خود فریبی اور منافق معاشرے کے مصنوعی اصولوں میں سے ایک ہے ۔ (جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )۔