کامیابی کا اندھیرا سویرا
”تیرا مسئلہ یہ ہے بٹ ۔۔۔۔کہ تو انسپریشن (inspiration)نہیں لیتا، کبھی یہ خیال نہیں کرتا کہ کامیاب زندگی گزارنے کے لئے سوچ کا زاویہ کیساہونا چاہئے ؟ اگر تم نصابی کتابی باتوں پر عمل کرکے کامیاب ہونا اور اعلیٰ اخلاقی قدریں اپنے اندر اجاگر کرکے روٹی روزہ کا بندوبست جاری رکھنا چاہتے ہو تو پھر یہ سوچ لو کہ روز بروز منزل سے دور ہور ہے ہو ۔روشنی کی بجائے اندھیرے میں ڈوب رہے ہو،کامیاب رہنا چاہتے ہو تو شکل بے شک مومنوں جیسی بنائے رکھو ،مگرکرتوت کالے کرلو ۔قسمیں کھاو،لوگوں کو اچھی اچھی باتوں کی نصیحتیں کرو ،لارے لگاو ، روزانہ جھوٹ کا جاپ کرو ۔جھوٹ بول بول کر جب کامیاب ہوجاو گے تو لوگ کبھی تم کو جھوٹا نہیں کہیں گے بلکہ تمہاری مثالیں دیا کریں گے جیسے کہ اب ہمارا باس ہے “
یہ کوئی سترہ اٹھارہ سال پہلے کی بات ہے ،میں جس دفتر میں کام کرتا وہاں میرا ایک ساتھی مرزا ہر دوسرے دن مجھے کامیابی کے فلسفے کی گولی کھلاتا تھا ۔میں کافی دیر اسکی باتیں سنتا رہتا۔ دل سے مجھے بھی اسکی باتیں فی زمانہ رائج الوقت لگتیں اور میں یہی کہتا ”یار مجھ سے یہ سب نہیں ہوتا ۔میں تو جھوٹ بول کر بھی پھنس جاوں گا ۔“ جواب میں ہنس دیتا ” اسی لئے تو کہتا ہوں کہ انسپریشن لیا کرو مجھ سے ،جھوٹ آرٹ ہے ،گلیمر ہے ،تم مفت میں سیکھ سکتے ہو“
میں بدھو ناتھ کہ یہ جانتے ہوئے بھی جونئیرز سے اس بنا پر ترقیوں میں پیچھے رہا کہ کسی نے لطیفہ بھی سنا دیا تو توبہ توبہ کرنے لگتا ۔کوشش کے باوجود انسپریشن نہ لے سکا حالانکہ چشم کشا سے یہ دیکھتا رہا ہوں کہ اپنے اردگرد منافقت اور منافرت میں دھنسے ہوئے لوگ اسی فارمولا میں اپنی بقا سمجھتے ہیں۔ لیکن میں خواہش کے باوجود کبھی ان جیسا کامیاب نہ بن سکا ۔روزانہ ایک سے بڑھ کر ایک سیاپا کرنا جھیل لیا ،روز باس سے صاف ستھری اور حق بات کہنے پر کھچائی ہوکرالی،وہ پوچھتا ”بتاو یہ کام آج ہوجائے گا “”میں کہتا سر مشکل ہے ،کل ہوگا“وہ کام واقعی وقت طلب ہوتاتھا لیکن باس کو غصہ آجاتا۔ وہ مرزے سے پوچھتا تو وہ کہتا ” سر کیوں نہیں ابھی ہوجائے گا ،آپ ٹینشن نہ لیں “
یہ روز کا معمول تھا میں دیکھتا کہ با س اسے کام دیکر چلا جاتا اور مرزا بھی اس کام کو ایک نظر دیکھنے کے بعد سائیڈ پر رکھ کر باہر چائے پینے چلا جاتا ،دو چار گھنٹوں بعد آتا تو پھر کسی بحث مباحثے میں پڑ کر چھٹی کا انتظار کرتا۔باس اگلے روز آتے ہی پوچھتا ”ہاں بھئی مرزے کیا بنا کام کا “ ” جی سر ہوگیا ہے بس تھوڑا سا رہ گیا ہے “ ” اچھا اچھا کب تک ہوجائے گا “ ” بس ابھی سر ۔دراصل کل ہوجانا تھا ،آپ کو پتہ ہی ہے آج کل لوڈ شیڈنگ بہت ہوتی ہے ۔سر میں رات نو بجے تک آفس بیٹھا رہا کہ کام ختم کرکے جاوں گا حالانکہ چھ بجے میری چھٹی ہوجاتی ہے مگرجناب کا حکم تھا ، لائٹ کے انتظار میں تین گھنٹے بیٹھا رہااور لائٹ نہیں آئی “” یار یہ ہمارے مالک بھی بڑے کنجوس ہیں۔جب پتہ ہے کہ روز لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے تو ایک جنریٹر ہی لگوا دیں ‘دیکھو ناں کام کا کتنا ہرج ہوتا ہے “ باس اور مرزے کے درمیان یہ گفتگو میں ہر دوسرے دن سنتا ۔مجال ہے مرزے نے کبھی اس کام کو کبھی پلٹ کر بھی دیکھا ہوتا ،وہ جھوٹ بول کر معتبر تھا اور میں سچ بول کر فضول۔یہ تو میں اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ کبھی رات نو بجے تک نہیں بیٹھتا تھا۔ رات نوبجے تک کبھی لمبی لائٹ نہیں جاتی تھی ،لیکن اسکا طریقہ واردات ایسا تھا کہ وہ دفتر میں شاہوں کی طرح نوکری کرتا ،ایک بھی جھڑک نہ پڑتی اسے ” مرزے تو اتنا جھوٹ کیوں بولتا ہے با س سے “ ایک دن میں نے پوچھا تو بولا” باس جھوٹ سننا چاہتا ہے“ کیا مطلب یار کام کمال کرتے ہو ، وہ نمازی پرہیز گار آدمی جھوٹ کیوں سننا چاہے گا “” تو کیا سمجھتا ہے ،اسے نہیں معلوم ہوتا کہ کوئی کام حقیقت میں کتنی دیر میں ختم ہونا ہوتا ہے ۔لیکن جب تم سچ بولتے ہو تو تم زہر لگتے ہو اسکو ۔انسان کی فطرت کو سمجھا کرو۔وہ با س ہے،اسکا کام تمہیں ٹینشن دینا ہے ٹینشن لینا نہیں۔تم اسکا مورال بلند نہیں رکھتے ناں۔جھوٹ سے جھوٹ کا بول بالا ہوتا اور آگے تک پہیہ چلتا ہے ، با س کو آگے بھی تو جواب دینا ہوتا ہے ،اگر تماری بات سن کر وہ مالک کو بھی کل پر ٹال دے گا تو مالک اسکی کھچائی کرے گا ۔اس لئے وہ اپنی کھال بچانے کے لئے میرے دئے ہوئے دلاسے کو آگے بیچ دیتا ہے ۔وہ بھی مالک سے کہتا ہے سر ابھی ہوجائے گا ٹینشن نہ لیں “
آج میں سوچتا ہوں کہ واقعی انسپیریشن اور گلیمر میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔واقعی جس طرح پروپیگنڈا کا زہر کوبرے سانپ سے زیادہ زہریلا ہوتا ہے ،انسپریشن اور گلیمر کی فورس بھی انسان کو زہریلا بناتی اور کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور کر تی رہتی ہے ۔یہ زہر ہی ہے جو ناکامی کے خوف سے جھوٹ کو پیدا کرتا ہے اور انسان کو جھوٹا اور زہریلا بنا کر ہم سب پر مسلط کردیتا ہے۔ایسے لوگ کاٹھ کی ہنڈیا چڑھاتے ہیں اور اس کے لئے وہ ہواوں میں پرواز کے لئے بچوں کے غباروں میں ہوا بھر کر اڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہمارے ایک فتنہ پرورمہربان کا قول ہے ” بندے کو روز جھوٹ کی قوالی گانی چاہئے کیونکہ سر اسی پر جھومتے ہےں ۔سچ کوئی نہیں سنتا ،حقیقت کڑوی لگتی ہے “موصوف روزانہ جھوٹ کا آلاپ اور جھوٹ کا ڈکار لیتےہیں ، رائی کا پہاڑ بنا کر اپنی اہمیت اور بالادستی کا پرچم بلند رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ،ان کا کہنا ہے یہ دور جھوٹ کی انسپریشن کا ہے ۔گلیمر سارا جھوٹ ہے لیکن لوگ اسے کتنا زیادہ پسند کرتے ہیں ۔جب ہنسنے اور غم بٹانے اورتفریح کرنے میں گلمیرانوالو ہے تو پھر کاروبار اور پیشہ وری میں جھوٹ کو کیوں نہ اپنایا جائے۔افسر جب ایسا کھرا جھوٹ سننا چاہتے ہوں جس سے انکو تسکین ملتی ہوتو یہ ایسے سچ سے سو گنا بہتر ہے جو انسان کی عزت اور نوکری کو نہیں بچاپاتا ۔
میں سترہ برسوں بعد بھی اسی منزل پر کھڑا ہوا الحمد اللہ اس انسپریشن کا ایک بھی سبق نہیں سیکھ پایا،یہ آرٹ میرے دماغ میں اترتا ہی نہیں ۔شاید اسی لئے میں سکون میں ہوں ،گھڑی بھر کی جھڑکیاں کھا نا بہتر لگتا ہے مگر ضمیر پر بوجھ نہیں پڑتا اور رات کو نیند کی گولیاں کھائے بغیر سو جاتا ہوں ۔میری انسپریشن میرا سکون ہے جو اڑھائی مرلے کے گھر میں رہتے ہوئے بھی سچ کی دولت سے ملا ہے ۔میں اس مرزے سے لاکھ درجے خود کو بہتر سمجھتا ہوں جو آج کروڑ پتی بن چکا ہے مگر ایک کنال والے گھر میں وہ روزانہ مٹھی بھردوائیاں پھانک کر سونے کے جتن کرتا ہے۔