جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر93
’’رادھا۔۔۔میں تجھے اب بھی شما کر سکتا ہوں پرنتو تجھے وچن دینا ہوگاکہ تو اس مسلے سنگ کوئی سمبندھ نہ رکھے گی‘‘ پرتاب نے اپنی سی کوشش کی۔ اسکا چہرہ اس کے قول کا ساتھ نہ دے رہا تھا۔
’’پاپی! تو مجھے شکشا دے گا؟‘‘ رادھا اس پر قہر بھری نگاہ ڈال کر گر جی۔ پھر اسکے ہونٹ تیزی سے ہلنے لگے۔ عبدالودود اطمینان سے کرسی پر بیٹھا جھول رہاتھا۔ اسکے پرکشش چہرے پر سکون تھا۔ رادھا نے کچھ پڑھا اور بیڈ کی طرف منہ کرکے پھونک دیا۔ اچانک پرتاب ہوا میں معلق ہوگیا۔ اس کے منہ سے ڈری ڈری آوازیں نکل رہی تھیں۔
’’را۔۔۔را۔۔۔رادھا۔۔۔دو۔۔۔دیوی جی! مجھے شماکردے‘‘ چھت کے پاس جا کر اسکا جسم رک گیا۔ میں جانتا تھا اب کیا ہوگا۔ اسی طرح رادھانے سادھو امرکمار کے سانڈنما چیلے رام داس کو چھت تک پہنچا کر زمین پر پٹخ دیا تھا۔ رادھا کی نظریں پرتاب کے جسم کا احاطہ کیے ہوئے تھیں۔ اس کمینے کا انجام قریب تھا۔ کوئی لمحہ جاتا تھاکہ وہ ایک دھماکے سے فرش سے ٹکرا کر ہمیشہ کے لئے جہنم واصل ہوجاتا۔ اچانک عبدالودودبرق کے کوندے کی طرح رادھا کی طرف بڑھا اور اسے دونوں ہاتھوں سے دھکا دیا۔ رادھا کی پوری توجہ پرتاب پر تھی اس دھکے سے اڑتی ہوئی دیوار سے جا ٹکرائی۔ میری اور محمد شریف کی آنکھیں پھٹ گئیں۔ عبدالودودنے یہ کیا کیا؟ لیکن دوسرے ہی لمحے حقیقت ہم پر واضح ہوگئی۔اگر عبدالودود ایک لمحے کی تاخیر کرتا تو رادھا جل کر راکھ ہو جاتی۔ عین اسی جگہ جہاں رادھا ایک لمحے پہلے موجود تھی۔ آگ کاایک شلعہ بلند ہوا اور چھت پر جا کر غائب ہوگیا۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر92 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
عبدالودود نے بڑی سرعت سے رادھا کو دھکا دے کر اس کی جان بچائی تھی۔ رادھا دیوار سے ٹکراکر فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے ایک نظر چھت کی طرف جاتے آگ کے گولے کو دیکھا پھر عبدالودود کو، اسکی آنکھوں میں تشکرتھا۔ پلکیں جھکا کر اس کا شکریہ ادا کیا۔ یک بیک اس کی آنکھوں میں شعلے بھڑک اٹھے۔ اس نے چھت سے معلق پرتاب پر نظر ڈالی اور ہونٹ سکوڑ کر اجنبی آواز میں کچھ کہا۔ پرتاب توپ سے نکلے گولے کی طرح سر کے بل زمین سے ٹکرایا اور اس کا سرپاش پاش ہوگیا۔ حالانکہ فرش پر دبیز قالین بچھا ہوا تھا لیکن پرتاب کو اس قوت سے پٹخا گیا تھا کہ اسکا سر ایک دھماکے سے پھٹ گیا۔
رادھا کی آنکھوں سے پھر سرخ شعاع نکلی اور پرتاب کے جسم نے آگی پکڑ لی۔ دو تین منٹ میں وہاں راکھ کے سوا کچھ نہ تھا۔
’’سبحان اللہ‘‘ بے اختیار عبدالودودکے منہ سے نکلا۔ رادھا نے ایک نظر عبدالودودکو دیکھا پھر اس کی تعریف پر شرما کر نگاہیں جھکا لیں۔ بے باک رادھا آج ایک گھریلو لڑکی کی طرح شرما رہی تھی۔ دیوار سے ٹکرانے سے یقیناً رادھا کو تکلیف ہوئی ہوگی لیکن اس نے ظاہر نہ ہونے دیا۔ پرتاب کے جہنم واصل ہونے کے بعد میں تیزی سے صائمہ کی طرف بڑھا۔
’’رک جاؤ پریم!‘‘ رادھاکی آواز آئی۔ میں نے حیرت سے دیکھا۔
’’ابھی تمرا اسے چھونا ٹھیک نہ ہے۔ کالی داس نے جرور کوئی پربند کر رکھا ہوگا۔ کویل ایک پل رک جاؤ۔‘‘ اسنے مجھے سمجھایا۔ میں بادل نخواستہ رک گیا۔ محمد شریف نظریں جھکائے کسی بت کی مانند کھڑا تھا۔ پہلی نظر کے بعد اسنے رادھا کی طرف نہ دیکھا تھا۔ حالانکہ رادھا کا حسن کسی کو بھی اس کی طرف متوجہ کرنے کے لیے کافی تھا۔ لیکن محمد شریف عجب درویش انسان تھا۔ اس عمر میں ایسا تقویٰ میں حیران رہ گیا۔ اچانک باہر کا دروازہ ایک دھماکے سے بند ہوگیا۔
’’ہا۔۔۔ہا۔۔۔ہا‘‘ کمرے میں کالی داس کا بھیانک قہقہہ گونج اٹھا۔ رادھا نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کیں۔ اس کے چہرے پر فکر و ترددکے آثار ابھر آئے۔ عبدالودود بھی چوکنا دکھائی دینے لگا۔
’’اس منش کو اپنی پتنی کی اور (طرف) جانے سے کیوں روک دیا تو نے؟ دیکھ کتنا بیاکل ہورہا ہے؟‘‘ کالی داس کی مضحکہ خیز آوازآئی۔
اچانک عبدالودود نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ رادھانے چونک کر دیکھا پھر آنکھیں بند کرکے کچھ پڑھنے میں مصروف ہوگئی۔ کمرے میں ایک بار پھر اندھیرا چھا گیا۔ مجھے صائمہ کی فکر تھی۔ کسی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ قریب تھا کہ میں جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑاتا ۔ محمد شریف کی آواز آئی۔
’’فکر نہ کریں خان بھائی ذکر کریں۔ ذکر کرنے سے اللہ کی مدد ہمارے شامل حال ہوگی انشاء اللہ۔‘‘
میں نے ایک بار پھر آیۃ الکرسی کا ورد شروع کر دیا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر صائمہ کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن اندھیرا اتنا گہرا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ میرا ہاتھ ابھی تک محمد شریف کی گرفت میں تھا۔ پتا نہیں رادھا بھی کمرے میں تھی یا چلی گئی تھی۔ مجھے ڈر تھا اگر وہ ان بدبختوں سے شکست کھا گئی تو صائمہ کا کیا بنے گا؟
’’قائر! یہ کیا بالکوں جیسا کھیل کھیل رہا ہے سامنے آتو جانوں تو کتنا شکتی مان ہے؟‘‘ رادھا کی آواز کمرے میں گونجی۔ رادھاکے بولتے ہی کمرہ روشن ہوگیا۔ وہ اپنی جگہ کھڑی چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔
’’وہ سمے دور نہیں جب تو میرے چرنوں میں ہوگی‘‘ کالی داس کی آواز آئی۔
’’ایسی آشائیں من میں رکھے جانے کتنے پنڈت پجاری پرلوک سدھار گئے۔۔۔تو کیا شے ہے؟‘‘ رادھا نے دبنگ لہجے میں کہا۔
’’یدی تو اتنی شکتی مان ہے پھر ان منشوں کو لے کر یہاں سے چلی کیوں نہیں جاتی؟‘‘ کالی داس نے ایک بار پھر اس کا مضحکہ اڑایا۔
’’تیرا بلیدان کیے بنا ہی چلی جاؤں؟‘‘ رادھا نے کہا۔
’’ارے میں تو کب سے ایسے اوسر کی تاک میں تھی کہ تو خود میرے چرنوں میں آئے۔ پرنتو تو ہیجڑا بنا مجھ سے چھپا پھر رہا تھا۔ ایک ناری سے ڈراڈرا پھر رہا تھا۔ تھو ہے تیری قائرتا پر‘‘ رادھا نے حقارت سے نیچے تھوک کر دیا۔
’’جو من میں آئے کہہ ڈال۔۔۔تیرا انتم سنسکار(خاتمہ) میں اپنے ہاتھوں سے کروں گا۔ اس ملیچھ سنگ تیرا بلیدان بھی کالی کے چرنوں میں ہوگا‘‘ کالی داس بھڑک گیا۔
’’رادھا تیری کالی ماتا اسے اپنا سمبندھ توڑ بیٹھی ہے۔ کیول کالی ماتا کیا؟ کوئی دیوی دیوتا اب رادھا کو شراپ نہ دے پائے گا۔‘‘ میں رادھا کی بات سن کر بری چونک گیا۔
وہ کیا کہہ رہی تھی؟ ہمیشہ اپنے دیوی دیوتاؤں کے گن گانے والی کا یہ کہنا مجھے حیران کر گیا۔ اگر میں بھی ان کے بارے میں کچھ کہتا تو وہ برامان جاتی لیکن محبت کے ہاتھوں مجبور تھی۔ لیکن اس کے چہرے پر ہر بار غصہ چھا جاتا جبکہ آج وہ خود اپنے دیوتاؤں کے بارے میں ایسی بات کہہ رہی تھی۔ حیرت سے میری عقل گم تھی۔
’’اللہ اکبر‘‘ کمرے میں عبدالودود کا فلک شگاف نعرہ گونجا۔ وہ کمرے میں موجود تھا فقط نظروں سے اوجھل ہوا تھا۔ اس کی آواز سن کرمیرا حوصلہ بڑھ گیا۔ کمرے میں نور برسنے لگا۔ میں سمجھ رہا تھا وہ چلا گیا ہے۔ میں نے دیکھا رادھا کے چہرے سے الجھن کا اظہار ہو رہا تھا۔ عبدالودود کا چہرہ جوش سے تمتما رہا تھا۔ محمد شریف کے ہونٹوں پر خوشی سے بھرپور مسکراہٹ چپکی ہوئی تھی۔ میں حیرت سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ روشنی کے نورانی ہالے نے کمرے کو منور کر دیا۔ کمرہ پہلے بھی روشن تھا لیکن اس روشنی میں اور مقدس روشنی میں بڑا فرق تھا۔
’’تو بدھی کھو بیٹھی ہے مورکھ! دیوی دیوتاؤں کا اپمان کرکے تو نے اپنے دھرم کو نشٹ کر دیا ہے۔ اب تیرا بلیدان کرنا میرا ادھارمک کر یہ (مذہبی فریضہ) ہے‘‘ کالی داس حلق کے بل دھاڑا۔
’’کلنکنی ! اس ملیچھ مسلے کے پریم میں تو اپنی بدھی کھو بیٹھی ہے۔ تجھے یہ دھیان بھی نہ رہا کہ تو کیا اناپ شناپ بکے جارہی ہے۔ اب تجھے دیوتاؤں کے شراپ سے کوئی نہ بچا پائے گا۔ ان ملیچھ مسلوں سے کہہ یہ اپنے دھرم کے کسی مہاشکتی مان کر بلائیں جو تیری رکھشا کا پربند کرے۔ کالی ماتا تجھے ایسا شراپ دے گی کہ تو مرتیو مانگے گی پرنتو وہ بھی تجھے نہ ملے گی پاپن!‘‘ غیض و غضب میں گرجاتا کالی داس ہمیں بھی رگڑ گیا۔(جاری ہے )
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر94 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں