ایفائے عہد دوستی اور باہمی اعتماد کا رشتہ

ایفائے عہد دوستی اور باہمی اعتماد کا رشتہ
ایفائے عہد دوستی اور باہمی اعتماد کا رشتہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاک چین دوستی کی داستان بھی شاہراہ ریشم کی طرح طویل ہے۔ دنوں ممالک اس خطے کی قدیم تہذیب کو اپنے دامن  میں سموئے ترقی کی راہ پر آگے بڑھ رہے ہیں۔عہد حاضر میں یہ دوستی اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ دنوں ممالک کے لوگ ایک دوسرے کے لئے کوئی اجنبیت محسوس نہیں کرتے ۔ چین کے صدر مملکت شی جن پھنگ نے سن 2015 میں پاکستانی پارلیمنٹ سے اپنے خطاب کے دوران اپنے ان جذبات کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا ،"اگرچہ یہ پاکستان کا میرا پہلا دورہ ہے ، لیکن پاکستان میرے لئے اجنبی نہیں ہے۔ ایک قدیم  چینی قول ہے: "آپ سے پہلی ملاقات ہے ، لیکن  ہم اجنبی نہیں ہیں۔" جب میں پاکستان پہنچا تو میں نے ایسا ہی محسوس کیا۔"
ریشم کے راستوں پر چلے ہیں جو کارواں
سب بولتے ہیں مہر و محبت کی اک زباں
چین اور پاکستان کے عوام کے دل  آپس میں باہم جڑے ہوئے  ہیں۔  یہ محبت اور چاہت کے سچے جذبے ہی کہ وجہ سے تھا  کہ قیام  پاکستان  اور عوامی جمہوریہ چین کے  قیام سے برسوں قبل مصور پاکستان، شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اپنے کلام میں چین کی مشرق کے قائد کے طور پر ابھرنے کی پیش گوئی کی تھی۔
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے ہیں
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے ہیں
چین کے صدر مملکت شی جن پھنگ نے  اپنے خطاب میں علامہ اقبال کو ان  الفاظ میں ہدیہ تبریک پیش کیا تھا۔1930 کی دہائی کے آغاز میں ، عظیم پاکستانی شاعر   علامہ محمد اقبال نے ایک شعر کہا تھا کہ  "گراں خواب چینی سنبھلنے لگے ہیں، ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے ہیں" ،انہوں نے اس شعر سے  قومی آزادی اور بیرونی ممالک کی مزاحمت کے خلاف اپنی جدوجہد میں چینی عوام کی تعریف اور حمایت کی۔ایک جیسی تاریخی تجربات اور مشترکہ جدوجہد نے چین اور پاکستان کے عوام کو  دل سے ایک دوسرے کو  مربوط  کیا ہے۔
وقت گزرتا رہا، تاریخ کے اوراق پر نت نئی کہانیاں رقم ہوتی رہیں،    زمانے کے انداز بدلتے رہے، اگر کچھ نہیں بدلا تو وہ پاک چین دوستی ہے۔  دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد استعماری اور سرمایہ دارانہ قوتیں  چین کی ترقی سے خائف  تھیں وہ جانتی تھیں کہ چین میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد بیداری کی وہ لہر پیدا ہو چکی ہے جو  مشرق کی اس ابھرتی قوم کو  اس قوم دنیا  میں ممتاز بنا دے گی۔  لہذا چین کا راستہ روکنے کے لئے منفی حربے آزمائے جانے لگے۔ یہ سن 1965 کی بات ہے جب پاکستان کے وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے بانگ دہل اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ۔ انہوں نے  چین کے بغیر  نظام عالم کو کھوکھلا قرارد یا۔
پاکستانی قائدین نے اپنی کوششیں اس وقت تک ترک نہ کیں جب تک عوامی جمہوریہ چین کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور  جنرل اسمبلی میں اس حق نہ مل گیا۔ پاکستان سے چینی قائدین کی محبت کے والہانہ پن کا یہ عالم تھا کہ چئیرمین ماؤزے تنگ   اپنی زندگی کے آخری ایام میں خرابی صحت کے باوجود   سے  آخری غیر ملکی وفد سے ملے وہ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں آنے والا پاکستان کا سرکاری وفد تھا۔ چینی سرزمین نے ہمیشہ پاکستانیوں کو لازوال محبت دی ہے۔ محبت کی یہ بانہیں چینیوں کے لئے بھی پاکستان میں ہمیشہ کھلی رہی ہیں۔یہ دوست ایک دوسرے کی ترقی کے لئے  اپنی جانوں کی قربانی سے بھی دریغ نہیں ۔  دنیوب میں شاہراہ قراقرم کے شہیدوں کا قبرستان اس بات کی دلیل ہے کہ چین اور پاکستان کی ترقی سانجھی ہے۔
چین پاک دوستی ایک ایسی زندہ و جاوید حقیقت ہے جو رسمی معاہدوں اور اتحادوں سے بالا تر ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کی تاریخ میں پاکستان اور چین کے روابط بے مثال ہیں جو ایک تسلسل کے ساتھ ہم آہنگی اور مضبوط ساکھ کے حامل ہیں۔ دنوں ممالک اس نوعیت کے تعلقات  کے رشتے میں منسلک ہیں جو دونوں ملکوں کے عوام کے دلوں تک پہنچتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ تعلقات مثبت انداز میں راوان چڑھ رہے ہیں اور اپنا فطری رنگ برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔  سچے ، مخلص اور آہنی دوست کے طور چین اور پاکستان ہمیشہ  ایک دوسرے کی ترقی و کامیابی پر خوش  اور مسرور ہوتے ہیں۔پاکستان اور چین دونوں ممالک میں جب نوجوانوں میں شعور آنکھیں کھول رہا ہوتا ہے  تو انہیں چین پاک دوستی کی مثالیں سننے کو ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دوستی ہر آنے والی نسل میں پہلے سے زیادہ گہری ہوتی چلی جا رہی ہے۔
20 اپریل سن 2015 کو چین کے صدر مملکت شی جن پھنگ کا دستخط شدہ ایک مضمون پاکستانی اخبارات کی زینت بنا جس  میں وہ راقم طراز ہیں کہ " جب میں جوان تھا ۔ میں اکثر  پاکستان اور چین کی دوستی کے حوالے سے داستانیں سنا کرتا تھا ۔ وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان نے چین  کو دنیا کے ساتھ رابطے کے لئے فضائی راستے دئیے اور اقوام متحدہ میں چین کے مقام کی بحالی کے لئے اس کی بھرپور حمایت کی  وغیرہ۔ انہوں نے اپنے دورہ پاکستان کے  بارے میں کہا کہ مجھے یوں لگتا ہے کہ میں اپنے بھائی کے گھر آرہا ہوں۔"
پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو  یا پاکستان میں کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے  لوگ ہوں، ان کے آپس میں کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں۔ وہ سب ایک بات پر متفق ہیں اور وہ پاک چین دوستی کی صداقت ہے۔پاکستان کے مشکل ترین دنوں میں چین ایک آہنی دوست اور مضبوط سہارے کی طرح پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا  ہے۔ چینی نے اقتصادی، سماجی، تعلیمی، صحت اور دفاعی ترقی کے شعبوں میں پاکستان کی بھر پور مدد کی ہے۔
دونوں ممالک کی دوستی نسلوں کی محنت اور آبیاری سے آج ایک ایسا تناور درخت بن چکی ہے  جس کی شاخیں سی پیک کی صورت پورے پاکستان میں پھیل چکی ہیں۔   وہ وقت دور نہیں جب ان شاخوں پر خوشحالی کے پھل لگیں گے، جب   ان شاخوں ہماری نسلیں خوشحالی کے جھولے جھولیں گی۔ اس درخت کی چھاؤں  خطے کے لوگ احساس تحفظ، احساس کامیابی اور احساس ترقی کے ساتھ امن و چین کی نیند سوئیں گے۔

۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 ۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -