پاک فوج اور مقبوضہ کشمیر……فلسطین مقبوضہ کشمیر اور یو این او
گزشتہ دنوں بھارت کی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کیخلاف دائر کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے مودی حکومت کی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے اور بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے ثابت کر دیا ہے کہ اس وقت بھارت میں کوئی بھی ادارہ ہندوتوا یا بی جے پی کے شکنجے سے آزاد نہیں ہے اور بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے جس طرح مودی حکومت کے اس فیصلے کا دفاع کیا ہے اس نے ثابت کر دیا ہے کہ ہندوتوا کا نظریہ اس وقت انڈیا میں مکمل طور پر سرایت کر چکا ہے۔ پاکستان نے بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے اور اسی سلسلہ میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے قوامِ متحدہ کے صدر دفتر میں یو این سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس سے ملاقات بھی کی ہے، جنرل عاصم منیر نے خاص طور پر کشمیر اور غزہ کے جاری تنازعات پراقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے گفگو کی ہے اور آرمی چیف نے اس موقع پر دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا میں امن اس وقت تک ناممکن رہے گا جب تک کشمیر کے دیرینہ تنازعہ کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق پرامن حل تلاش نہیں کیا جاتا۔اس خصوصی ملاقات کے دوران پا ک فوج کے سربراہ نے جموں و کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے یکطرفہ اور غیر قانونی بھارتی اقدامات کی مذمت بھی کی اور کہا کہ یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے(بدقسمتی سے 1948 سے اقوام متحدہ کی قرار دادیں موجود ہیں لیکن ابھی تک ان پر عمل نہیں ہو سکا اور نہ ہی یو این او اپنی ان قرار دادوں پر عمل کروا سکا ہے)۔ جنرل سید عاصم منیر نے مسئلہ فلسطین پر بھی پاکستان کے موقف کا اعادہ کیا اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پر زور دیا کہ وہ غزہ میں جاری مظالم فوری روکنے کے لیے عالمی برادری کو متحرک کریں تاکہ انسانی المیے کو رونما ہونے سے روکا جا سکے۔
انھوں نے اس بات کو اجاگر کیا کہ اس مسئلے کا پائیدار حل دو ریاستی فارمولے میں مضمر ہے۔آرمی چیف نے خاص طور پر ان معصوم شہریوں کی حالت زار پر گہری تشویش کا اظہار کیا جنھیں بربریت کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور انھیں خاطر خواہ انسانی امداد فراہم نہیں کی جا رہی۔ یہ بڑے دکھ اور المیے کی بات ہے کہ فلسطین اور کشمیر دو ایسے مسائل ہیں جس کی وجہ سے دو اہم خطوں کا امن داؤ پر لگا ہوا ہے اور اقوام متحدہ اپنی قرار دادوں کے باجود اسرائیل اور بھارت کی بدمعاشی کو روکنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ غزہ پر وحشیانہ بمباری کا عمل جاری ہے اور یو این او جو دنیا میں امن کی ذمہ داری لیتا ہے لیکن اسرائیل کے ہاتھ روکنے میں ناکام ہو چکا ہے اور اسرائیل اسی کمزوری کا فائدہ اٹھایا دو ماہ سے زائد ہو گئے ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں نوے فیصد سے زائد کم سن بچے ہیں اور مغربی میڈیا اس پر خاموش تو ہے ہی اس کے ساتھ وہاں کی حکومتوں کی جانب سے اسرائیل اور کشمیر پر ہونے والے مظالم پر چپ سادھ لینا یقینا افسوسناک ہے، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد اور بھارتی سپریم کے فیصلے کے تناظر میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا دورہ امریکہ نہایت اہم ہے کیونکہ پاکستان کی حکومت اور موجودہ نگران سیٹ اپ چونکہ ایک عارضی سیٹ اپ ہے اس لئے آرمی چیف کا دورہ امریکہ ضروری تھا کہ امریکہ کو باور کرایا جائے کہ بھارت اس وقت خطے میں بد امنی کا باعث ہے اور آرمی چیف نے پاکستان کا مقدمہ جس انداز میں امریکہ اور یو این او کے سامنے پیش کیا ہے وہ خوش آئند ہے کیونکہ کشمیر اور فلسطین کے مسائل کے حل کے لیے امریکہ خصوصا عالمی برادری اور اقوام متحدہ جیسے اداروں سے بات کی جانی چاہیے کیونکہ دنیا کو پیغام پہنچنا چاہیے کہ دو بدمست ہاتھی ایک کا نام اسرائیل اور دوسرا بھارت ہے جو فلسطینی اور کشمیری عوام پر مظالم ڈھا رہے ہیں لیکن دنیا ان کا ہاتھ روکنے کی بجائے ان کے ساتھی بنے ہوئے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں شہری شہید ہو چکے ہیں، ہزاروں خواتین بیوائیں ہو چکی ہیں، کشمیری اس وقت بھارتی مظالم کا سامنا کر رہے ہیں اور پاکستان کے ساتھ یہ آو آئی سی کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر اور فلسطینی عوام کیلئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل اپنائیں تاکہ اس اہم فورم سے بھی کوئی خیر کی خبر عوام کو مل سکے،کیوں پاکستان اپنی حیثیت کے مطابق ان مظالم کو دنیا کے سامنے اجاگر کرتا رہتا ہے لیکن اسلامی دنیا کا بھی فرض ہے کہ وہ تکلیف میں مبتلا مسلمانوں کو راحت پہنچانے کے عمل میں پاکستان کا ساتھ دے اور اپنے کاکم کے ذریعے میں پاکستانی عوام کو بھی کہنا چاہوں گا کہ وہ پاک فوج کیخلاف سوشل میڈیا پر بے بنیاد پروپیگنڈہ کا حصہ نہ بنیں بلکہ پاک فوج کے ہاتھ مضبوط کریں تاکہ بھارت کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکے۔