صرف جعلی وکلاء۔۔۔ چراغ تلے اندھیرا

صرف جعلی وکلاء۔۔۔ چراغ تلے اندھیرا
صرف جعلی وکلاء۔۔۔ چراغ تلے اندھیرا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مجھے اکثر اس بات پر سخت تعجب ہوتا تھا کہ وکلاء آخر کیوں آپس میں گھتم گتھا ہو جاتے ہیں اور لاتوں مکوں سے بات کیوں کرتے ہیں ۔ بچپن سے یہ سن رکھا تھا کہ جاہل لاتوں مکے سے اور پڑھے لکھے لوگ زبان سے بات کرتے ہیں،لیکن جب میں وکلاء میں جو تم پیزار دیکھتا تھا تو سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ پڑھے لکھے ہیں یا جہلاء ہیں۔ ہمارے محلے کے ایک بزرگ جب تعلیم یافتہ لوگوں میں کوئی برائی دیکھتے تو کہا کرتے تھے یہ تعلیم یافتہ نہیں، تعلیم آفتاں ہیں ،یعنی تعلیم کی آفات ہیں۔ جب وکلاء ججوں کو مار پیٹ کر عدالتوں میں بند کر دیتے تھے تو مجھے ان بزرگ کا خیال آتا تھا کہ یہ وکلاء یقیناً تعلیم یافتہ نہیں، بلکہ تعلیم آفتاں ہیں۔
ہم اکثر اپنے سیاست دانوں، فوج، پولیس اور بیورو کریسی کے بارے میں منفی پراپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ یہ غلط لوگ ہوتے ہیں، لیکن وہ کون سا عیب ہے جو ان طبقوں میں ہے اور من حیث القوم ہم اس عیب سے پاک ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے پارلیمینٹ کو تعلیم آفتاں بنانے کے لئے بی اے کی شرط لگا دی اور دیکھتے ہی دیکھتے سیاست دانوں نے جعلی سندوں کے ڈھیر لگا دیئے۔ اس پورے دور میں کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ ان اسناد کی جانچ پڑتال کرتا۔ گویا مشرفی دور کے نیب کی طرح کہ اس نے جس کی دھلائی کر دی اسے وزارت بھی دے دی گئی۔ فوج کا سربراہ آئین توڑتا ہے۔ آئین توڑنے میں بھی ہم سب طاق ہیں۔ پولیس ظالم ہے، رشوت خور ہے۔ ہم پروفیسر اور وکیل ہو کر بھی اپنے گھر کے نوکروں کو مار مار کر ہلاک کر دیتے ہیں، رشوت صرف پولیس ہی نہیں لیتی، جہاں کہیں عوام کا کام پھنستا ہے وہاں رشوت چلتی ہے۔ بجلی کا محکمہ ہو یا سوئی گیس کا چڑھاوا چڑھائے بغیر کنکشن تک نہیں ملتا۔ نوکریوں کے لئے رشوت چلتی ہے۔ کالجوں، یونیورسٹیوں میں داخلوں کے لئے رشوت چلتی ہے اور پاس ہونے کے لئے رشوت چلتی ہے۔ تو پھر صرف پولیس ہی کیوں بدنام ہے۔ بیورو کریسی میں رشوت ، سفارش اور کرپشن ہے تو کیا لوگ ٹی وی پر دین فروشی نہیں کر رہے ہیں۔ ہم قتل کرتے ہیں پورے دھڑلے سے، اس وقت اللہ اور اس کا دین ہمیں انسانیت کے قتل سے نہیں روکتا۔ مقدمہ چلتا ہے، ہم جرم سے صاف مکر جاتے ہیں، جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں، جھوٹے گواہ پیش کرتے ہیں ،مقتول کے خاندان کو دھمکیاں دیتے ہیں،لیکن جب سارے ثبوت سامنے آ جاتے ہیں، عدالت سے سزائے موت سنا دی جاتی ہے، اس وقت ہمیں اللہ یاد آ جاتا ہے۔ مقتول کے وارثوں کو اللہ کا واسطہ دیتے ہیں اور اللہ کے دین کے مطابق دیت دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور مقتول کے لواحقین کو دباؤ ڈال کر دیت لینے پر آمادہ کر لیتے ہیں۔ کیا ہم سب نیک ہیں اور ہم پر برے حکمران مسلط کر دیئے گئے ہیں؟
پنجاب بار کونسل نے جعلی ڈگریوں کی بنا پر لائسنس حاصل کرنے والے 1400 وکلاء کے لائسنس معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سبحان اللہ جو جعلی ڈگری لئے پھرتا ہے، وہ لوگوں کے آئینی حقوق کی کیا حفاظت کرے گا؟ قانون کا پالن کیوں کرے گا اور انصاف کیسے دلائے گا؟ ایسے ہی وکلاء جو تم بیزار بھی کرتے ہیں۔ ایسے ہی وکلاء عدالتوں میں جھوٹے گواہوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں اور قانون وانصاف کو مسخ کرتے رہتے ہیں۔ میں نے قانون کی پریکٹس نہیں کی ،کیونکہ جب میں نے اس میدان میں آکر دیکھاکہ قانون کے محافظ لاقانونیت کے پشت پناہ ہیں۔ موکل آتا ہے، وہ اپنے جرم کا اعتراف کرتا ہے وکیل اسے کہتا ہے فکر نہ کرو میں تمہیں بچا لوں گا ،میری فیس ادا کرو۔ وہ اسے جھوٹ سکھاتا ہے جھوٹے گواہ لانے کے لئے کہتا ہے، فیس لینے کے بعد ہر پیشی پر کسی نہ کسی بہانے موکل سے کچھ نہ کچھ بٹورنا ضروری ہوتا ہے اور اکثر جھوٹ کو سچ بنا کر اپنے موکل کو بری کرا لیتا ہے،لیکن متاثرہ فریق کا اعتماد، قانون انصاف اور عدالتوں سے اٹھ جاتا ہے۔ فریق متاثرہ کے ذہن میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جرم کرکے صاف بچ نکلنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اگر موکل ہار جاتا ہے تو اسے جھوٹی تسلیاں دے کر اس سے اپیل کرا دی جاتی ہے اور اپیل کی الگ فیس وصول کر لی جاتیہے۔ عدالتوں میں برسوں تک جوفیصلے نہیں ہوتے، اس میں ججوں کی کمی، عدالتوں کی سست روی اور وکلاء کی فن کاری کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ اخبارات کے صفحات پر انصاف کے لئے برسوں سے رلنے کے واقعات انہی اسباب کی پیداوار ہیں۔
1400وکلاء کی اسناد صرف پنجاب میں جعلی ہیں،دوسرے صوبوں میں کیا حال ہوگا، دوسرے محکموں میں کیا صورتِ حال ہوگی، کتنے ڈاکٹر کتنے، استاد جعلی ڈگریوں سے کام چلا رہے ہوں گے، وہ اسلامی مدارس جو چند روپوں کے عوض لوگوں کو سندیں جاری کرتے رہے ہیں، خود ان کی اپنی اسناد بھی ایسی ہی ہوں تو کیا تعجب ہے؟ کیا سیاست دانوں کی اسناد کی جانچ پڑتال میں ایسے کیس سامنے نہیں آئے تھے کہ کسی سیاست دان نے بی اے کی شرط پوری کرنے کے لئے اسلامی مدرسے کی سند پیش کر رکھی تھی، لیکن اسے سورۂ فاتحہ تک نہیں آتی تھی، پھر گناہ گار صرف ’’ایگزیکٹ‘‘ ٹھہری ،یہ مدارس معصوم ہیں۔سیاست دان الیکشن لڑتے ہیں اور چونکہ ان کے نزدیک لڑائی میں سب کچھ جائز ہے ،اس لئے ہر جھوٹ سچ کو استعمال کرتے ہیں۔ دھاندلی بھی کرتے ہیں ، جعلی ووٹ بھی بناتے ہیں اور ہم اخباروں میں کالم لکھ کر ٹی وی پر بیٹھ کر خوب ان کی خبر لیتے ہیں۔ خود ہماری صحافی تنظیموں کے الیکشنہوتے ہیں تو یہی الزام لگتے ہیں۔ جعلی ووٹ بنانے سے لے کر جعلی ووٹ بھگتانے تک کے الزامات تو حال ہی میں بھی ایک پریس کلب کے انتخابات کے موقع پر سامنے آئے ہیں، اگر یہ الزامات درست ہیں تو پھر چراغ تلے اندھیرا ہی نہیں، چراغ مکمل بجھ چکا ہے اور الزامات غلط ہیں تو پھر بھی چراغ چوری ہو چکا ہوگا۔ یا شاید چراغ نام کی کوئی شے اپنی برادری میں کبھی پائی ہی نہیں جاتی ہوگی۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ہم من حیث القوم قعرمذلت میں گر چکے ہیں۔ اخلاق، انصاف اور عدل سے برگشتہ ہیں۔ الحمدللہ ہر طبقے میں اچھے لوگ بھی ہیں۔ پولیس جسے سب سے زیادہ بدنام کیا جاتا ہے ، اس میں بھی پاک باز لوگ ہیں۔ فوج میں آئین کی بالادستی کودل و جان سے تسلیم کرنے والے بھی ہیں۔ بیورو کریسی میں بھی اصولوں پر چلنے والے ہیں۔ سیاست دانوں میں بھی اچھے اور سچے سیاست دان موجود ہیں۔ اساتذہ اور علماء میں بھی حق اور سچ پر چلنے والے ہیں۔ ہماری صحافی برادری میں بھی شاید کئی ایسے ہوں جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں، لیکن نیکی ،سچائی،قانون انصاف، مظلوم کی دادرسی کا جذبہ مغلوب اور قلیل ہے۔ تعلیم میں بڑھوتری ہو رہی ہے، لیکن تربیت کا فقدان ہے۔ افسوس کہ ہم اپنی چرب زبانی سے حوروں کا لالچ دے کر کچے اذہان کو خودکش بمبار تو بنا لیتے ہیں، معاشرے کے لئے مفید انسان نہیں بنا سکتے۔ ہم بُروں کو ختم کرکے برائی کا خاتمہ چاہتے ہیں، بُروں کی برائی کو ختم کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ ہم دوسروں کو بُرا ثابت کرنے کے لئے گلے کی پوری طاقت صرف کرتے ہیں، اپنے آپ کو اچھا بنانے کے لئے ذرا سا دل کو آمادہ نہیں کر پاتے۔ جعلی ڈگریاں صرف وکلاء اور سیاست دانوں کے پاس نہیں، بہت سی اصلی ڈگریاں بھی اندر سے جعلی ہیں۔

مزید :

کالم -