‎ ہائی کمیشن لندن کی کارکردگی۔۔۔؟

‎ ہائی کمیشن لندن کی کارکردگی۔۔۔؟
‎ ہائی کمیشن لندن کی کارکردگی۔۔۔؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

‎ سرفراز نواز کے قلم سے
‎ ‎دنیا بھرمیں  تقریبا سارے ممالک اپنے سفارتی عملے کو دیگر مملک میں تعینات کرتے ہیں جو ان ممالک کے ساتھ مضبوط عسکری، سیاسی ، سماجی ، کاروباری و دیگرشعبہ ہائے زندگی سے متعلقہ تعلقات کو بنانے کے لیے اپنا کردار  ادا کرتے ہیں۔بیرون ممالک میں تعینات ہونے والے ان جریدہ و غیر جریدہ ملازمین کی تعیناتی سے قبل مکمل چھان بین کی جاتی ہے تاکہ یہ اپنی بہترین پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنے ملک وقوم کی عزت وتقریم اور بیرونی سرمایہ کاری  میں بے پناہ اضافہ کا باعث بن سکیں ۔ ترقی یافتہ ممالک میں ان تعیناتیوں میں سفارشی  عمل سے مکمل گریز کیا جاتا ہے جبکہ ترقی پزیر ممالک اس سفارشی لعنت کا اکثر وبیشتر شکار نظر آتے ہیں۔ 

دنیا کے بیشتر ممالک میں اس کے سفارت خانوں میں کثیر تعداد میں لوگ موجود ہیں جو بظاہر پاکستان کے مثبت چہرے کو دنیا بھر میں اجاگر کرنے کے ہمہ وقت کوشاں نظر آتےہیں لیکن اگر حقیقت بیان کی جائے تو آج اقوام عالم میں پاکستان اس مقام پر کھڑا نظر نہیں آرہا جس کایہ حقدار بنتا ہے۔اس کا کریڈٹ ہمارے دیگر عہدیداران کے ساتھ ساتھ   ان بادشاہ صفت ڈپلومیٹس کو بھی جاتاہے جو بیرون ملک کم و بیش تین سال کی تعیناتیوں میں ان تھک محنت و لگن کی بجائے ذاتی تعلقات اورپسند و ناپسند کے چکر میں مطلوبہ نتائج  حاصل نہیں کر سکتے ۔جن کے حصول کے لیے قوم کے ٹیکس کے پیسے سے انھیں کئی فیصدزیادہ تنخواہیں ودیگر مراعات دی جاتیں ہیں جبکہ اعلی افسران اور ان کے ماتحت عملے  کے چہروں پر آپ کو ایک خاص قسم کا اطمینان نظر آئے گا جیسے کہ قائداعظم کے ہر اول دستے  میں یہ اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن ادا کر  رہے ہوں۔

پاکستان کی  بدقسمتی میں مزید اضافہ اس وقت ہوتا ہے جب طویل مدتی قومی مفادات کی بجائے قلیل وقتی ذاتی مفادات اور پسند نا پسند کی بنیاد پر  اہم تعیناتیاں عمل میں لائیں جاتیں ہیں۔ذمہ داران کو اس بات کا دور دور تک اندازہ نہیں کہ ان کے ان اقدامات سے قوم کا حال اور مستقبل کس قدر بھاری نقصان اٹھا رہا ہےاور آنے والی نسلیں اس نقصان کے بوجھ تلے دب کر رہ جاہیں گی۔بالخصوص موثر چیک اینڈ بیلنس کی بجائے ڈھیل کی پالیسی سے بھی  وزارت خارجہ اپنا اقبال مزید بلند کرواتی محسوس ہوتی ہے۔
‎برطانیہ میں پاکستان ہائی کمیشن لندن بڑی اہمیت کا عامل ہے  جو پاکستان اور برطانیہ میں ہونے والی تمام سرگرمیوں میں پل کا کردار ادا کرتا ہےجبکہ برمنگھم ،مانچسٹر ، بریڈ فورڈ اور گلا سکو کے قونصلیٹ بھی اسی طرز پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں۔برطانیہ میں پاکستان اور آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والی اوور سیز  کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر برطانیہ بھر سے سینکڑوں پاکستانی وکشمیری  اپنے پاسپورٹ، شناختی کارڈ سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے سنٹرل لندن میں واقع پاکستانی ہائی کمیشن کا رخ کرتے ہیں۔ ہائی کمیشن لندن اور دیگر قونصلیٹس کی کارکردگی کامفصل  جائزہ آئندہ اقساط میں بیان کیا جائے گا۔

ماہانہ لاکھوں ڈالرز کے اخراجات  کے بعد  مطلوبہ نتائج / کارکردگی کا اصل ڈیٹا تو وزارت خارجہ کے پاس ہوگا جو بتا سکتا ہے کہ یہ عملہ کتنا فرض شناص ہے۔۔ ہم تو عام لوگوں میں گردش کرنے والی کہانیوں سے ہی اپنی  رائے قائم کر سکتے ہیں۔پاکستان ہائی کمیشن لندن ، ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل کی سربراہی میں کام کر رہا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نہایت محنتی اور نفیس شخصیت کے مالک ہیں اور وہ کمیونٹی میں کافی سرگرم  نظر آتے ہیں۔ان کی اہلیہ ڈاکٹر سارہ نعیم  بھی بہت پڑھی لکھی اور متحرک خاتون ہیں جو پاکستانی خواتین  کی تقریبات میں پاکستان کی بہت اچھے سے نمائندگی کرتی ہیں  لیکن اگر ہائی کمیشن میں تعیناتیوں پر نظر دوڑائیں تو آپ کو ان گنت عہدے ملیں گے جن کا فاہدہ صرف وزارت ہی جانتی ہے ۔

مختلف ڈیپارٹمنٹس کے سربراہوں کو منسٹر کا اضافی لقب بھی دیاجاتاہے  جن میں ٹریڈ منسٹر، پریس منسٹر، تعلیم منسٹر وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ جیسا کہ آپ کو علم ہی ہوگا پاکستانی ہواور نام کے ساتھ منسٹر لگ جائے پھر تو کارکردگی مثبت کی جگہ سوالیہ ہی رہتی ہے۔ ہائی کمیشن کی بلڈنگ میں وقتا فوقتا مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں وہی مخصوص  چند درجن منظور نظر لوگوں کی اکثریت نظر آتی ہے جو ان کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے تھکتے نہیں ۔ متعدد موقعوں پر ہائی کمشنر  اور ان کے ما تحت ذمہ داران کو مہمانوں کی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرنے کی درخواست کی گئی جسکی وجہ سے نتائج مزید بہتر ہو سکیں مگر مجال ہے جو ان کے کان پر جوں تک رینگے۔ اگر یہ فہرستیں تبدیل ہو گئیں تو مدعا سرائی کون کرے گا اور بادشاہ وقت کے کان محظوظ کیسے ہوں گے۔ 
‎ہائی کمیشن کو چاہیے کہ وہ ملک کے طول وعرض میں ان تقریات کو لیکر جائیں تاکہ ایک عام پاکستانی کو بھی ملک خداداد کی خدمت کرنے کا پلیٹ فارم مہیا کیا جا سکے۔ا‎سکی مثال ایسے دی جا سکتی ہے کہ کچھ عرصہ قبل لندن  میں  پاکستانی نژاد تاجروں کی ایک تقریب میں کوریج کے لیے   جانے کا اتفاق ہوا جس میں سوال وجواب کے وقفہ میں ان تاجروں نے ہائی کمیشن میں موجود ٹریڈ منسٹری کے کردار کو شدید الفاظ میں تنقید کا نشانہ بناتے ہوتے کہا کہ یہ لوگ کچھ اور ہی مقاصد سے یہاں ٹرانسفر لیتے ہیں۔

پاکستانی مصنوعات کی برطانیہ کی منڈیو ں میں  بڑی ڈیمانڈ ہے  لیکن یوکے میں ان درآمدات کے لیے کوئی حوصلہ افزا کردار نہیں ادا کیا جاتا بلکہ ہائی کمیشن میں ہونے والی کاروباری سرگرمیوں میں ان لوگوں کی تعداد نظر آتی ہے جو نجی محفلوں میں پاکستان میں سرمایہ کاری کی بجائے عرب ممالک کو ترجیح دیتے ہیں۔صرف فوٹو سیشن کے لیے ان تقریات کی کرسیوں پر براجمان نظر آتے ہیں۔ اگر آپ مزید تحقیق کریں تو ہائی کمیشن کے لوگ بھی ان ہی کی ذاتی محفلوں میں حاضری لگوانے کو باعث سعادت  سمجھتے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کے حصول میں  پاکستان کے پڑوسی ممالک بالخصوص   انڈیا، بنگلہ دیش اس کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔کیا ہم انکے مثبت اقدامات کو اپنا نہیں سکتے؟  کیا ہم واقعی اس اہلیت سے عاری ہیں ؟ ہر گز نہیں، صرف موثر چیک اینڈ بیلنس کی عدم دستیابی نے ملک کے اداروں کو کھوکھلا کر دیا ہے، وزارت خارجہ کو فوری ایک موثر جائزہ پالیسی کا اعلان کرنا چاہیے جس میں عام لوگوں  براہ راست شامل ہوں   تاکہ  سرمایہ کاری کے لیے  مزید مثبت  اقدامات اٹھائے جاسکیں اور فعال تاجروں کی ہائی کمیشن کے ساتھ رابطے کو بھی یقینی بنایا جائے ۔ان تاجروں کے جائز مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کروانے کے لیے موثر کردار ادا ہوناچاہیے۔ 
‎یہاں پر پریس منسٹری کے کردار کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے  جس کا بنیادی کام ہی لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔ بیرون ممالک میں موجود افراد کی آواز بھی  حکام بالا تک لیکر جا نا ہے تاکہ وقتا فوقتا موجودہ  پالیسیوں پر نظر ثانی ہو سکے اور ہائی کمیشن کے کردار کو بطریق احسن اوورسیز میں نمایاں کیا جاسکے  لیکن حسب عادت ان کو بھی ان مسائل کا سامنا ہے جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں۔ فعال صحافی حضرات کی بڑی تعداد یہ  واویلا کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہمیں بھی ہائی کمیشن کی سرگرمیوں میں شامل ہونے کا موقع دیں، مجبوری یہ ہے کہ عملہ ان  میٹھے میٹھے صحافی  بھائیوں کو کیسے یہ نظر انداز کر سکتے ہے جنھوں نے سب اچھا کی گردان یاد کی ہوئی ہے۔ لگتا ہے مہمانوں کی جو  فہرستیں موجود ہیں اس میں ردو بدل کے لیے وزیر خارجہ اور وفاقی سیکرٹری خارجہ کے دستخط درکا رہیں جو ان افسران کی پہنچ سے کافی دور دکھائی دیتے ہیں۔ تقریباً ایک سال  پہلے پاکستانی ٹی وی چینل کی ایک تقریب میں شریک  پریس منسٹر ی کے ذمہ داران کی خدمت میں ایک صحافی نے دوران تقریب اس معاملے کو پیش کیا مگر انھوں نے اسکی حساسیت کو سمجھنے کی بجائے اپنے انتہائی قابل عملے کی روایات کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جن کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا اندازہ تو انھیں مختلف تقریات میں اٹھائے جانے والے تلخ سوالوں سے ہی ہو جانا چاہیے۔  آج پاکستان ایک منظم میڈیا وار کا شکار ہے جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے پوری قوم کے ہر فرد کی مدد درکا رہے۔ اس  جنگ کا مقابلہ  چند  منظور نظر میڈیا افراد اکیلے نہیں کر سکتے۔اسکے لیے آپ کو اپنا دل بڑا کرنا ہوگا۔ وسیع تر  قومی مفاد کو ترجیح دینا ہوگی۔بہت سے موثر اقدامات سے منفی پروپیگنڈے کا قلع قمع کرنا ہوگا۔  اس  ڈیپارٹمنٹ کویہ تصور کرنا ہوگا کہ وہ  حالت جنگ میں ہے۔ پاکستان میں موجودہ دہشت گردی کی نئی لہر نے آپ کے  کردار کو بہت اہم ذمہ دار یوں سے نواز دیا ہے، ضرورت اس امر کی ہےکہ  ہائی کمشنر بھی راقم کی تھوڑی  گزارشات کو زیادہ سمجھ کر کوئی موثر ایکشن لیں ، کہیں ایسا نا ہوکہ آپ کی بجائے یہ ایکشن ہزاروں میل دور سے لینا پڑ جائے اور آپ پھر بقول شاعر یہی کہتے پھریں۔ 
‎ناکام تمنا دل اس سوچ میں رہتا ہے 
‎یوں ہوتا تو کیا ہوتا یوں ہوتا تو کیا ہوتا۔

۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
 ۔
 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -