ہر طرف ہاہا کار مچی تھی، سیاح محظوظ ہو رہے تھے،خواتین نے منڈلی علیٰحدہ سے جما رکھی تھی،مسرت کا کوئی پہلو آتا تو روایتی چیخیں مارنا نہ بھولتی تھیں
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:66
کشتی میں مقامی لوگوں نے پاکستان کے دیہاتی علاقوں میں چلنے والی ریل گاڑی جیسا ماحول بنا رکھا تھا۔ ان میں سے کچھ تو نیم درازی کی حالت میں بیٹھے حقے گڑگڑا رہے تھے اور کہیں تاش کی بازیاں لگی ہوئی تھیں۔ کچھ چھوٹی موٹی اشیاء بیچنے والے اور کچھ نابینا، معذور اور بھیک مانگنے والے بیچ میں پھر رہے تھے اور قرآن کریم کی تلاوت یا نعتیں اور نظمیں سنا کر پیسے اکٹھے کر رہے تھے۔
خواتین نے اپنی منڈلی علیٰحدہ سے جما رکھی تھی اور وہ اونچی آواز میں مسلسل باتیں کر رہی تھیں اور جہاں کہیں ان کی گفتگو میں مسرت کا کوئی پہلو آتا تو وہ منھ پر ہاتھ رکھ کر اپنی روایتی چیخیں مارنا نہ بھولتی تھیں۔ غرض ہر طرف ایک ہاہا کار مچی ہوئی تھی۔ غیر ملکی سیاح یہ سب کچھ دیکھ کر انتہائی محظوظ ہو رہے تھے یا پھر کشتی سے سر باہر نکالے دریائے نیل اور اس کے ساحلی علاقوں کی تصاویر بنانے میں مصروف تھے۔
کوئی آدھ پون گھنٹہ کا سفر طے کرکے کشتی منزل مقصود پر پہنچ گئی۔ مقامی باشندے تو جلدی سے اتر کر تیز تیز قدموں سے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔ سیاح البتہ وہیں کھڑے اپنے گائیڈوں کا انتظار کرتے رہے۔ یہ اس علاقے کا ایک بڑا سا گاؤں تھا جو دریائے نیل کے کنارے ذرا بلندی پر ایک پہاڑی کے نیچے واقع تھا۔ ہم دونوں اور دوسرے سیاح آہستہ آہستہ چڑھتے ہوئے جب اس میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہ بھی پاکستانی دیہاتی آبادیوں کی طرح کا ایک سیدھا سا گاؤں تھا۔ جس میں کچے پکے گھر تھے اور جہاں لوگ باہر بنے ہوئے تھڑوں پر بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ نان بائیوں کی دُکانوں سے دھیما دھیما دھواں اٹھ رہا تھا اور تازہ روٹیوں کی خوشبو ہر سو بکھری ہوئی تھی۔ یہ موٹی موٹی روٹیاں ایک خاص قسم کے تندور میں بنائی جا رہی تھیں اور آس پاس کھڑے ہوئے لوگ اور بچے انتظار میں کھڑے تھے۔ جیسے ہی کچھ روٹیاں پک کر باہر آتیں سب ایک ساتھ ہی ان پر ٹوٹ پڑتے اور نان بائی کی مسلسل چیخ و پکاراور یقین دہانیوں کے باوجود کوئی بھی اپنی باری پر روٹیاں لینے کو تیار نہیں تھا۔یہاں پہلی دفعہ دیکھا کہ نانبائی اپنے مستقل گاہکوں کو روٹیاں ان کے گھروں میں پہنچا کر آتے تھے۔ لکڑی کی ایک بڑی سی ٹرے میں بہت ساری روٹیاں رکھے ہوئے ایک نوجوان سائیکل پرادھر سے ادھر بھاگ رہا تھا۔
سبزی گوشت اور دوسری روزمرہ کی اشیاء کی دُکانیں بھی جگہ جگہ نظر آ رہی تھیں۔ اس گاؤں میں کاروبار زندگی اس وقت عروج پر تھا، جہاں ایک طرف چمچماتی ہوئی اکا دکا گاڑیاں نظر آ رہی تھیں تودوسری طرف اکثر دیہاتی گدھا گاڑیوں پر اِدھر سے اُدھر آ جا رہے تھے۔ کچھ باپردہ خواتین گدھوں اور اونٹوں پر سوار اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھیں۔ چرواہے اپنی بھیڑ بکریوں کو ہانکتے ہوئے اپنے ٹھکانوں کی طرف لوٹ رہے تھے۔ہل جوتنے والے اونٹ اور بیل بھی آہستہ آہستہ اپنے مالکوں کے ساتھ گھروں کو واپس آ رہے تھے، اونٹوں پر چارے اور جلانے والی لکڑی کے گٹھر بندھے ہوئے تھے۔
پاکستان کی طرح مصر کے دیہاتوں میں بھی حج یا عمرہ کرکے آنے والوں کی بہت عزت افزائی اور احترام کیا جاتا تھا اور انہیں ”حجّی“ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔تاہم ان کی ایک روایت جو مجھے بہت خوبصورت لگی وہ یہ تھی کہ کسی بھی حاجی کی وطن واپسی پر اس کے خاندان اور محلے کے لوگ اس کے گھر کی خوب سجاوٹ کرتے تھے۔ سبز رنگ کی روشنیوں کے ساتھ ساتھ گھر کی بیرونی دیواروں پر سفید رنگ پھروا کر اس پر کھجوروں اور اونٹوں کے علاوہ حرم شریف اور مسجد نبویؐ کی بڑی بڑی تصاویر بنا دیتے، جو کوئی اتنی خوبصورت تو نہ ہوتی تھیں، لیکن دین اسلام سے ان کی محبت اور عقیدت کا پتہ دیتی تھیں۔ اس کے علاوہ دیواروں پر خیر مقدمی کلمات بھی لکھے ہوئے ہوتے تھے۔ جیسے کہ ابو عبداللہ کو حج یا عمرہ مبارک ہو۔ کچھ قرآنی آیات اور احادیث بھی دیواروں پر لکھ دی جاتی تھیں۔ غرض وہاں ایک بڑا ہی متبرک ماحول بنا ہوا ہوتا تھا۔ گاؤں کی اس سیر کے دوران میں نے کم از کم تین ایسے گھر دیکھے جہاں کے مقیم یہ روحانی سفر کرکے اپنے گھروں کو واپس لوٹے تھے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں