”50سال کے شب و روز“

”50سال کے شب و روز“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کل شام مَیں اپنے گھر بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، ٹیلی فون ریسیور اٹھایا، السلام علیکم کیا تو معلوم ہوا کہ سلطان محمود حسین کا ٹیلی فون ہے۔ سلام و دعا کے بعد ڈاکٹر صاحب اور اہل خانہ کی خیریت دریافت کی، اُن کے بچوں کے بارے میں بات ہوئی تو آخر میں ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ میری نئی کتاب ”50سال کے شب و روز“ چھپ گئی ہے، جس میں آپ کا ذکر بھی کئی جگہ پر آیا ہے، لہٰذا مَیں آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں،دوسرے دن کا وقت گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں طے ہوا کہ مَیں نے وہاں پر جانا ہے، تو آپ بھی وہاں آ جائیں اور کتاب وصول کر لیں، ٹیلی فون بند کیا اور دوسرے روز حسب وعدہ ڈاکٹر صاحب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں11بجے تشریف لے آئے، تو کتاب انہوں نے میرے حوالے کی، مَیں نے بصد شکریہ کتاب وصول کی۔ ڈاکٹر صاحب تو جی سی یو کے کسی اور شعبے میں چلے گئے، مَیں کتاب لے کر کہیں اور چلا گیا اور گاہے بگاہے کتاب کی ورق گردانی بھی ہوتی رہی۔
جیسے جیسے ڈاکٹر صاحب کی کتاب کے صفحے پلٹے جا رہے تھے، ویسے و یسے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کی کتاب کے ورق کھلتے جا رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب ایک نہایت ہی نفیس اور شفیق انسان ہیں، نفیس اور شفیق ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب اتنے ہی سادہ اور ایماندار بھی ہیں۔ شیخوپورہ میں مکان بنوانا شروع کیا تو راقم سے کچھ رقم ادھار مانگی، مَیں نے دوسرے روز دے دی، تیسرے روز مجھے ڈاکٹر صاحب نے ایک لفافہ تھما دیا۔ شیخوپورہ سے روزانہ لاہور آتے تھے، راستے میں ویگن پر سوار ہو کر لفافہ کھول کر پڑھا تو جو رقم مجھ سے بطور قرض حسنہ لی تھی ،اُس کی رسید تھی۔ پڑھ کر بڑی شرمندگی ہوئی، دوسرے روز ڈاکٹر صاحب سے گلہ کیا، فرمانے لگے: یار زندگی کا کوئی پتہ نہیں ہوتا، رسید سے آدمی کم از کم تقاضا کر سکتا ہے۔
دیال سنگھ کالج میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک سو روپیہ مجھ لے لیا کہ میرے پاس کھلا نہیں ہے، بات آئی گئی ہو گئی۔ کوئی چار ماہ بعد کالج آئے، کہنے لگے کہ یار مَیں دُعا کر رہا تھا، کہ آپ سے ملاقات ہو جائے، شکر ہے کہ ملاقات ہو گئی۔ مَیں نے ایک دن سو روپیہ لیا تھا، مَیں کل کینیڈا بیٹے کے پاس جا رہا تھا، اس لئے لوٹانا ضروری تھا۔ شرمندگی بھی ہوئی اور خوشی بھی کہ ابھی دُنیامیں اِن جیسے لوگ موجود ہیں، تبھی تو یہ دُنیا قائم ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے بنیادی طور پر اپنی ملازمت کا آغاز ریلوے سے کیا، سکھر میں اُن کی پوسٹنگ ہوئی، دورانِ ملازمت ہی انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ سندھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ایم اے اردو کیا۔ ایم اے انگلش کیا، اُن کی تحریروں میں سندھ دھرتی کا کلچر اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں جھلکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بعد میں محکمہ تعلیم میں لیکچرر شپ جوائن کر لی، پہلی پوسٹنگ گورنمنٹ کالج پسرور میں ہوئی، وہاں پر ”تاریخ پسرور“ لکھ ڈالی، اُس کے بعد گورنمنٹ کالج شیخوپورہ پوسٹنگ ہو گئی تو ”تاریخ شیخوپورہ“ لکھ ڈالی ۔ دونوں کتابوں کو گورنمنٹ آف پنجاب نے بیسٹ بُک کا ایوارڈ دیا۔ اس کے علاوہ تاریخ رائیونڈ لکھی، دوسری تصانیف میں شمس العلماءمولوی میر حسن، اقبال کی ابتدائی زندگی، تاریخ گورنمنٹ کالج لاہور، تاریخ اورئینٹل کالج لاہور، تاریخ لاہور کالج فارویمن، تاریخ گورنمنٹ دیال سنگھ کالج لاہور، تاریخ گورنمنٹ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ اور بہت سی کتابیں جن کا ذکر نہ ہو سکا۔

ڈاکٹر ایک انسائیکلو پیڈیا ہے،جو ذخیرہ نئی نسل کے لئے چھوڑ کر جا رہے ہیں، آنے و الے جوئندگان علم کے لئے ایک خزانے سے کم نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب کی موجودہ ڈائری کی شکل میں ”مالی سال کے شب وروز“آپ کو نظر آئےں گے ۔کوئی اہم واقعہ، کسی اہم شخصیت کی وفات، کوئی اہم کھلاڑی کا کارنامہ، کوئی اور اہم کار ہائے نمایاں، کسی اہم خبر، کسی نئی چیز کا جنم لینا۔ ڈاکٹر صاحب کی اپنی سوانح عمری، خانگی حالات، تقریباً تمام ملکی حالات، جو50سال میں وقتاً فوقتاً رونما ہوتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑی مہارت سے اس ڈائری میں درج کیا، جس سے آنے والی نسل استفادہ کر سکے گی۔ حکومتوں کا ٹوٹنا پھوٹنا باقاعدہ تاریخ اور سن کے ساتھ درج ہیں تاکہ نئی نسل پڑھ سکے اور اور اُن کے بارے میں سوچ بھی سکے اور جان بھی سکے۔
درج بالا سطور لکھنے سے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو نکھارنے میں جن شخصیات کا ہاتھ ہے، اُن کا ذکر یہاں پر بہت ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ڈاکٹر صاحب کی بیگم شفقت سلطان کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں، جنہوں نے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو نکھارا، انتہائی سلیقہ مند خاتون، امور خانہ داری میں ماہر اور ڈاکٹر صاحب کے دوستوں کی بغیر ناک مُنہ چڑھائے خاطر داری کرنا۔ ڈاکٹر صاحب جتنے زیادہ کنجوس تھے ،اُن کی بیگم اتنی زیادہ سخی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کے دوست جب بھی اُن کے گھر جاتے تو بیگم صاحبہ ڈاکٹر صاحب کے دوستوں کی خوب خاطر مدارت کرتیں۔ سارے دوست ایک لمحے کے لئے ڈاکٹر صاحب کی کنجوسی کو بھول جاتے۔ اللہ تعالیٰ انہیں بہت اَجر دے ، اور خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔ امین
دوسرے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت نکھارنے میں ڈاکٹر وحید قریشی صاحب(مرحوم) کا بڑا عمل دخل ہے۔ ڈاکٹر ہمیشہ اپنی اُلٹی پلٹی تحریریں لے کر پہنچ جاتے، ڈاکٹر وحید صاحب اصلاح بھی کرتے اور ڈاکٹر سلطان کو برداشت بھی کرتے اور ہمت بھی بندھاتے۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر وحید قریشی صاحب کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔
ڈاکٹر خواجہ زکریا صاحب کا ذکر تو سب سے پہلے ہونا چا ہئے تھا۔ خراجہ صاحب پہلے دن سے لے کر آج تک خوشی غمی میں شریک رہے۔ ڈاکٹر سلطان صاحب کی ہر طرح کی رہنمائی فرمائی، آگے بڑھنے کا گُر سکھایا۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے سے منع فرمایا۔ ڈاکٹر سلطان محمود کو صرف ا تنا بتایا کہ پیچھے نہیں دیکھنا، صرف آگے دیکھنا۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی پورا پورا عمل کیا ، آگے ہی بڑھتے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہمت اور طاقت دے۔ ڈاکٹر خواجہ زکریا صاحب کو بھی اللہ ہمت دے کہ وہ اسی طرح ایسے لوگوں کی رہنمائی فرماتے رہیں۔ خواجہ صاحب جیسے لوگوں کی بخشش کا سبب ایسے ہی لوگ ہوں گے، جن کی انہوں نے بے لوث خدمت کی ہو گی۔ ٭

مزید :

کالم -