شاعری، یادِ ماضی اور انڈین فلمیں 

    شاعری، یادِ ماضی اور انڈین فلمیں 
    شاعری، یادِ ماضی اور انڈین فلمیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بعض لوگوں کے لئے یادِ ماضی عذاب ہوگا اس لئے وہ کہا کرتے تھے کہ اے خدا! مجھ سے میرا حافظ چھین لے۔ یعنی نہ حافظہ ہوگا اور نہ ماضی کی یاد آئے گی……

ان ’لوگوں‘ میں زیادہ تر کا پیشہ شاعری تھا۔ شاعر لوگ ویسے بھی نجانے کیوں نہ صرف بہت ذہین و فطین ہوتے ہیں بلکہ نہایت جذباتی اور زود رنج بھی ہوتے ہیں۔ اگر اردو شاعری میں سے غالب اور اقبال کو نکال دیں تو باقی شعراء محض قصیدہ نگار اور نوحہ خواں رہ جائیں گے۔ قصیدے وہ ایسی حسین عورتو ں کی تعریف میں لکھتے تھے کہ جن کا وجود خیالی ہوتا تھا۔ برصغیر کے وسطی اور جنوبی حصوں میں جسمانی حسن کا وہ رنگ و روپ نہیں پایا جاتا تھا جن کی تعریف و توصیف میں یہ لوگ غزلوں کے دواوین لکھ مارتے تھے۔ 

اقبال نے غزل کو ایک نیا رنگ و آہنگ عطاکیا، اس لئے میں اقبالی عہد اور اس کے بعد منظرِ عام پر آنے والے اردواور فارسی زبانوں کے ہندوستانی/ پاکستانی شعراء کو اس ذیل میں شمار نہیں کروں گا۔ مرزا غالب، اردو شعر و ادب (نظم و نثر)میں گویا ایک واٹر شیڈ تھے۔ ماقبل غالب، اردو شاعری بالعموم تصنع کے لبادے میں لپٹی ہوئی تھی۔ میں نے فارسی شعر و ادب کا بھی کچھ نہ کچھ مطالعہ کیا ہوا ہے۔ اس لئے کہہ سکتا ہوں کہ اردو شاعری پر فارسی شاعری کے اثرات اس قدر غالب تھے کہ اگر آپ دونوں زبانوں کی شاعری کا سرسری تقابل بھی کریں تو یکسانیت کا ایک جہانِ حیرت آپ کے سامنے پھیل جائے گا۔

شاعری اور موسیقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بقول مولانا شبلی ”کلامِ موزوں کو شعر کہا جاتا ہے“…… لیکن کلام کی موزونیت کا ادراک تو ہر کہ و مہ کے حصے میں نہیں آتا۔یہی وجہ ہے کہ اگر آپ موزونیء کلام سے آگاہ نہیں تو شعر کی درست قرات بھی نہیں کر سکتے۔ دنیا کی کوئی بھی زبان  ہو اس میں شاعری اور موسیقی کو الگ نہیں کیا جا سکتاکہ موسیقی اور شاعری گویا دو جڑواں نومولود ہیں۔

آپ مغربی موسیقی کا سازینہ سن لیں۔ اس میں رِدم ضرور ہوگا لیکن وہ سوز کہ جو ساز اور ردم کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ایک روحانی کیف کا عالم تخلیق کرتا ہے، وہ اس سازینے میں نہیں ہوگا…… یہ صرف مشرقی (بلکہ ہندوستانی) زبانوں کا ’مقدر‘ ہے کہ ان میں سوز وساز کی وہ کیفیت پائی جاتی ہے جو کسی مغربی زبان کی موسیقی میں نہیں ملتی۔ انگلش، فرانسیسی، اطالوی، روسی حتیٰ کہ عربی زبان میں بھی سوز و ساز کا یہ قرینہ ایک بُعد (Distance) کی صورت میں موجود ہے۔ شاید اسی لئے اقبال نے کہا تھا:

عجمی خم ہے تو کیا مَے تو حجازی ہے مری

نغمہ ہندی ہے تو کیا، لَے تو حجاز ہے مری

عربی، ایرانی اور ترکی زبانوں کی فلموں میں بھی سوزوساز کی وہ چاشنی موجود نہیں کہ جو اردو زبان کی فلموں اور شاعری میں پائی جاتی ہے۔ غالب نے کہا تھا:

فارسی بیں تابہ بینی نقش ہائے رنگارنگ

بگذر از مجموعہء اردو کہ بے رنگِ من است

(اگر آپ نے نقش ہائے رنگارنگ دیکھنے ہیں تو میرا فارسی کلام دیکھیں۔ میرے اردو کلام کے مجموعے پر نہ جائیں کہ وہ ’بے رنگ‘ ہے)

میں نے کلیاتِ غالب (فارسی) کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا ہے۔ الف سے لے کر یائے تک کی تمام ردیفوں کی غزلیں میری نظر سے گزری ہیں۔ لیکن ان میں وہ موسیقی اور وہ لطفِ قرأت موجود نہیں کہ جو غالب کی اردو غزلوں کا خاصہ ہے۔ شاید اسی لئے غالب کو کہنا پڑا تھا:

جو یہ کہے کہ ریختہ کیونکر ہو رشکِ فارسی

گفتہ ء غالب ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ ”یوں“

غالب کے درج بالا دونوں اشعار میں حقیقت کا جو باہمی اختلاف موجود ہے اس سے قطع نظر بھی کرلیں تو بھی غالب کے اردو کے دیوان میں زبان و بیان کی جو لطافت اور گہرائی پائی جاتی ہے وہ ان کے فارسی کلام میں نہیں۔ برسوں تک دیوانِ غالب(اردو) اور کلیاتِ غالب (فارسی) میرے سرہانے پڑی رہیں اور میں ان کو وقتاً فوقتاً پڑھ کر لطف اندوز ہوتا رہا لیکن اردو غزلیات کی روانی میں جو لطف موجود ہے وہ غالب کی فارسی غزلوں میں نہیں ……

یہ شرف اقبال کو حاصل ہے کہ ان کی اردو اور فارسی کی غزلیات بلکہ تمام کلام میں سوزوساز کی وہ یکساں گہرائی اور گیرائی پائی جاتی ہے جو غالب کے ہاں نہیں ملتی اور ملتی بھی ہے تو اقبال کے مقابلے میں کہیں کم ہے…… میں یہاں غالب اور اقبال کا مقابلہ نہیں کر رہا۔ دونوں اردو اور فارسی زبانوں کے بے بدل اور عظیم شاعر تھے۔ میں قارئین کو یہ بتانے کی کوشش کررہا ہوں کہ شعر اگر ’کلامِ موزوں‘ کا نام ہے تو اس میں ’جذب و جنوں‘ کی کیفیت کی وہ سرشاری موجود ہونی چاہیے جو اردو کے علاوہ باقی زبانوں کی شاعری میں بہت کم پائی جاتی ہے……

اجازت دیجئے کہ یہاں اردو زبان کی فلمی شاعری کا بھی کچھ ذکر کرتا چلوں کہ جو میرے لڑکپن کے دور میں مجھے اور میرے ساتھ بہت سے ہم جلیس اور ہم کلاس طلباء میں پائی جاتی تھی۔

1950ء اور 1960ء کے دو عشرے فلمی دنیا کا سنہری دور شمار ہوتے ہیں۔ یہ دور ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کی فلم انڈسٹری کو محیط تھا۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اس دور میں مجھے انڈین فلمیں اور انڈین گیت بمقابلہ پاکستانی فلمیں اور پاکستانی گیت کیوں زیادہ پسند تھے…… اس موضوع پر ایک طویل کالم نہیں بلکہ ایک بسیط آرٹیکل کی ضرورت ہوگی۔

اس دور میں کہ جس کا ذکر کیا جا رہا ہے ہم نے شاید ہی کوئی انڈین یا پاکستانی فلم، بِن دیکھے چھوڑی ہوگی۔گھر والے ہمارے اس شوق سے باخبر تھے اور فلموں کو نفرت کی نگاہ سے نہیں بلکہ مثبت تنقید کی نظر سے دیکھتے تھے۔ والد مرحوم اگرچہ فلم بینی کے شوق میں مبتلا نہیں تھے لیکن فرمایا کرتے تھے کہ فلموں میں ادب، تاریخ، جغرافیہ، مکالمے، داستان گوئی اور افسانہ طرازی وغیرہ کے بے شمار رنگ اور ڈھنگ موجود ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ ہماری فلم بینی کے شوق پر زیادہ اعتراض نہیں کیا کرتے تھے۔ البتہ ساتھ ہی قرآن کریم کی قرات اور نماز کی پابندی بھی بڑی سختی سے کرواتے تھے۔ ان فلموں کو دیکھنے کے لئے ہمیں کن کن بہانوں سے گزرنا پڑتا تھا اس کا قصہ دراز بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ انشاء اللہ پھر کبھی سہی۔ اس دور کی انڈین فلمیں ہمیں کیوں زیادہ پسند تھیں اس کی وجہ یا وجوہات کا بھی ہمیں کچھ اندازہ نہیں۔ البتہ آج اگر ان کا پتہ چلانے کی کوشش کروں تو یہ ایکسرسائز نہائت بارآور ہو سکتی ہے۔

1950ء اور 1960ء کے عشرے بلیک اینڈ وائٹ فلموں کے دور کے سنہری عشرے تھے۔ ہم سکول میں بھی خالی پیریڈ میں اور تفریح کے آدھ گھنٹے میں اپنے ہم جولیوں سے فلموں کے ادبی، لسانی اور مکالماتی نکات پر بحث و تمحیص کیا کرتے تھے۔ ان کی تفصیل تو یاد ہے لیکن اس کالم کی گنجائش اور سکوپ بہت محدود ہے اس لئے اس کو چھوڑتا ہوں۔

انڈیا کے فلمی اداکاروں میں دلیپ کمار، مدھو بالا،شیاما، اشوک کمار، کشور کمار، راجکپور، شمی کپور،وحیدہ رحمان اور نمی وغیرہ ہمیں بہت پسند تھے…… اور فلمی نغمہ نگاروں میں شکیل بدایونی، ساحر لدھیانوی، راجہ مہدی علی خان، حسرت جے پوری، مجروح سلطان پوری، راجندر کرشن اور آنند بخشی وغیرہ یاد ہیں …… اور جہاں تک موسیقاروں کا تعلق ہے تو ان کی فہرست بہت طویل ہے مثلاً نوشاد، شنکر۔ جے کشن،لکشمی کانت۔ پیارے لال، سلیل چودھری، روشن، روی۔ ایس ڈی برمن، حسن لال بھگت رام، اوپی نیئر، غلام محمد، مدن موہن، کلیان جی۔ آنند جی وغیرہ وہ چند نام ہیں جو آج تک یاد ہیں۔ گلوکاروں میں محمد رفیع،لتا، آشا بھونسلے،طلعت محمود، کندن لال سہگل اورپنکج ملک کا طوطی بولتا تھا۔

فلم شروع ہونے سے پہلے اس کے جو ”نمبرز“ (Credits) سکرین پر ابھرتے تھے، ہم ان کو بہت غور سے دیکھا کرتے تھے۔ ایک بات اور بھی تھی کہ اس دور میں فلمی گیتوں کی دھنوں کی نقالی بھی ہمارا ایک ”ناکام شیوہ“ ہوا کرتا تھا۔ آواز تو ہماری اور ہمارے ساتھ دوسرے دوستوں کی بھی بس نہائت ’واجبی‘ سی تھی جسے ہم واش روم میں جا کر ’نکھارنے‘ کی کوشش کیا کرتے تھے لیکن آج محسوس کرتا ہوں کہ یہ عمل ہماری نصابی کتابوں (اردو، عربی، فارسی، تاریخ اور جغرافیہ) کی تحاریر کے حسن و قبح کو جانچنے میں بھی بہت کام آیاکرتا تھا۔ نسیم حجازی، ایم اسلم اور سعادت حسن منٹو وغیرہ اس دور کے مشہور ناول / افسانہ نگار تھے جن کی کتابیں ہم اپنے ’نہایت معمولی‘ جیب خرچ سے خریدتے اور دوستوں کے ساتھ شیئر کیا کرتے تھے…… اگر یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ میٹرک کے امتحان میں ہماری کلاس کے 35طلباء میں سے 30فرسٹ ڈویژن میں کامیاب ہوئے تھے تو کچھ بے جا نہ ہوگا (اپنا ذکر کروں گا اور حاصل کردہ نمبر بتاؤں گا تو یہ ’خودستائی‘ کی ذیل میں آ جائے گا)

مزید :

رائے -کالم -