درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 39
نواب صاحب بھوپال سے چل کر کلیا کھیڑی آگئے۔ہر دو میل کے فاصلے پر ’’بودے‘‘باندھے جانے لگے۔پولیس،پٹواری ،پٹیل سب ہی کو خبردار کر دیا گیا لیکن نتیجہ دہی ڈھاک کے تین پات۔شیر پھر جل دے گیا۔ نواب صاحب مایوس ہو کر واپس چلے گئے اور لوگ اپنے کاروبار میں مصروف ہو گئے۔تین مہینے اور گزر گئے۔سرکار کی بے تابیاں حد سے متجاوز ہونے لگیں۔خوش مزاجی کی جگہ چڑچڑاہت نے لے لی۔بے جا ضد،بات بات پر خفگی،اہلکاروں اور مصاحبوں کے واسطے سوہان روح بن گئی۔ہر شخص دست بہ دعا تھا کوئی چھوٹا موٹا شیر ہی آپھنسے تو مزاج کی برہمی دور ہو،مگر دعا آج قبول ہوتی تھی نہ کل۔صبر کا امتحان سخت ترین ہوتا جاتا جاتا تھا کہ یکایک ہبوڑوں کی ٹولی، ایک بچی کھچی لاش لے کر محل میں گھس آئی اور فریاد کرنے لگی جس طرح شیر نے ہماری بہو کو ہلاک کیا ہے اسی طرح اس درندے کی بوٹی بوٹی نوچی جائے۔معلوم ہوا اس مرتبہ وہ بدمعاش ان خانہ بدوشوں کے خیموں میں گھس گیا اور لڑکی کی چوٹی پکڑ کر گھسیٹتا ہوا جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔اگلے روز اس کی لاش میدان میں اس طرح پڑی ہوئی ملی کہ گردن سے نیچے پیٹ تک سارا گوشت غائب تھا۔
درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 38 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
شہر کے دہشت نے پوری ریاست کو ہلا دیا ،نواب صاحب نے کہا اس دہشت گرد درندے کو مارنا ہی میں سب سے بڑا کام ہوگا جو سو معصوم انسانوں کو ہڑپ کرچکا ہے لہذاسرکاری مشین یکایک زور شور سے متحرک ہو گئی۔ جنگل کے اس حصے کا محاصرہ کر لیا گیا کہ شیر بچ کر نہ نکل جائے۔ٹیلیفون لائن جائے وقوعہ تک نصب کر دی گئی اور گھنٹہ گھنٹہ کی خبریں محل تک پہنچنے لگیں۔محاذ آرائی کا ایسا منصوبہ تیار کیا گیا کہ ناکامی کاشائبہ تک باقی نہ رہے لیکن جب ایک ہفتہ گزر گیا تو شیر کمین گاہ سے نہ نکلا تو نواب صاحب کا مزاج پھر برہم ہونے لگا۔ارباب کی دوسری میٹنگ ہوئی اور طے پایا، شکار کو پانی کے گھاٹ پر للکارا جائے۔چھان بین سے معلوم ہوا،جنگل میں ایک وسیع تالاب ہے جس کے گرد قد آدم جھاڑیاں ہیں اور دو طرف ایسی پگڈنڈیاں جن کے ذریعے جنگلی جانور آکر پانی پیتے ہیں۔ان پگڈنڈیوں کے قریب مہوے کے دو تناور درخت مچان باندھنے کے لیے منتخب کرلیے گئے تاکہ ان پر متعین شکاری جوں ہی شیر دیکھیں، نواب صاحب کو ٹیلیفون پر اطلاع دی جائے۔مزدوروں کی ایک ٹولی کو کام کی نوعیت سمجھا دی گئی۔ابھی ہم لوٹے ہی تھے کہ یکایک جنگل میں شور و غوغا کی صدائیں بلند ہوئیں جس کے دوران ایک نہایت مہیب قسم کی گرج بھی سنائی دی اور پھر سکوت چھا گیا۔ہم لوگ رائفلیں سنبھالے، الٹے قدم واپس ہوئے لیکن معلوم ہوا شیر اپنا کام کر گیا اور مزدور جو جھاڑیوں کے قریب ’’فراغت‘‘حاصل کررہاتھا،لقمہ اجل بن گیا۔ایسا اندازہ ہوتا ہے جب ہم نہایت اطمینان سے مچان بنانے کی ہدایت کررہے تھے تو دشمن کسی قریبی جھاڑی سے ہماری حرکات و سکنات کا بغور مشاہدہ کر رہا تھا اور ہمارے حملے سے قبل خود ہی حملہ آور ہو گیا۔کئی روز کی تلاش و جستجو کے باوجود نہ پھر شیر کہیں نظر آیا، نہ اس شخص کی لاش ہی مل سکی۔
مثل مشہور ہے’’سودن چور کے ایک دن سادھ کا‘‘ تین مہینے اور گزر گئے۔سردیوں کی ابتدا تھی۔اتفاق سے اس شیر ہی کی بات ہو رہی تھی کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ داروغہ نے اطلاع دی کلیاکھیڑی کے ناظم(ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ)اسی کے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہیں۔میں نے آلے کو کان سے لگایا اور سب کی نظریں میری طرف لگ گئیں۔معلوم ہوا پہلی مرتبہ جس جگہ واردات ہوئی تھی وہیں ایک اور لاش پائی گئی ہے۔دو آدمی ساتھ ساتھ آرہے تھے کہ ایک پرشیر نے حملہ کردیا۔دوسرے کے ہاتھ میں کلہاڑی تھی جو اس نے خوف و سراسیمگی کی حالت میں شیر پر کھینچ ماری۔نشانہ غالباً آنکھ پر پڑا اور وہ بلبلاتا ہوا لاش چھوڑ کر بھاگ گیا۔اس علاقے میں پہاڑی کے اوپر ایک چشمہ تھا جسے مقامی لوگ’’ٹانکہ‘‘کہا کرتے تھے، وہاں پیروں کے بہ کثرت نشان اس بات کا ثبوت تھے شیر پانی پینے اسی گھاٹ پر آتا ہے۔عمر بھر میں نے شاید اس سرعت سے کسی سفر کی تیار نہ کی تھی، جتنی اس موقع پر کی۔نواب صاحب کے علاوہ ہم تین آدمی برمنگھم رائفلیں لیے جن میں تیز سرچ لائٹ لگی ہوئی تھی، مچان میں چوکنا بیٹھے تھے۔وہ رات جس اضطراب اور بے چینی سے گزری، شاید کسی عاشق کی شب ہجراں بھی اس طور سے نہ گزری ہو گی۔۔۔سگریٹ پینے کی اجازت نہ تھی، اس لیے چائے سے سکون حاصل کرتے رہے۔دو بجے تک چاروں تھرماس خالی ہو گئے لیکن شکار اب نظر آتا ہے نہ تب۔ ہر طرف ایسا سناٹا تھا کہ جھینگر کی آواز نہ سنائی دیتی تھی۔یہ اس بات کی صریح علامت تھی شیر قریب ہی کہیں موجود ہے اور کسی وقت بھی ادھر آسکتا ہے۔گھڑی میں دو بج کر سات منٹ ہوئے تھے نواب صاحب کی دور رس نظروں نے کنارے لگی ہوئی جھاڑیوں میں خفیف سی جنبش محسوس کی اور میرا گھٹنا دبا کر اس طرف اشارہ کیا۔دو چمکدار آنکھیں ہمیں گھور رہی تھیں۔میرے روکنے اور محتاط رکھنے کے باوجود نواب صاحب نے نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔ ایک ہلکی سی غراہٹ سنائی دی۔جھاڑیوں میں ہلچل ہوئی۔اعظم خاں نے بھی خواہ مخواہ اپنی رائفل خالی کر دی، شیر نکل گیا تھا۔ نیچے اترنا خطرناک تھا، اس لیے صبح تک انتظار کرتے رہے۔دن نکلنے پر دیکھا، خون کی پتلی سی لکیر دور تک چلی گئی ہے۔ایک جگہ خون آلود پنجے کے نشان بالکل صاف تھے جس سے اندازہ ہوتا تھا اس کا ایک پاؤں زخمی ہو گیا۔دیکھاتو وہ نظر آیا جس پر اس نے اپنے بدن کو اچھی طرح رگڑا تھا۔اس سے آگے خون کے نشان ناپید تھے۔یہاں پر میدان ختم ہو جاتا تھا اور پہاڑیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوتا تھا جن کی پشت پر گھنی خاردار جھاڑیاں تھیں۔آگے تلاش بھی بے سود تھی اور تالاب پر قیام کرنا بھی بے کار،کیونکہ اب تو وہ لوٹ کر آنے سے رہا۔ اس لیے بے نیل مرام واپس آگئے۔
سانپ نکل گیا لکیر پیٹا کرو کے مصداق اب یہ لکیر زیادہ واضح ہو گئی تھی۔ہر تھانے کو اطلاع دے دی گئی کہ چوکنار ہیں۔کھوجیوں کو انعام کا لالچ دے کر خبردار کر دیا گیا۔اگر کسی جگہ صرف تین پنجوں کے نشان نظر آئیں تو فوراً کو توال شہر کو مطلع کریں۔جنگلوں کی ناکہ بندی زیادہ سخت کر دی گئی تھی۔خیال تھا اس طرح بہت جلد اس مردم خورکا پتا لگ جائے گا لیکن دن ہفتوں میں تبدیل ہوتے رہے اور کہیں سے کوئی خبر موصول نہ ہوئی۔ایک روز میں کسی تقریب سے کلیا کھیڑی گیا ہوا تھا کہ مقدم کا لڑکا میرے پاس آیا اور کہنے لگا ہمارے کھوجی نے آپ کے شیر کا پتا لگا لیا ہے۔اس کے قدم یہاں سے سات میل دور دیکھے گئے ہیں۔کچھ اور لوگوں نے بھی تصدیق کی اور دو دن کے اندر اندر جنگل کے اس خطے کا محاصرہ کرلیا گیا۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ہماری موجودگی کے دوران ہی میں دس بارہ سال کا ایک بچہ جو چار پائی پر اکیلا سو رہا تھا، غائب ہو گیا۔چار پائی کے گرد تین پنجوں کے نشان صاف غمازی کررہے تھے یہ اسی بدمعاش کی حرکت ہے جوہر مرتبہ ہمیں جل دے جاتا ہے۔لڑکے کے قمیض اور ہڈیوں کے ٹکڑے بھی ایک جگہ مل گئے مگر خود شیر کہیں نظر نہ آیا۔ ہم سب پر خوب لعن طعن ہوئی۔ نواب صاحب کا پارہ الگ چڑھا لیکن حاصل کچھ نہ ہوا۔(جاری ہے )
درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 40 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں