بچے من کے سچے،ان کی قدر کریں
آجکل بہت سے مرد و خواتین نوبیاہتا یا بچوں والے جو شدید خانگی پریشانیوں کے مراحل سے گذر رہے ہیں، انہیں انکے لئے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ براء ہونے کے لئے تجاویز دینے کی اشد ضرورت ہے۔ بچوں کی سپردگی ملاقات، نان نفقہ، طلاق سے پہلے اور بعد کے مسائل پر نوجوان نسل کی راہنمائی ضرور ہونی چاہیے۔
پرانے وقتوں میں والدین اور بڑے بزرگ رہنمائی کرتے تھے آجکل مادی دور ہے اور فون نے معاشرتی رنگ بدل دیا ہے ،لوگوں کے پاس یا وقت نہیں ہے یا انکا اب کوئی بڑا بڑا نہیں رہا ہے۔ بطور وکیل اس طرح کے مسائل سامنے آرہے ہیں جیسے معاشرتی نظام مکمل تباہی کی طور گامزن ہو۔ ایسے میں ہمارا فرض ہے کہ ایک دوسرے کی اصلاح کریں اور دامے درمے سخنے اپنا کردار ادا کریں،برطانیہ میں بہت سارے خانگی اور خاندانی معاملات میں میاں بیوی عدالتوں میں ایک دوسرے کے دست و گریباں ہیں۔
آئیے آج بنیادی طور پر ان کچھ نکات یا بنیادی اصولوں پر غور کریں جو طلاق یا علیحدگی کی صورت میں میاں بیوی کے درمیان بچوں کے معاملے پر ملاقات یا سپردگی کے کیسوں میں سامنے آتے ہیں۔ یہ مضمون تمام معاملات احاطہ نہیں کرسکے گا لیکن آج ملاقات اور سپردگی کے قانون کا جائزہ لیں گے۔ عموماً اگر آپ بچے یا بچوں کے والدین ہیں اور سپردگی کا کوئی حکم موجود نہیں ہے تو آپ دونوں ماں اور باپ کے طور پر برابری کی بناء پر حق رکھتے ہیں کہ بچوں کو ساتھ رکھ سکیں۔ عموماً بچوں کا بہترین مفاد اٹھارہ سال کی عمر تک ماں کیساتھ رہنے میں سمجھا جاتا ہے لیکن والدین میں سے کوئی بھی اگر بچے کو ایک دوسرے سے دور لیجائے جو کہ غیر مناسب ہو تو عدالت اس عمل کو اسکے خلاف عمل گردان سکتی ہے، بچے کا بہترین مفاد مختلف عوامل کو دیکھ کر طے کیا جاتا ہے۔
بچے اور اسکے والدین یا دیکھ بھال کرنے والے کے حالات، انکی والدین بننے کی صلاحیت، بچے کی صحت اور عموماً بہتری فیملی معاملات میں عدالت اور اداروں کی سب سے اولین ترجیح ہوتی ہے۔ عموماً والدین میں سے کسی ایک کو یہ حق نہیں کہ وہ دوسرے کو اپنے بچے سے ملنے سے روکے تاوقتیکہ بچے کی صحت اور حفاظت کو خطرے کا احتمال نہ ہو۔ اگر بچے کو کوئی خطرہ نہ ہو تو قانون ماں اور باپ سے ملاقات کو بچے کی نشوونما کے لئے حوصلہ افزاء گردانتاہے۔سپردگی دو طرح کی ہوتی ہے۔ قانونی اور جسمانی۔ قانونی سپردگی جس میں آپ بچے کی صحت تعلیم اور نشوونما کے لئے بڑے فیصلے کرتے ہیں۔ جسمانی کسٹڈی میں بچہ جن کے ساتھ رہتا ہے انکے پاس سپردگی کا حق ہوتا ہے۔عدالتیں بچوں کی سپردگی کے معاملات بچے کا بہترین مفاد مدنظر رکھ کر طے کرتے ہیں۔
بچے کے بہترین مفاد میں قانون یہ دیکھتا ہے کہ بچے کی ضرورت کیا ہے اور والدین کیا چاہتے ہیں؟ عدالتیں سپردگی اسکے حوالے کرتی ہیں جو بچے کی جسمانی معاشی نفسیاتی اور معاشرتی ضروریات بہتر طور پر پورا کرسکیں۔ ماں باپ چار طرح سے بچوں کے معاملات میں غفلت برتنے کے الزام کا سامنا کر سکتے ہیں۔ جسمانی غفلت میں بچے کو مناسب غذا کپڑے اور رہائش کا فراہم نہ کرنا ہے۔ طبی غفلت میں بچے کی طبی دیکھ بھال اور طبی ضروریات کا خیال نہ رکھنا ہے جس میں بچے کی طبی دیکھ بھال اور ضروری چیک اپ اور دماغی صحت کا خیال رکھنا ہے۔ تعلیمی غفلت میں بچے کی تعلیمی ترقی کا خیال نہ رکھنا ہے اور اسے بنیادی تعلیم سے روکنا ہے اور جذباتی غفلت میں بچے کی زندگی میں ہونے والے واقعات پر والدین کی نظر نہ ہونا اور مناسب خیال نہ رکھنا ہے۔ ہر والدین بچوں سے ملاقات کاحق رکھتا ہے۔ ملاقات کے وقت اور جگہ کے بارے میں جاننے کا حق رکھتا ہے کہ انکے بچے کہاں اور کس حال میں رہ رہے ہیں؟ وہ یہ بھی جان سکتے ہیں کہ اگر والدین میں سے ایک گھر سے باہر ہے یا کام کرتا ہے تو اسکی غیر موجودگی میں بچے کی دیکھ بھال کون کرتا ہے؟۔
خیال رکھنے والی آیا یا دوسرے دوستوں جنکے گھر بچے قیام کرتے ہیں انکے بارے میں معلومات بھی والدین کا حق ہے۔ اگر بچے ریاست کی سپردگی میں ہیں تو دونوں والدین کو جاننا چاہیے بچے کی عمر اور ضروریات کے ساتھ ساتھ ملاقاتوں کا شیڈول بھی بدل سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں کو بچے کا پرائمری کئیرر سمجھا جاتا ہے اور انکے پاس بچوں کو رکھنے کو ترجیح دی جاتی ہے حالانکہ ماں کے گھر کے حالات کئی دفعہ باپ کے حالات سے بہتر بھی نہیں ہوتے۔ سپردگی اور ملاقات کے سوالات کا جواب تلاش کرتے وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ وقتی طور پرائمری نگران کون ہے اور بچوں کی دیکھ بھال کون کررہا ہے؟ دونوں یہ ذمہ داری ملکر ادا کرتے ہیں، والدین کی جسمانی اور ذہنی حالت کیسی ہے اور کیا جس کے ساتھ بچہ رہے گا کیا وہ ایک مضبوط اور پائیدار ماحول مہیا کرسکے گا؟باپ کی نسبت ماں کو سپردگی کا اختیار زیادہ ملتا ہے، اوسطاً لگ بھگ35 فیصد کے قریب باپ ہی ماں کی نسبت سپردگی حاصل کرپاتے ہیں، وہ بھی اگر آپ عدالت کو اس بات پر مطمئن کر پائیں کہ آپ والدین میں سے بہتر چوائس ہیں اور بچے کی جسمانی بہتری کا خیال اسکی روٹین، سونے کے اوقات، غذا اور سکول کے بعد کی سرگرمیوں کا بہتر انداز میں شیڈول بنا کر پیش کرتے ہیں۔
نفسیاتی اور ذہنی صحت میں دوسرے ماں /باپ سے ملاقات، رسائی اور اسکا بچے پر اثر دیکھنا اور اسے بغور نظر میں رکھنا ہے۔ باپ کے لئے سپردگی حاصل کرنامشکل ہے لیکن ناممکن نہیں، اسے بچے کے ساتھ ملاقات اور ماں کی عدم موجودگی میں سپردگی کیلئے مندرجہ بالا اقدامات کرتے رہنا چاہیے۔ انہیں بچے کی مالی مدد کرتے رہنا چاہیے، بچے سے مضبوط تعلق قائم رکھنا چاہیے، ہر ملاقات اور چھوٹے بڑے معاملات کا لکھ کر ریکارڈ رکھنا چاہیے۔ والدین کی سکول ملاقات، ڈاکٹر اور دوسری اہم ملاقات اور موقعوں پر موجود ہونا چاہیے، انکے لئے اپنے گھر میں علیحدہ جگہ رکھنی چاہیے۔ آپکے پاس بچوں کی ضروریات کا چارٹ ہونا چاہیے۔
بچوں کی اور دوسرے والد کی عزت کریں، اپنے آپ سے ایماندار رہیں اور وہ ذمہ داری اٹھائیں جس سے عہدہ براء ہوسکیں، ذمہ داری کی نزاکت کو سمجھیں، خاندانی معاملات میں دونوں والدین عدالت میں اپنے اپنے ثبوت پیش کرتے ہیں، بہت سارے ثبوت مصدقہ کسوٹی پر پورا نہیں اترتے، جیسا کہ ٹیکسٹ میسجز ، ای میل یا واٹس آپ کے پیغامات لیکن بچوں کے بہترین مفاد میں پیش کئے جاسکتے ہیں، کئی حالات میں عدالت کی طرف سے ایک والد کو بچے سے ملاقات سے روکا جاسکتا ہے، اگر دونوں والدین میں سے ایک مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو، اگر وہ ایک دوسرے کے خلاف یا بچوں کے سامنے گھریلو تشدد کا مرتکب ہوا ہو جس کا بچوں کی صحت پر برا اثر ہوتا ہے، منشیات یا الکوحل کی زیادتی ہو، پرتشدد یا کسی ایسے نامناسب رویے کا مرتکب ہو جس کا بچے کی صحت پر منفی اثر ہو۔
اختلافات کی صورت میں اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کو دوسرے والدین کی اجازت کے بغیر ملک سے باہر لیجانا قانونی طور پر جرم ہے۔ عدالت چھٹیاں گزارنے کے لئے درخواست پر اجازت دے سکتی ہے۔ ہیگ کنونشن یہ ممکن بناتا ہے کہ بچوں کو رضامندی کے بغیر دوسرے ملک لیجانے کی صورت میں واپس اصل عدالتی تحویل میں لایا جاسکے۔ لندن ہائی کورٹ آج کل ایسے کیسوں میں تیزی سے فیصلے کرتی ہیں۔اسلامی معاشرے میں ولی کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے لیکن بچوں کی نشوونما پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ رانا کیس میں پاکستانی عدالتوں نے اس موضوع کو زیر بحث رکھا لیکن آخر کار سمجھوتے کے ذریعے اس عدالت کااستحقاق مانا جسکی کی حدود میں بچے کی پیدائش ہوئی اور اسنے نشوونما پائی۔
برطانیہ اور پاکستان نے بچوں کے اغواء پر ایک پروٹوکول پر دستخط کے ذریعے اس معاملے پر عالمی سطح پر تعاون بڑھایا ہے۔ اس میں مقامی سطح پر مزید کام کرنے کی اور آگہی ضرورت ہے۔ ایشیائی والدین کو معاشرتی سطح پر منفی ردعمل کم کرنے کی صلاحیت کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے جس میں علیحدگی کی صورت میں ایک والدین دوسرے کے حق والد کو یکسر ماننے سے انکار کردیتا ہے۔ اسکے لئے ذہن سازی، سوچ اور معاشرتی رویوں پر غور کی ضرورت ہے۔"ساس بھی کبھی بہو تھی" کی بجائے"بچے اچھے اور من کے سچے"کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے۔ عدالتیں بہت سوچ سمجھ کر بچوں کی بہتری کے لئے سپردگی اور ملاقات کے فیصلے دیتی ہیں۔ ایسے میں سوشل سروسز کی رائے اور انکے ثبوت پر مبنی تجزیوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔
عدالتی فیصلوں کو ماننے سے جہاں اختلافات بڑھتے وہیں عدالت حکم عدولی پر جیل بھی بھیج سکتی ہے۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی کے تناظر میں یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض کو بھی سمجھیں۔ بچے من کے سچے ہوتے ہیں، انکے بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ماں اور باپ مل کر اس تحفے سے ملکر لطف اندوز ہوں۔ آپس کے معاملات کو آپس میں طے کریں۔ ضرورت پڑنے پر وکیل اور عدالت اسی رجوع کریں لیکن یہ بات ہمیشہ مدنظر رکھیں کہ جب تک انتہائی ضروری نہ ہو بچے کو دوسرے والدین سے دور نہ کریں اور تمام فیصلے بچے کا بہترین مفاد مشورے کیساتھ اور کھلے دل سے غور و حوض کے بعد کریں۔ اولاد اللہ تعالی کا دیا ہوا ایک تحفہ ہے اسکی قدر کریں، اسکی عزت کریں اور اس سے محبت کریں۔
(معروف قانون دان بیرسٹر امجد ملک برطانیہ میں مقیم اور ڈیلی پاکستان کے لئے مستقل بلاگ لکھتے ہیں ,وہ چیئرمین ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائرز برطانیہ ، ممبر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور ممبر ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان ہیں۔)
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔