یقین نہیں آتا تو صبر کیسے آئے؟
میری معمولی سی کامیابی پہ خوش ہونے والی اور ذرا سی تکلیف پہ تڑپ اٹھنے والی میری ماں اس دنیا میں نہیں رہی۔ میری کل دنیا میری ماں تھی اور میری دنیا اب ختم ہو چکی ہے۔ ماں اب میں کیسے رہوں۔ کس سے فرمائش کروں۔ کس سے ضد کروں، آپ ہی سے تو کرتی تھی ساری ضدیں۔ ایک آپ ہی پہ تو میرا بس چلتا تھا۔ میں ساری دنیا سے ڈرتی تھی لیکن آپ سے مجھے کبھی ڈر نہیں لگا کہ آپ سے رشتہ ہی عجب تھا۔ مجھے یاد ہے شادی سے پہلے کسی بات پہ مجھے غصہ آجاتا تو آپ جھٹ سے میری عینک اتار دیتیں۔ کہتیں نقصان تو ہمارا ہی ہونا اس کا کیا جانا۔ ابھی غصے میں پھینکے گی اور پھر نئی بنوانی پڑے گی۔ میز سے بھی چیزیں اٹھا لیتی کہ غصے میں پاس رکھی چیزیں توڑ دیتی تھی اور غصہ تو بس ایسے ہی آجاتا تھا مجھے۔ لیکن شادی کے وقت کی گئی آپ کی نصیحت پر آج تک عمل کیا ہے۔ آپ کی تربیت پہ کسی کو انگلی
اٹھانے کا موقع نہیں دیا۔ اپنا غصہ آپ کے پاس ہی رکھ گئی۔ اسی لئے سسرال سے آمد پر خوب بولتی اور آپ زچ ہو کے کہتیں۔ ہمارا سر کھاتی ہو سسرال میں تو آواز نہیں نکلتی تمھاری، ادھر بولا کرو اور میں کہتی خود ہی تو روز نصیحتیں کرتی تھیں مجھے، میں ادھر سدا کی جانے والی ہوں، میرا میکہ ہے، ”تیرا لاما نہ آئے مینوں“۔ امی آپ کا مان رکھ لیا میں نے۔
میرے سسرال آنے کے بعد کا ایک ایک دن آپ کی انگلیوں پہ شمار ہوتا تھا اور میں حیران ہوتی کہ ایک دن بھی کم نہیں ہوتا آپ کی گنتی میں، کیسے آپ دو دو مہینے کا ایک ایک پل گن کے رکھتی ہیں۔
گذشتہ چند سالوں سے میرا آپ سے اکثر اختلاف ہوجاتا لیکن اس اختلاف میں بھی محبت ہی تھی۔ خدا جانتا ہے آپ میں جان تھی میری۔ جانتی ہوں میں کوئی اچھی بیٹی نہیں تھی۔ مجال ہے جو کبھی ڈھنگ کا کوئی کام کیا ہو۔ سوائے شور ڈالنے یا کام خراب کرنے کے مجھے کچھ نہ آیا۔ پھر بھی آپ مجھ سے محبت کرتی تھیں۔ مجھے برداشت کرنا اور پھر بے تحاشا محبت کرنا آپ ہی کا کام تھا ورنہ میں اس قابل نہیں تھی۔ ہمیں پتہ ہے مجھ سمیت اپنی ساری اولاد کی فکریں آپ کو بے تحاشا پریشان رکھتی تھیں، لیکن میری تکلیف آپ کی برداشت میں نہ آتی تھی۔ آپ پریشان ہوتیں تو مجھے اس کا اپنی طرف سے حل بھی دیتیں لیکن یہ حل شائید ایک اور تکلیف ہوتی جو آپ کو میری طرف سے مل جاتی، اور یہ میں ہرگز نہیں چاہتی تھی۔ رات کو اپنے مرض کی وجہ سے میں جتنی بار اٹھتی، اتنی بار آپ بے چین ہوجاتیں۔ خود تکلیف میں ہوتیں تو میرے دکھ پر روتیں۔ میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ آپ کی آخری رات ہے ہمارے ساتھ ورنہ ایک لمحے کے لئے بھی آپ سے الگ نہ ہوتی۔ آپ کی بات مان کر آپ کے پاس ہی سوجاتی، یہ دکھ میری زندگی کے سب دکھوں پہ بھاری رہے گا۔
میں جو گھر کی چھوٹی تھی آج تک بڑی ہی نہیں ہوسکی۔ جب ماں بیاہی بیٹی کا دو سال کے بچے کی طرح خیال رکھے تو پھر وہ کیسے بڑی ہو سکتی تھی۔ میں نا سمجھ ہی رہی آپ میرے کندھے پہ سر رکھ کے چلی گئیں اور میں یہی سمجھی کہ آپ سو گئی ہیں۔ کیسے یقین کر لوں کہ میرے ساتھ لگ کر آپ مجھے ہمیشہ کے لئے تنہا چھوڑ گئی ہیں۔ میرے کانوں میں آپ کی آوازیں گونجتی ہیں، آپ کی آخری باتیں، آخری بار مجھے دیکھنا، میرا آپ کو آخری بوسہ دینا، میرا دل قبول نہیں کرتا کہ یہ سب دوبارہ میری زندگی میں اب نہیں ہوگا۔
امی مجھے سکون نہیں ملتا، ہر لمحہ آپ کی یاد میں رو کے گذرتا ہے۔ میرے درد پہ تڑپنے والی ماں اب مجھے کون کہے گا میرے سامنے رونا مت۔ سب کہتے ہیں آپ کے جانے پہ صبر کروں،انہیں کیا پتہ مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا توصبر کیسے آئے۔
کیسے یقین کروں کہ اپنے درد میں میرے لئے دعا کرنے والی ماں نہیں رہی۔ مجھے نہیں پتہ زندگی میرے ساتھ آگے کیا چال چلے گی لیکن اتنا پتہ ہے کہ اب زندگی جو بھی چلن چلے اب میں تنہا ہوں۔ میرے لئے پریشان ہونے والی ماں نہیں ہے۔ یہ سوچ کر میرا دل پھٹتا ہے کہ فون پہ میری آواز سنتے ہی پہلا سوال مجھ سے کون کرے گا طبیعت کیسی ہے دوائی سے فرق پڑا، یہ کھاؤ، وہ کھاؤ۔ مجھے کون اصرار کر کر کے بلائے گا آ جاؤ اب رہنے۔ امی میں اب کسے تنگ کروں گی۔ میں کس کے پاس عید کرنے جاؤں گی۔
امی میری عید اب کبھی نہیں ہوگی۔ ماں میں اس بھری دنیا میں تنہا ہوگئی ہوں امی میں آپ کی محبتوں کی مقروض ہوں۔ آپ کا حق ادا نہیں کر سکی میں آپ کو بہت ستاتی تھی۔ امی مجھے معاف کر دیجئے گا۔ بڑھاپے اور کمزوری کے باوجود تہجد ادا کرنے والی میری ماں خدا آپ کی قبر پہ نور کی بارش کرے۔ آمین۔ میرے پاس الفاظ نہیں آپ سے محبت کا اظہار کے، محبت کے اظہار کاسلیقہ تو مجھے کبھی آیا ہی نہیں، لیکن یہ میرے آنسو میرا پھٹتا ہوا دل آپ سے محبت ہی تو ہے۔