پیر صاحب روحانی دوروں پہ
ہاجرہ کے گھر پیر صاحب کا سال میں ساتواں پھیرا تھا۔ انھیں ہاجرہ کی کسپمرسی اور زندگی میں موجود مشکلات پہ دکھ ہوتا تھا۔ اسی لیئے ہاجرہ کے اچھے دنوں کی دعا کرنے کے لیئے وہ ہاجرہ کے گھر آتے اور خاص چلہ کاٹنے کے لیئے رات یہیں بسر کرتے۔ ہاجرہ کی ہر ممکن کو شش ہوتی کہ پیر صاحب راضی ہوکر اس کے گھر سے جائیں۔ بکرے کا گوشت پیر صاحب کو بہت مرغوب تھا اور وہ دونوں وقت یہی کھانا پسند فرماتے تھے۔ مچھلی مجبوراً کھاتے کہ ڈاکٹر نے تجویز کر رکھی تھی۔ ناشتہ ہمیشہ سری پائے کا کرتے۔ البتہ میٹھا ہاجرہ کی مرضی پہ چھوڑ دیتے۔ بس سوجی کا حلوہ انھیں منع تھا۔
گھر گھر کام کرنے والی ہاجرہ نے آدھی سے زیادہ تنخواہ صرف تین وقت کے کھانے پہ لگا دی تھی اور واپسی پہ پیرصاحب کی خدمت میں ابھی نذرانہ بھی پیش کرنا تھا، الجھے، بکھرے بالوں والی ہاجرہ کو اب پورا مہینہ تین وقت کی روٹی نصیب نہیں ہونے والی تھی۔ کبھی وہ کسی مزار سے جا کرلنگر لے آئے گی کبھی کسی کے گھر سے بچا ہوا کھانا، تو کبھی بھوک سے بلکتے بچوں کو مار کر سلا دے گی۔ لیکن پیر صاحب کی خدمت میں کمی نہیں آنے دے گی۔ آخر اس کی مشکلات دور کرنے کے لیئے وہ اتنی محنت کرتے ہیں۔
پیر صاحب فرماتے ہیں کہ ان کا اپنے مریدوں پہ خاص دھیان ہوتا ہے۔ اور وہ اپنے مریدوں کو اکیلا نہیں چھوڑتے، اسی لئے تو برکت کے لیئے کبھی کسی مرید کے گھر اپنے مبارک قدم رنجہ فرماتے ہیں تو کبھی کسی کو آنے والی آفتوں سے بچانے کے لیئے رات اس کے گھر قیام کرتے۔ پیر صاحب پریشان تھے کہ انھیں ہاجرہ کے اوپر سخت وار کیئے جانے کا اشارہ ہوا تھا۔ اسی لیئے ہاجرہ کے گھر ٹھہر کر آج رات پیر صاحب خاص چلہ کاٹنے والے تھے۔ انھوں نے ہاجرہ سے کہا تھا کہ یہ بہت ہی سخت عمل ہے اس سے مجھے نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن تمھیں بچانے کے لیئے میں یہ نقصان برداشت کر لوں گا۔ بس جب چلے کے دوران مجھے کچھ ہو تو تم مجھے سنبھال لینا۔ پیر صاحب اس کی خاطر اپنی جان عذاب میں ڈالنے والے ہیں، ٹانگیں دباتی ہاجرہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ہاجرہ کی کمر پہ دست شفقت پھیرتے ہوئے پیر صاحب نے اس کے آنسو صاف کیئے اور اسے سر دبانے کا اشارہ کیا۔
آج کا چلہ پھر بہت سخت تھا۔ پیرصاحب اور موکلات کے درمیان سخت مقابلہ جاری تھا ان کی آنکھیں لال انگارہ اور طبیعت بھاری ہورہی تھی۔ ہاجرہ کو ہدائیت تھی کہ اس دوران پیر صاحب جو بھی فرمائیں اس پہ من و عن عمل کرے، اور ہاجرہ حکم کے مطابق چل رہی تھی۔ آخر یہ عمل خاص اسی کے لیئے تو تھا۔ صبح کاذب جا کر موکلات نے پیر صاحب کی جان چھوڑی، اور پیر صاحب نے ہاجرہ کی۔
ہاجرہ کے گھر بیٹھے پیر صاحب کو ایک اور الہام ہوا کہ اس کی ساتھ والی ہمسائی جسے انھوں نے کئی بار گلی سے آتے جاتے دیکھا تھا، کی کوئی بہت بڑی پریشانی چل رہی ہے۔ انھوں نے ہاجرہ سے کہا اسے ادھر لیکر آؤ میں اسکی پریشانی دور کرنا چاہتا ہوں۔ پیر صاحب وہ بہت مغرور عورت ہے اسے تو اللہ رسول کا پتہ ہی نہیں۔ لباس تک تو ڈھنگ کا پہنتی نہیں، گھٹنوں سے اوپر تو اس کا پاجامہ ہوتا وہ بھی اتنا تنگ، کہ اللہ معاف کرے دیکھ کے شرم آجائے۔ اس پہ پریشانی نہ آئے تو اور کیا آئے۔ ہاجرہ کانوں کو ہاتھ لگاتی بتا رہی تھی۔ ہاں دیکھا ہے میں نے اسے، خاصی بے ہدائتی عورت ہے۔ لیکن میں اسے ہدائیت پہ لے آؤں گا تم بس جا کر اس سے بات کرو۔ ہاجرہ اس کے گھر چلی گئی۔ اور جا کر پیرصاحب کا پیغام دیا۔ اس نے کہا تم اپنے پیر صاحب کو ادھر ہی لے آؤ، سائرہ نے دل میں کہا دیکھوں تو اس پیر کو۔ ہاجرہ نے پیر صاحب کو جا کر بتایا تو ان کی آنکھوں میں چمک سی آگئی۔ پیر صاحب نے جلدی سے چپل پہنی اور اللہ اللہ کرتے ہاجرہ کے ساتھ ہمسائی کے گھر پہنچے۔ پیر صاحب یہ باجی سائرہ ہے اور باجی یہ بڑے ہی اللہ والے بزرگ ہیں کسی چیز کا لالچ نہیں انھیں۔ انھیں اللہ کی طرف سے اشارہ ہوا ہے کہ آپ کی پریشانی دور کریں۔ تعارف کے دوران ہاجرہ نے دوبارہ اپنی بات دہرائی، ہاجرہ پیر صاحب کی کرامات بیان کرتی رہی جسے سائرہ ناگواری سے سنتی رہی، اس دوران پیر صاحب آنکھیں بند کیئے اللہ اللہ کرتے رہے۔ تھوڑی دیر بعد انھوں نے آنکھیں کھولیں اور بولے اس گھر میں بہت بڑی بلاؤں نے بسیرا کر رکھا ہے۔ اس گھر میں آفتیں آتی نظر آرہی ہیں۔ جو اس گھر سے باہر ہیں ان کی جان کو زیادہ خطرہ ہے، کچھ بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ کچھ لمحوں کے لیئے سائرہ کا دل مٹھی میں آگیا، اس کا دھیان سیدھا اپنے شوہر کی طرف گیا۔ مصیبت سے بچنے کے لیئے کچھ بتائیں آپ، سائرہ نے پریشانی سے کہا۔ پیر صاحب نے کاپی پنسل منگوا کر اس پہ کچھ لکھا، اسے ایک رات میں ایک لاکھ مرتبہ پڑھو تو سب مصیبتیں ٹل جائیں گی، انشاء اللہ۔ اللہ بہت کریم ہے۔
اتنا زیادہ میں کیسے پڑھ سکتی وہ بھی ایک رات میں، کاغذ پہ لکھا لمبا سا وظیفہ دیکھ کر سائرہ نے حیرانی سے پوچھا۔
اگر تم نہیں پڑھ سکتی تو پھر مجھے عمل کرنا ہوگا، اگر تم چاہو تو۔۔۔۔۔۔۔ لیکن جیسے بھی ہو اس پہ عمل ضرور کرو ورنہ بہت نقصان ہونے والا ہے تمھارا۔ سائرہ جو دوبئی میں موجود شوہر کی خرابء طبیعت کے باعث پچھلے دو دن سے بہت پریشان تھی، ڈر گئی ٹھیک ہے آپ کر دیں یہ عمل۔ کہ ایک رات میں اتنا لمبا وظیفہ وہ ہرگز نہیں کر سکتی تھی۔ عشاء کے بعد پیر صاحب اپنا عمل شروع کرنے والے تھے۔ سائرہ کو خاص ہدائیت کی کہ عمل چونکہ بھاری ہے اس لیئے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ جب میں عمل کررہا ہوں تو خیال رکھنا، اگر ڈر لگے تو گھبرانا نہیں، میں سنبھال لوں گا۔ کچھ نا سمجھتے ہوئے سائرہ کمرے کے باہر ہی بیٹھ گئی کہ عمل کے دوران اگر پیر صاحب کسی ضرورت کے لئے آواز دیں تو وہ مہیا کر دے۔ کچھ ہی دیر گذری تھی کہ اندر سے عجیب و غریب آوازیں آنے لگیں۔ سائرہ نے کمرے میں جھانکا بدلتی آوازوں کے ساتھ پیر صاحب مختلف حرکتیں کررہے تھے۔ اسے دیکھتے ہی بولے بہت بھاری موکل ہیں بی بی ڈرنا نہیں، آفات سے بچنے کے لیئے مجھے پکڑ لو بس، یہ کہتے ہوئے پیر صاحب سائرہ کی طرف بڑھے۔ کندھوں سے پکڑ کر سائرہ کو کھینچا ہی تھا کہ سائرہ کے حواس کام کرنے لگے۔ سائرہ نے زور دار دھکا دے کر پیرصاحب کو زمین پر گرادیا۔ پیر صاحب اس حملے کے لیئے تیار نہ تھے فرش پہ جا گرے۔ موکلات کو بھگانے کے لیئے رکھا ڈنڈا اٹھا کر پیر صاحب کی ٹانگوں پہ مارا۔ ادھر آ تیرے موکل میں نکالوں حرامی۔ ڈنڈا پڑتے ہی پیر صاحب کی حالت سچ میں غیر ہونے لگی۔ اس سے پہلے کہ سائرہ مزید وار کرتی پیر صاحب جوتی وہیں چھوڑکے بھاگ نکلے۔