تریا چلتر ۔۔۔۔ ”اک حسیں شام کو دل میرا کھو گیا“

تریا چلتر ۔۔۔۔ ”اک حسیں شام کو دل میرا کھو گیا“
تریا چلتر ۔۔۔۔ ”اک حسیں شام کو دل میرا کھو گیا“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قسط : 22
 ” پلیز آپ ہماری سیٹ پر آ جائیں، میری بچی ادھر ہمیں تنگ کر رہی ہے۔“ فر نٹ سیٹ پر بیٹھی ہنزائی عورتوں میں سے ایک نے آکربہت شائستگی سے کہا ۔ ایک تو اس نے درخواست بہت میٹھے لہجے میں کی تھی دوسرے ہنزائیوں سے محبت مجھ پر غالب آئی سو میں نے اور طاہر نے شولری (chivalry)کا مظا ہرہ کر تے ہو ئے اپنی سیٹ ان کے لیے خالی کر دی اور خود ڈرائی ور سے پچھلی نشست پر منتقل ہوگئے ۔
میں نے ہیڈفون کے بٹن کانوں میں اڑسے اور ندیم کے فون پر ”اک حسیں شام کو دل میرا کھو گیا۔“ سنتے ہو ئے باہراندھیرے میں گزرتے دھندلے خا کے دیکھنے لگا۔یوں تو نا ٹکو کی بسوں میں نشستیں انتہائی غیر آرام دہ ہو تی ہیں لیکن اس بس میں سیٹوں کو مزید اذیت ناک بنانے کے لیے ان پر کوئی ریشمی کپڑا چڑھایا گیا تھا جس سے مسافر، چاہے وہ کسی بھی زاویے سے بیٹھ جائے، مسلسل نیچے پھسلتا رہتا تھااور ہر تین چار منٹ بعد گھٹنے ٹھوڑی کو چھونے لگتے اور سیدھا بیٹھا مسافر بقول یوسفی صاحب ” نون غنہ“ بن جاتا تھا۔ بار بار سیدھا ہونا پھر پھسل کر نیچے چلے جانا، پھر سیدھا ہونا۔۔۔ ناٹکو کے معمول کی تکلیفوں کے پیکج میں بونس پریشانی تھی اور ان کی مہربانی تھی کہ اس کے لیے مسافروں سے اضافی پیسے چارج نہیں کیے گئے تھے۔
 بس چلنے کے کچھ ہی دیر بعد ہمیں سمجھ آ گئی کہ خواتین نے بچی کے نام پرہم سے نشستیں کیوں بدلی تھیں ۔ وہ اس راستے پر پرانی سفر کر نے والی تھیں اور سفر کے مسائل کو ہم سے بہتر سمجھتی تھیں۔ رات کے اندھیرے میں سامنے سے آ نے والی ہر گا ڑی کی تیز روشنی ہماری آنکھوں پر پڑتی تھی اور کچھ دیر بعد مجھے یوں محسوس ہونے لگا تھا جیسے روشنی کی تیکھی شعاعیں آنکھوں کے راستے دماغ کو چیرتی ہو ئی گُّدی کے پار نکل رہی ہیں۔چند کلو میٹر بعد ہی پہلے میری آنکھوں میں، پھر سر میں اور اس کے بعد کنپٹیوں اور گد ی سے نیچے پٹھوں میں شدید درد ہو نے لگا۔ طاہر کا بھی یہی حال تھا۔ہم نے پہلے اپنی ٹوپیاں آ نکھوں پر کھینچیں، پھر ناک تک لے آ ئے آخر پورا چہرہ ڈھانپ لیا لیکن کو ئی فرق نہیں پڑا۔ اب ہمیں خواتین کی ”نسوانی شائستگی“ اور اپنی”احمقانہ مر دانگی“ پر بہت غصہ آنے لگا۔ ہمیں دھو کا ہی نہیں دیا گیا تھا بلکہ باقاعدہ اُ لّو بنا یا گیا تھا ۔ مجھے اپنی befooled chivlary پر سخت تاوآ رہا تھالیکن طاہر سخت ٹھنڈا آدمی ہے وہ مجھے بھی ”چلیں دفع کریں۔“ کَہ کر ٹھنڈا کررہا تھا ۔ آخر چند کلو میٹر مزید برداشت کی ناکام کوشش کے بعد طاہر کی ہمت بھی جواب دے گئی۔”مر گئے بھئی!“ اس نے تکلیف سے سر جھٹک کر کہاتو میں اٹھ کر ان ”شائستہ“ خوا تین کے پاس گیا اوران سے دوبارہ نشست تبدیل کرنے کی گزارش کی۔ جس پر بچی والی عورت نے معصو مانہ حیرت سے پو چھا ”کیوں؟ کیا ہوا ؟“ میں نے اسے آسان، واضح اور مختصر الفاظ اور سرد لہجے میں بتا یا کہ یہ ہوا ہے تو اس نے بغیر حیل و حجت کے سرگوشی میں اپنی ساتھی عورت سے مشورہ کیا پھر ذرا دور بیٹھے اپنے ہم سفربوڑھے میاں بیوی سے غالباًبروشسکی میں کچھ کہا۔ بوڑھا بوڑھی خاموشی سے اٹھ کر فرنٹ سیٹ پر آ گئے، دونوں خواتین ان کی نشست پر منتقل ہو گئیں اور ہم اپنی نشست پر لوٹ آئے ۔ وہ بو ڑھا بوڑھی غالباً اس عورت کے ساس سسر تھے۔ (جاری ہے )

ہنزہ کے رات دن۔۔۔ قسط نمبر 23 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
نوٹ : یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں )