قومی سلامتی اور ایک پارٹی  کی ہٹ دھرمی

قومی سلامتی اور ایک پارٹی  کی ہٹ دھرمی
قومی سلامتی اور ایک پارٹی  کی ہٹ دھرمی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیراعظم میاں شہبازشریف کی طرف سے ملک میں  جاری دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کیلئے جامع پالیسی وضع کرنے کیلئے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان انتہائی خوش آئند ہے ۔دوسری طرف  حکومتی اتحادی پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی نیشنل ایکشن پلان ٹو بنانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ دشمن ہماری نااتفاقی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔  جعفر ایکسپریس کو اغواء کرنے والے تمام دہشت گردوں کے سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جانے کے باوجود دہشت گردوں کی تخریبی سرگرمیاں کم نہیں ہوئیں، جنوبی وزیرستان اورٹانک کی سرحد پر جنڈولہ میں دہشت گردوں نے سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر بارودی گاڑی سے خودکش حملہ کی کوشش کی تاہم سکیورٹی فورسز نے چیک پوسٹ میں خوارج کے داخلے کی یہ کوشش ناکام بنا دی اور دلیری کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے دشمن کو موثر انداز میں نشانہ بنایا جس سے بارودی گاڑی چیک پوسٹ کی دیوار سے ٹکرانے والے تمام دس دہشت گرد جہنم واصل ہو گئے۔ علاقے میں خوارج کیخلاف کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔ وزیراعظم محمد شہبازشریف نے جنڈولہ‘ ٹانک اور خوارج کا چیک پوسٹ پر حملہ ناکام بنانے پر سکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے ضلع کھچی میں دہشت گردوں نے زیرتعمیر ڈیم پر حملہ کرکے سات مزدوروں کو اغواء کرلیا اور وہاں موجود مشینری کو آگ لگا دی۔ 

یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردوں کی تسلسل کے ساتھ بڑھتی وارداتوں کے باعث آج ملک حالت جنگ میں ہے چنانچہ ملک کی سلامتی کے تحفظ اور شہریوں کی حفاظت کیلئے سکیورٹی فورسز کا ہمہ وقت الرٹ رہنا ضروری ہو گیا ہے۔ ہمارے سکیورٹی ادارے وطن پر جانیں نچھاور کرتے ہوئے ملک کی سلامتی کیخلاف دشمن کی سازشیں ناکام بنانے کا فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ بے شک قوم کو اپنی بہادر افواج اور دوسری سکیورٹی فورسز پر فخر ہے جو ملک کی حفاظت کیلئے دشمن کے آگے ڈھال بنی نظر آتی ہیں تاہم یہ لمحہ فکریہ ہے کہ سکیورٹی فورسز کی جانفشانی اور انکے ہمہ وقت الرٹ رہنے کے باوجود دہشت گردوں کو افغان سرحد سے پاکستان میں داخل ہونے اور بھاری اسلحہ‘ گولہ بارود اور خودکش جیکٹوں سمیت دہشت گردی کیلئے متعین کردہ اپنے اہداف تک پہنچنے کا آسان موقع کیونکر حاصل ہو رہا ہے۔

 اس امر میں اب کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ پاکستان میں سفاکانہ دہشت گردی کے ذریعے اودھم مچانے والے خوارج اور دوسرے دہشت گردوں کو ہمارے شروع دن کے دشمن بھارت کی مکمل سرپرستی اور سہولت کاری میسر ہے جو کابل کی طالبان انتظامیہ کے ساتھ ملی بھگت اور اسکی معاونت سے اپنے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو اسلحہ اور گولہ بارود سمیت افغان سرحد سے پاکستان میں داخل کرتا ہے  جن کا نیٹ ورک افغانستان میں ہی موجود ہوتا ہے اور وہ ان کے ساتھ دہشت گردی کی ہر واردات کے دوران مسلسل رابطے میں رہتے اور ہدایات حاصل کرتے ہیں۔ جعفر ایکسپریس کے سانحہ کے حوالے سے ہمارے سکیورٹی اداروں نے اس واردات کے دوران دہشت گردوں کے افغانستان میں موجود سہولت کاروں اور انکے ماسٹر مائنڈ سے رابطے میں رہنے اور ہدایات لینے کے ناقابل تردید ثبوت حاصل کئے ہیں جو سلامتی کونسل کو بھی فراہم کر دیئے گئے ہیں تاہم سکیورٹی فورسز کو دہشت گردوں کیخلاف ہمہ وقت الرٹ رکھنے کے ساتھ ساتھ ان خامیوں اور کمزوریوں پر قابو پانے کی بھی ضرورت ہے جن سے فائدہ اٹھا کر دہشت گردوں کو اپنے اہداف تک پہنچنے کا موقع مل رہا ہے۔ 

 پاکستان کی جانب سے واضح طور پر یہ باور کرادیا گیا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی بھارت پشت پناہی کر رہا ہے جو جعفر ایکسپریس پر حملہ میں بھی ملوث ہے۔ اس حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ نے جعفر ایکسپریس پر حملے کے خلاف ردعمل دیتے ہوئے واضح کیا کہ ٹرین پر حملے کا ملک سے باہر بیٹھے دہشت گردوں کا پلان تھا جن کی بھارت سرپرستی کر رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس واقعہ کے دوران ٹریس شدہ موبائل فون کالوں میں افغانستان رابطوں کا سراغ ملا ہے۔ پاکستان اس حوالے سے افغان حکومت پر زور دیتا ہے کہ وہ جعفر ایکسپریس پر حملے کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کرے جو افغانستان میں موجود ہیں۔ انکے جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کے ساتھ رابطے کے ہمارے پاس شواہد بھی موجود ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ کے بقول ماضی میں بھی ایسے واقعات کی مکمل تفصیلات افغانستان کے ساتھ شیئر کی جاتی رہی ہیں اور یہ ایک مسلسل عمل ہے جو جاری رہتا ہے۔ ہمارے بہت سے دوست ممالک نے جعفر ایکسپریس پر دہشت گردی کی مذمت کی ہے جبکہ دہشت گردی کیخلاف ہماری پالیسی میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی۔ ترجمان دفتر خارجہ کے بقول یہ پراپیگنڈا ہو رہا ہے کہ پاکستان طورخم سرحد کو کھلنے نہیں دے رہا جبکہ ہم طورخم سرحد کو کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔ افغانستان کی جانب سے پاکستانی سرحدوں کے اندر چوکی بنانے کی کوششیں کی جا رہی تھیں‘ ہم افغان حکام کو اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ ہماری سرحد کے اندر کوئی بھی تعمیرات کریں۔ 

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ سرحدوں کی حفاظت اور بیرونی عناصر کی پاکستان کے اندر نقل و حرکت کو روکنا ہماری سکیورٹی فورسز کی ذمہ داری ہے اور وہ یہ ذمہ داری احسن طریقے سے سرانجام بھی دے رہی ہیں۔ اسکے باوجود ان بیرونی عناصر کو افغانستان کی جانب سے پاکستان میں داخلے کی سہولت مل رہی ہے تو جہاں ہمیں اپنے سکیورٹی لیپس پر قابو پانے کی ضرورت ہے‘ وہیں کابل انتظامیہ کو مضبوطی کے ساتھ شٹ اپ کال دینے اور اسکے ساتھ دشمن ملک جیسا سلوک کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی سلامتی سے زیادہ تو کوئی چیز عزیز نہیں ہو سکتی۔ اگر بھارت کی طرح افغانستان بھی ہماری سلامتی کیخلاف سازشوں میں مصروف ہے اور بھارتی ’’را‘‘ کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو اپنی سرزمین سے پاکستان میں داخل ہونے کی سہولت فراہم کر رہا ہے تو اس کا ہمیں بھارت کی طرح افغانستان کو بھی مسکت جواب دینا چاہیے۔ پاکستان میں بھارتی دہشت گردی کی تصدیق تو سکھوں کی عالمی تنظیم ’’سکھ فار جسٹس‘‘ کے رہنماء گریتونت سنگھ پنوں نے بھی گزشتہ روز اپنے بیان میں کی ہے جن کے بقول پاکستان کیخلاف بھارت، خفیہ جنگی حکمت عملی کے بلیو پرنٹ پر عمل کر رہا ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ مودی سرکار ایک مکمل دہشت گرد حکومت ہے جو علاقائی اور عالمی امن کیلئے بھی خطرہ ہے اور بلوچستان میں ٹرین حملہ بھارت کے جارحانہ اقدامات کا ثبوت ہے۔ بھارت اپنے بیرون ملک مخالفین کے قتل‘ انتہاء پسندی اور سرحد پار دہشت گردی میں ملوث ہے۔ 

مذکورہ بالا حقائق کی بنیاد پر بہرحال ملک کی سالمیت کیخلاف تمام اندرونی اور بیرونی سازشوں کا قلع قمع کرنے کی ضرورت ہے جس کیلئے قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا ہموار کرنے کا یہی وقت ہے۔ اس کیلئے دہشت گردی کی  بنیادی جڑ کی  کھوج لگانا اور دہشت گردوں‘ انکے سرپرستوں اور سہولت کاروں کو نکیل ڈالنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ گیارہ سال قبل 2014ء میں اے پی ایس پشاور کے سفاکانہ دہشت گردی کے واقعہ سے قومی‘ سیاسی‘ دینی اور عسکری قیادتوں میں باہم اتحاد و یکجہتی اور متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کی راہ ہموار ہوئی تھی چنانچہ اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے عملی پیش رفت کرتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس طلب کی اور اس کانفرنس میں دہشت گردی کے تدارک کیلئے نیشنل ایکشن پلان کی متفقہ منظوری دی گئی۔

 اس پلان پر جن وجوہات کی بنیاد پر اب تک مکمل عملدرآمد نہیں ہو سکا تو اس کا وزیراعظم شہبازشریف کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں جائزہ بھی ہوگیا اور ضرورت پڑے تو ’’نیشنل ایکشن پلان ٹو‘‘ کی بلاول بھٹو زرداری کی تجویز کو عملی جامہ پہنا لیا جائے۔ آج دہشت گردی کیخلاف قومی اتفاق رائے کا راستہ پہلے ہی ہموار ہو چکا ہے اور جعفر ایکسپریس پر حملے کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد کی متفقہ منظوری اس کا ثبوت ہے۔ کوئٹہ میں وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس ‘ جس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر بھی شریک تھے‘ ٖدہشت گردی کیخلاف زیرو ٹالرنس اور غیرمتزلزل عزم کا اعادہ کیا گیا جسے بروئے کار لا کر دہشت گردوں کو نکیل ڈالی اور انکے سہولت کار ممالک کو پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہونے کا ٹھوس پیغام دیا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس ہی ہماری قومی پالیسی ہونی چاہیے۔

اس انتہائی اہم موقع پرمنگل کے روزوزیراعظم شہبازشریف کی تجویز پر قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی اجلاس ہوا  لیکن تحریک انصاف کی قیادت نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئےشرکت سے انکار کردیا ۔تحریک انصاف کے اراکین اجلاس میں شریک نہیں ہوئے  صرف  وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور نے اجلاس میں اپنے صوبے کی نمائندگی کی ۔ تحریک انصاف کے اراکین کی قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں شرکت نا کرنے کی وجہ بھی سامنے آ گئی ہے۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق تحریک انصاف،  طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھنے کے باعث اہم ترین سلامتی کمیٹی اجلاس میں شریک نہیں ہوئی۔ تحریک انصاف کے بانی قومی مفاد پر ذاتی مفاد مو ترجیح دینے پر قائم ہیں ۔دہشتگردی کے عفریت سے نمٹنے کےلیے خصوصی اجلاس میں شرکت کرنے والے افراد کو ذاتی انا میں شرکت کرنے سے روکا گیا۔پی ٹی آئی بانی اور چند افراد نے ملکی سلامتی کی بجائے ذاتی مقاصد کو مقدم رکھا ہوا ہے،سلمان اکرم راجہ کا بیان بانی کی رہائی کےلیے پریشر ڈالنے کے مترادف ہے۔

.

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -