جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر94
میں نے دیکھا عبدالودود کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ لیکن جب وہ بولا تو اس کی آواز میں ٹھہراؤ تھا۔
’’کالی داس! مذہب کوئی بھی ہو اسکے پیروکاروں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے مذہب یا اس مذہب کے ماننے والوں کی شان میں گستاخی کریں۔ تم نے ایک طویل عرصہ اپنے مذہب کی عبادت و ریاضت میں گزارا ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ تمہیں عقل نہ آئی۔ علم تو انسان کی فراست کو بڑھاتا ہے لیکن تم نے اس قسم کی باتیں کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ تمہارا علم ادھورا اورناقص ہے۔ شاید تم نے اپنے مذہب کی تعلیمات کا صحیح طور پر مطالعہ نہیں کیا۔ کوئی بھی مذہب انسان کو بدکاری اور ظلم و ستم نہیں سکھاتا۔ لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تم نے ایک معمولی جن زاد ے سے ایک نہایت قبیح فعل کروایا۔۔۔تم نے ایک نامحرم بے قصور کو بلاوجہ پریشن کیا۔ ہمارے مذہب میں اس کی باقاعدہ سزا مقرر ہے۔ لیکن میں چاہتاہوں کہ تم کچھ دیر ہم سے نشست اختیار کرو تاکہ ہم بیٹھ کر شریفانہ انداز سے گفتگو کر سکیں۔ میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ اس محترم خاتون کو اپنے جادو سے آزاد کرکے عظمت کا ثبوت دو۔ میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں کہ یہی ایک سچا مذہب ہے۔ ایک اللہ کی عبادت کرو۔ کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔ اسکے بھیجے ہوئے پیغمبروں اور قیامت پر ایمان لے آؤ تاکہ شیطان کے دھوکے سے بچ کر صراط مستقیم پر چل سکو جو سیدھا اور سچا راستہ ہے۔ بھلائی کا یہ راستہ جن و انس کو ہمیشہ کے لئے جنت میں لے جائے گا۔ ورنہ تو اس جبار وقہار اللہ نے بڑا ہی دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے جس میں ان سرکشوں کو ڈالا جائے گا جو اسکی نافرمانی کرتے ہیں۔‘‘ عبدالودود کی گھمبیر آواز براہ راست دل پر اثر کر رہی تھی۔ میں تو خیر الحمد للہ مسلمان ہوں لیکن میں نے دیکھا رادھا کی حسین آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ وہ بڑے بڑے جذب کے عالم میں آنکھیں بند کیے عبدالودود کے ذریعے اللہ کا پیغام سن رہی تھی۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر93 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ندامت اور شرمندگی نے اس کے چہرے کو وہ تقدس بخشا جس کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں۔
’’تیرا اپدیش کھتم ہوگیا یا ابھی باقی ہے؟‘‘ کالی داس کا لہجہ طنزیہ تھا۔
’’میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے جو میرے ذمے فرض تھا‘‘ عبدالودود نے تحمل جواب دیا۔
’’میں پوچھ رہا ہوں تیرا بھاشن کھتم ہوگیا یا ابھی باقی ہے؟‘‘ کالی داس کی بیزارسی آواز آئی۔
’’تو نہیں جانتا کہ تو اس سمے کس شکتی سنگ بات کر رہا ہے۔ یدی تو جان لے تو ابھی میرے چرنوں میں سر رکھ کے دیا کی بھکشا مانگے گا۔‘‘ وہ متکبر بڑی حقات سے بولا۔’’رہی بات اس کلٹا کی تو میں اسی سمے اسے نرکھ میں پہنچا سکتا ہوں پرتنو میں نے کالی ماتاکو وچن دیا ہے کہ اس کا اور اس کے پریمی کا بلیدان اس کے چرنوں میں اوش ہوگا‘‘ کالی داس نے اپنی بکواس جاری رکھی۔
’’تھوڑا سمے اور جاتا ہے کہ تم سب جان جاؤ گے کہ کالی داس سے یدھ کرنا بالکو کا کھیل نہیں۔ میرے چیلے پرتاب نے تجھے ایک اوسر دیا تھا کہ تو اس کا متر بن جا پرنتو جان پڑتاہے تیرے سر میں بدھی نہیں بھوسا بھرا ہے۔اس ملیچھ کے کارن تمنے کالی داس کے آشرم میں پگ دھرا ہے۔ یہ تیرے جیون کی سب سے بڑی بھول ہے۔ جانتاہوں کچھ شکتیاں تیری سہائتاکر رہی ہیں پرنتو۔۔۔مہاراج وشنو داس نے مجھے وچن دیا ہے اسکا جاپ پورا ہوتے ہی میں تم سب کا بلیدان کالی ماتاکر چرنوں میں کروں گا۔ اس سمے تک تم اسی کوٹھے میں بندی بنے پڑے رہو گے۔ میں وچن دیتا ہوں اسے تمرے واسطے نرکھ بنا دوں گا۔‘‘ اس کے ساتھ ہی آواز آنا بند ہوگئی۔
سب خاموش تھے میں اس انتظارمیں تھا کہ رادھا یا عبدالودود کیا کرتے ہیں؟ صائمہ بدستور بے ہوش تھی۔ صرف اسکے سینے کے زیر بم سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ زندہ ہے۔ مجھے بچوں کی فکر ستائے جا رہی تھی۔ نامعلوم کتنا وقت گزرا تھا؟ کیوں کہ اس کمرے سے باہر بھی تاریکی تھی۔ نہ ہی میرے پاس گھڑی تھی کہ میں وقت کے بارے میں معلوم کر سکتا۔ اس جادونگری میں کتنا وقت گزرا احساس ہی نہ تھا۔ جی میں آئی کہ محمد شریف سے پوچھوں لیکن سب کو خاموش پاکر میں بھی چپکا کھڑا رہا۔
’’فاروق!‘‘ رادھا نے مجھے پہلی بار میرے اصلی نام سے پکارا۔ میں بری طرح چونک گیا۔ وہ گہری نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ عبدالودود اور محمد شریف بھی چونک گئے۔ سب کو متوجہ پا کر وہ کہنے لگی۔
’’میں تمہرا دھرم سویکارکرنا چاہتی ہوں‘‘ حیرت سے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ مجھے لگا جیسے میری سماعت نے دھوکہ دیا ہو۔
’’کک۔۔۔کیا۔۔۔کیا کہہ رہی ہو رادھا‘‘ میں بری طرح بوکھلا گیا۔
’’کیا تم نہیں چاہتے کہ میں وہ دھرم اپناؤں جو اس سنار سے جانے کے بعد بھی میری سہائتا کرے؟‘‘ اس نے نظریں جھکا کر کہا۔
’’سبحان اللہ‘‘ محمد شریف نے کہا۔
’’اللہ اکبر‘‘ عبدالودود نے نعرہ بلند کیا۔ دونوں کے چہرے جوش سے چمکنے لگے۔
’’مجھے ابھی اور اسی سمے اپنے دھرم میں لے آؤ۔‘‘ اس نے دوبارہ کہا۔
’’رادھا یہ تو بہت خوشی کی بات ہے۔ لیکن یہ ۔۔۔یہ سب کیسے میرا مطلب ہے تم نے اچھی طرح سوچ لیا ہے نا؟‘‘مجھے ابھی تک یقین نہ آرہا تھا کہ رادھا نے وہی کچھ کہا ہے جو میرے کانوں نے سنا ہے۔
’’کیوں نہیں بہن! یہ تو ہماری خوش بختی ہے کہ ہمیں یہ سعادت حاصل ہو رہی ہے‘‘ محمد شریف نے مسکرا کر کہا۔ اس کے چہرے سے خوشیوں کا آبشار بہنے لگا تھا۔ عبدالودود کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی۔(جاری ہے)
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر95 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں