25منحرف ارکان کی ناہلی سے پنجاب میں نیا بحران پیداہو گیا
تجزیہ:سعید چودھری
الیکشن کمشن نے پی ٹی آئی کے ان 25 منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کردیاہے جنہوں نے وزارت اعلیٰ کے الیکشن میں حمزہ شہبازشریف کو ووٹ دیا،دوسری طرف سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل63(اے)کی تشریح کرتے ہوئے قراردے چکی ہے کہ منحرف ارکان کا ووٹ گنتی میں شامل نہیں کیا جائے گا،اب حمزہ شہباز کے الیکشن کی کیا حیثیت ہوگی اور اب پنجاب کاآئینی،قانونی اور سیاسی منظر نامہ کیا ہوگا؟ڈی سیٹ ہونے والے ارکان میں پی ٹی آئی کے مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے5افراد بھی شامل ہیں،کیا خالی ہونے والی یہ نشستیں لازمی طور پر پی ٹی آئی کی فراہم کردہ فہرست میں سے پر کی جائیں گی یا پھر ضمنی الیکشن کے نتائج کا انتظار کیا جائے گا؟
جو منحرف ارکان نااہل کئے گئے ہیں ان میں علیم خان سمیت ان کے گروپ کے 5،اسد کھوکھر سمیت ان کے گروپ کے 4اورجہانگیر ترین گروپ کے16ارکان شامل ہیں، منحرفین میں مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی 3خواتین اور2اقلیتی ارکان بھی شامل ہیں،پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کا دعویٰ ہے کہ اسمبلی رولز اور آئین کے تحت خالی ہونے والی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کے سوا کسی اور کو نہیں مل سکتیں جبکہ الیکشن کمشن کے ذرائع اور دوسرا نکتہ نظر رکھنے والے آئینی ماہرین کا کہناہے کہ مخصوص نشستوں پر نامزدگیاں اسی صورت میں ہوں گی جب جنرل سیٹ پر منتخب ہونے والے 20ارکان کی خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی الیکشن نہیں ہوجاتا، آئین کے آرٹیکل224کے تحت ضمنی الیکشن60دن کے اندر ہونا ضروری ہے جبکہ اسی آرٹیکل کے تحت یہ طے کردیاگیاہے کہ مخصوص نشست کسی وجہ سے خالی ہوتی ہے تو اسی سیاسی جماعت،جس کے رکن نے نشست خالی کی ہوگی کی جانب سے الیکشن کمشن کو امیدواروں کی پیش کردہ فہرست میں بلحاظ تقدم اگلے شخص کے ذریعے پر کی جائے گی،دوسرے لفظوں میں جس جماعت کی یہ نشست ہو گی دوبارہ اسے ہی ملے گی،مخصوص نشستوں پر نامزدگیاں کسی جماعت کے متعلقہ ایوان میں موجود ارکان کی تعداد کے تناسب سے کیا جاتاہے لیکن اب غیر معمولی صورتحال ہے جس کے تحت پی ٹی آئی کے کل ارکان کی تعداد میں 20نمبروں کی کمی ہوگئی ہے اور ان کی نشستیں مسلم لیگ (ن) سے بھی کم رہ گئی ہیں،ایسی صورت میں ضمنی الیکشن کی تکمیل کے بعد ہی مخصوص نشستیں پر کئے جانے کا امکان ہے تاہم یہ معاملہ بظاہر تشریح طلب ہے اس لئے اس کا اعلیٰ عدلیہ میں جانا بعید از قیاس نہیں۔
اس وقت پارٹی صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی پنجاب اسمبلی میں تعداد 177ہے تاہم ان میں 4منحرف ارکان بھی شامل ہیں جبکہ ایک خاتون بیرون ملک ہونے کے باعث حمزہ شہباز کو ووٹ نہیں دے سکی تھی،ان 5ارکان کو نکال دیاجائے تو حمزہ شہباز کے پاس 172ووٹ ہیں،دوسری طرف پی ٹی آئی کے پاس 158ارکان رہ گئے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ق) کے پاس 10ارکان ہیں اس طرح ان کی تعداد 168بنتی ہے،اس میں ڈپٹی سپیکر دوست مزاری بھی شامل ہیں تاہم وہ اجلاس کی صدارت کرنے کے باعث اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کرسکیں گے،اس طرح پی ٹی آئی اورق لیگ کے پاس 167ارکان ہیں اگر 5مخصوص نشستوں پر بھی فوری تعیناتیاں ہوجاتی ہیں تو ان کے پاس ارکان کی تعداد بھی 172ہو جاتی ہے،
یہ بڑی دلچسپ صورتحال ہے،حمزہ شہباز کے الیکشن میں چودھری نثار خان نے اپنا ووٹ استعمال نہیں کیا تھا اب ان کے ووٹ کی حیثیت کاسٹنگ ووٹ جیسی ہوجائے گی تاہم الیکشن کمشن اگر 5مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو نہیں دیتا تو پھر وہ گنتی کی دوڑ میں ن لیگ اور اس کے اتحادیوں سے 5ووٹ پیچھے ہوں گے۔
اب یہ دلچسپ مرحلہ ہے کہ منحرف ارکان کے ووٹ شمار ہوں گے یانہیں،اس بابت آئین کا آرٹیکل12کہتا ہے کہ کسی قانون کا ماضی سے اطلاق نہیں ہوسکتا،یہی سوال پرویزالہٰی کی حمزہ شہباز کے خلاف درخواست پر چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نے اٹھایا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق کب سے ہوگا؟کیا ماضی میں ہونے والے اقدامات بھی کالعدم کئے جاسکتے ہیں،اگر منحرف ارکان کے ووٹ شمار ہوجاتے ہیں تو حمزہ شہباز کے الیکشن پر کوئی فرق نہیں پڑے گا تاہم اس معاملے کی تشریح اعلیٰ عدلیہ نے ہی کرنی ہے،اگر ووٹ شمار نہیں ہوتے تو پھر حمزہ شہباز کا بطور وزیراعلیٰ الیکشن کالعدم ہوجائے گا کیونکہ ان کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد پنجاب اسمبلی کے کل ارکان کی سادہ اکثریت یعنی 186سے کم رہ جائے گی، ایسی صورت میں دوبارہ ووٹنگ ہوگی اور حاضر ارکان کی سادہ اکثریت سے دونوں امیدواروں میں سے ایک شخص منتخب قرارپائے گا،آئین کے تحت اگر پہلے مرحلہ میں کوئی امیدوار کل ارکان کی سادہ اکثریت سے برتری حاصل نہیں کرپاتا تو پھر دوبارہ ووٹنگ ہوگی اور ایوان میں موجود ارکان کی تعداد کی اکثریت جسے منتخب کرے گی وہ وزیراعلیٰ تصور کیا جائے گا۔
الیکشن کمشن کی طرف سے مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کے امیدواروں کی تقرریوں کا امکان اس لئے بھی کم ہے کہ ابھی ڈی سیٹ ہونے والے منحرف ارکان کے پاس اپیل کا حق موجود ہے،وہ30دن کے اندر اندر سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں اور سپریم کورٹ 90دن کے اندر اس معاملے کا فیصلہ کرے گی،اس طرح مزید وقت لگ سکتاہے،متمدن جمہوری معاشروں میں ایسی صورتحال کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن پنجاب میں اس لئے یہ بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی ہے کہ یہاں بہت سارے معاملات میں آئینی تقاضوں کو اہم شخصیات کی طرف سے نظر اندازکیا جارہاہے،اگر صدر عارف علوی وزیراعظم میاں شہباز شریف کی ایڈوائس پر نئے گورنر پنجاب کا تقررکردیتے یا پھر سپیکر صوبائی اسمبلی چودھری پرویزالہٰی قائم مقام گورنر کے طور پر کام کررہے ہوتے اورآئین کے تحت کام جاری ہوتا تو اس معاملے کو آئین کے تقاضوں کے مطابق حل کیا جاتا آسان ہوتا۔
سعید چودھری