دھاندلی اور سیاسی جماعتیں
عام انتخابات پر اس وقت کوئی بھی جماعت مطمئن نہیں ہے جو حکومت بنانے جا رہے ہیں وہ بھی دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں اور جو اپوزیشن کرنا چاہتے ہیں وہ بھی دھاندلی کا الزام لگا رہے۔مسلم لیگ(ن) اس وقت گومگو کی کیفیت کا شکار ہے کہ اگر وہ حکومت بناتی ہے تو اس کا ووٹر ناراض ہوتا ہے اور پی پی ن لیگ کی حمایت تو کرنا چاہتی ہے لیکن وہ بدلے میں وفاق میں وزارتیں نہیں لینا چاہتی اور دوسری جانب، پی ٹی آئی، جے یو آئی ف، جماعت اسلامی سمیت متعدد علاقائی و سیاسی جماعتوں کو الیکشن کے نتائج پر تحفظات ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے تو الیکشن نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا ہے اور انہوں نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ پارلیمانی سیاست کی بجائے میدان کی سیاست کریں۔ مولانا فضل الرحمن ایک زیرک سیاست دان ہیں اور عموما وہ بڑے تحمل مزاج جانے جاتے ہیں، لیکن الیکشن کے نتائج نے انہیں بھی مایوس کر دیا ہے اور انہوں نے پی ڈی ایم کے سابق اتحادیوں کو بھی الیکشن نتائج پر تحریک چلانے کی دعوت دی ہے اور انہیں کہا ہے کہ وہ دھاندلی زدہ الیکشن کے بعد اس دھاندلی کے منصوبے میں شامل ہو کر حکومت نہ بنائیں، مولانا کی بات میں بڑا وزن ہے،کیونکہ جمعیت علمائے اسلام خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی ا یک بڑی جماعت ہے اور جس طرح انہیں ان کے اپنے اضلاع میں ہرایا گیا ہے اس پر ان کا تشویش کا اظہار کرنا ضروری ہے۔ دوسری جانب جماعت اسلامی نے تو دھاندلی کے خلاف اے پی سی بھی کال کر لی ہے اور جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے تو سندھ سے جیتی ہوئی نشستوں کو اپنا ماننے سے ہی انکار کر دیا ہے اور انہوں نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ پورے کراچی میں جماعت اسلامی کا جو مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے وہ انہیں واپس دلایا جائے اور خیرات میں دی گئی سیٹیں انہیں نہیں چاہئیں۔ اس طرح سندھ میں جی ڈی اے نے بھی اپنی جیتی ہوئی نشستیں واپس کرنے کا اعلان کیا ہے اور انہوں نے بھی کہا ہے کہ انہیں خیرات میں دی گئی سیٹیں نہیں چاہئیں۔
دوسری طرف پنجاب کے حلقہ این اے 132کا ذکر کروں جہاں سے شہباز شریف کامیاب ہوئے ہیں ان کے مد مقابل علامہ ابتسام الہی ظہیر بھی دھاندلی کے چشم دید گواہ ہیں کہ کیسے ان کے ہزاروں ووٹوں کو چند سو میں بدلا گیا اور الیکشن والے دن کا مومینٹم بتا رہا تھا کہ لوگ سٹیٹس کو کے خلاف نکلے ہوئے تھے وہاں جیتنے والی پارٹیوں کے ووٹرز دیکھنے کو بھی نہیں مل رہے تھے، لیکن جب نتائج کا اعلان ہوا تو ہارے ہوئے امیدواروں کو ہزاروں کی لیڈ سے جتوا دیا گیا۔اسی طرح قصور کے حلقوں سے مرکزی مسلم لیگ کے سیف اللہ خالد قصوری نے پندرہ ہزارسے زائد ووٹ لئے ان کا بھی یہ شکوہ ہے کہ ان کے ووٹ کم کئے گئے اور اگرچہ وہ پہلی بار انتخاب میں اترے، لیکن انہوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ہزاروں ووٹ لئے، ان کا کہنا ہے کہ اگر دھاندلی نہ ہوتی تو شاید وہ سرپرائز دینے کی پوزیشن میں ہوتے(ویسے میرا ان کو یہ مشورہ ہے کہ وہ اب اپنے حلقے میں محنت کریں تا کہ اگلے الیکشن میں کوئی ان کا مینڈیٹ چرانے کی جرات نہ کر سکے) اسی طرح پتوکی سے آزاد امیدوار عقیل اسلم آرائیں جو پی پی 182 سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے ان کا کہنا ہے کہ وہ فارم 45 کے مطابق جیتے ہوئے تھے، لیکن انہیں بھی فارم 47 کی وجہ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ وہ تمام امیدوار ہیں جو ٹی وی کی سکرینوں پر غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق جیت چکے تھے، لیکن جب سرکاری نتیجے کا اعلان ہوا تو ان کی جیت کو شکست میں بدل دیا گیا۔
اگر الیکشن کے نتائج اسی طرح تبدیل ہوتے رہیں گے تو پاکستان کے جمہوری نظام پر کون اعتبار کرے گا اور اگر اسی طرح سیاسی جماعتیں الیکشن کے عمل پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتی رہیں گی تو کیا ملک میں جمہوریت قائم رہ سکے گی یہ اہم سوال ہے، جس پر ہمارے ارباب اختیار کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ میں نے گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا اور پھر دہرائے دیتا ہوں کہ اس طرح کے تضادات سے شکوک و شبہات سے بچنا ہو گا تاکہ لوگوں کا جمہوری و سیاسی عمل پر اعتبار و اعتماد قائم ہو وگرنہ الیکشن ایک فضول مشق بن کر رہ جائیں گے، جس کے ثمرات اشرافیہ تو سمیٹ لے گی، لیکن نچلے سطح پر بے چینی بڑھے گی جو کسی دن لاوے کی صورت میں پھٹ سکتی ہے اور جس دن یہ لاوا پھٹا تو پھر کسی کے پاس بھی بچنے کی جگہ نہ ہو گی، کیونکہ یہ سیاسی جماعتیں، مذہبی جماعتیں ہمارے معاشرے کا حسن ہیں اور اگر انہوں نے ہی سسٹم پر اعتراض کر دیا اور الیکشن کو ماننے سے انکار کر دیا تو پھر غیر ریاستی عناصر کو موقع ملے گا اور وہ معاشرے میں جگہ بنانے کی کوشش کریں گے، جس سے پاکستان میں ایک بار پھر فرقہ واریت جڑ پکڑ سکتی ہے جس پر ہمارے اداروں کو، ہماری حکومتوں کو سوچ بچار کر کے سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کرنے کی ضرورت ہے اور غیر ریاستی عناصر نے پہلے ہی ملک کا بہت نقصان کر دیا ہے اس لئے ریاستی عناصر یعنی سیاسی جماعتوں کے تحفظات سنیں، ان کی دِل جوئی کریں اور ان کی جو جائز شکایات ہیں وہ دور کریں تاکہ جمہوری عمل ڈی ریل ہونے سے بچ سکے۔