صرف تین روزرہ گئے، انجام گلستان نظر آئے گا؟
عمررسیدہ حضرات کا یہ المیہ ہے کہ وہ زیادہ تر ماضی میں رہتے ہیں اور زمانہ حال کا موازنہ اپنے اس دور سے کرتے رہتے ہیں، ماضی اسی لئے اچھا ہوتا ہے کہ ہم جیسے لوگ اس سے گزر کر آئے ہوتے ہیں۔ اس لئے اچھائی اور برائی کی تمیز روا رکھتے ہیں، سیاسی رپورٹنگ میں زندگی گزاری، ہم نے وہ دور بھی دیکھا جس میں الیکٹرونک میڈیا نہیں تھا اور پرنٹ میڈیا کی بہت اہمیت تھی اور ویسے بھی تب رپورٹنگ اتنی آسان نہیں تھی کہ کیمرے کے سامنے آکر سیاسی رہنما سوالات کا جواب دینا فریضہ جانتے ہیں کہ خبر کے ساتھ تصویر بھی بولتی ہے۔ میں اور میرے کئی دوسرے دوست نوابزادہ نصراللہ خان (مرحوم) کا ذکر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ وہ ایسے دور کے سیاست دان تھے جس میں احترام باہم کا پورا پورا خیال رکھا جاتا تھا، یہی وجہ ہے کہ نوابزادہ نصراللہ آگ اور پانی کو جمع کرنے میں یدطولیٰ رکھتے تھے،اس دور کی سیاست میں بھی اندر کی کہانی تلاش کی جاتی تھی بلکہ یہ تلاش کچھ زیادہ ہی ہوتی۔ اکثر اوقات اپنے تجربے کو کام میں لاتے ہوئے معمولی سی اطلاع سے ایک خبر بنالی جاتی تھی، اس دور کی سیاست میں رازداری کی بھی بڑی اہمیت تھی اور ہم اس میں سے ہی خبر نکالتے تھے، تاہم اکثر اوقات ہمارا خیال غلط ہوتا اور کئی بار تُکا لگ جاتا تھا، لیکن وہ دور تصدیق تھا۔
مجھے یاد ہے کہ 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے خلاف تحریک کا سلسلہ چلا۔مختلف سیاسی جماعتوں کے آپس میں رابطے ہو رہے تھے، اس دور میں پیر علی مردان شاہ پیرپگارو اپنے ایک اتحاد کے سربراہ تھے۔ وہ فقرے چست کرنے میں ماہر تھے اور اکثر اوقات ان کی ذومعنی باتوں میں سے خبر بھی نکل آتی۔ نوابزادہ نصراللہ خان ان دنوں حکومت مخالف اتحاد بنانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ ہم سب دوستوں کو اختلاف والی خبریں تو مل جاتیں اور ان سے اتحاد ہونا دور کی بات تھی۔ ایسے میں ایک روز جمعیت علماء پاکستان کے سیکرٹری جنرل رفیق احمد باجوہ ایڈووکیٹ کے گھر پر لیڈران کرام کے اعزاز میں ڈنر تھا، میں خود ان دنوں شادباغ میں رہتا تھا اور رفیق باجوہ کا گھر میرے گھر سے تھوڑے فاصلے پر تھا، تب موبائل فون کی سہولت نہیں تھی،لینڈلائن ہی ذریعہ تھا، معتبر دوستوں نے سوچا کہ ڈنر ہے خبر تو ہو گی نہیں،لہٰذا اکثر ساتھیوں نے میری ذمہ داری لگا دی کہ میں ڈنر میں شریک ہو جاؤں، وہ سب بعد میں مجھ سے پوچھ لیں۔ میں باجوہ صاحب کے گھر پر جاری میٹنگ ختم ہونے کا منتظر تھا۔کھانا شروع ہونے سے پہلے یہ میٹنگ ختم ہوئی تو نوابزادہ نصراللہ نے وہاں موجود چند دوستوں سے بات کی اور اتحاد کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ نو جماعتوں نے متفقہ طور پر ایک اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کا نام پاکستان قومی اتحاد (پاکستان نیشنل الائنس +پی این اے) ہوگا، یہ دھماکہ تھا، میں نے کھانا چھوڑا اور بھاگ کر گھر آ گیا اور اپنے اخبار کو خبر لکھوائی اس کے بعد دیگر دوستوں کے فون آتے اور میں ان کو نوابزادہ کی گفتگو سے آگاہ کر دیتا، یوں اتحاد کے قیام کا فیصلہ اچانک سامنے آیا لیکن حقیقت یہ نہیں تھی۔ میں نے ایک نشست میں نوابزادہ نصراللہ سے پوچھا کہ آپ حضرات کے اتنے اختلافات تھے کہ اتحاد کی توقع نہیں تھی۔ پھر یہ معجزہ کیسے ہو گیا، انہوں نے نیم مسکراہٹ کے ساتھ حقے کا کش لگایا اور انکشاف کیا کہ ان کا طریقہ کار مختلف ہے وہ ایک ایک جماعت والوں سے الگ الگ ملتے ہیں اور پریس سے بات کرنے سے قبل ان ملاقاتوں میں فیصلے کرلیتے ہیں اور پھر پریس کانفرنس میں اعلان ہوتا ہے، نوابزادہ نصراللہ باباء اتحاد ویسے ہی تو نہیں کہلائے یہ ان کی خوبی تھی کہ وہ آگ اور پانی کو یکجا کر دیتے تھے انہوں نے ایک اتحاد میں پیپلزپارٹی اور ایئرمارشل اصغر خان کی جماعت کو اکٹھا کر دیا تھا حالانکہ بھٹو مخالف تحریک کے دوران ایئر مارشل بڑے سخت موقف کے حامل تھے اور بھٹو کو کوہالہ پل پر پھانسی دینے کا اعلان کرتے رہے تھے۔ اس کے بعد ایئر مارشل ضیاء رجیم مخالف اتحادوں میں شریک رہے۔ پاکستان قومی اتحاد کی بات شروع ہوئی ہے۔ ایک واقع عرض کردوں، رفیق احمدباجوہ کے گھر پر اتحاد کے اعلان کے بعد اجلاس مسلم لیگ ہاؤس میں ہوتے تھے۔ ہر طرف سے یہ اطلاع تھی کہ اتحاد کی سربراہی پیر علی مردان شاہ کو ملے گی، لیکن ایسا نہ ہوا اور سب خبریں غلط ثابت ہو گئیں جس روز عہدوں کا فیصلہ ہوا اس روز پیرپگارو اجلاس کی صدارت کر رہے تھے اور ان کی صدارت کا اعلان ہونے والا تھا، اچانک پیرصاحب اٹھے اور معذرت کرکے باہر نکلے اور سیدھے ریس کورس چلے گئے جہاں ڈربی ریس میں ان کا گھوڑا بھی دوڑ رہا تھا۔ ان کی عدم موجودگی شاق گزری اور اسے غیر ذمہ دارانہ فعل قرار دیا گیا چنانچہ باہمی طور پر فیصلہ ہوا کہ صدر حضرت مولانا مفتی محمود ہوں گے اور سیکرٹری پروفیسر غفور احمد، لیکن مولانا شاہ احمد نورانی ڈٹ گئے اور سیکرٹری کے لئے رفیق احمد باجوہ کو متعین کرالیا، یہ الگ بات ہے کہ بعدازاں رفیق باجوہ بھٹو سے ملاقات کے حوالے سے معتوب ٹھہرے اور یہ عہدہ پروفیسرغفور ہی کو مل گیا۔ اس بات کا ذکر میں اپنے کالموں میں کر چکا ہوا ہوں، بہرحال عرض کرنا تھا کہ تب رازداری بھی برقرار رہتی اور اخلاقی معیاربھی بلند تھا، نوابزادہ نصراللہ خان نے خود پر شدید تنقید کے باوجود جنرل ضیاء الحق کا نام کبھی بے ادبی سے نہیں لیا اور ضیاء صاحب کہہ کر بات کرتے تھے، اسی طرح مولانا شاہ احمد نورانی بھی صاحب ہی کے لاحقہ سے بات کیا کرتے تھے۔
آج کے دور کی بات کریں تو صورت حال بالکل مختلف ہے، اندر کی باتیں خبر بنتی ہیں لیکن لیڈرحضرات کی اپنی باڈی لینگویج کچھ اور اظہار کرتی ہے جہاں تک وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور کا تعلق ہے تو ان کی آنیاں جانیاں کا ذکر تو سینیٹر فیصل واؤڈا کرتے رہتے ہیں اس لئے ان کی مانگ بھی ہے اور ان سے خبر بھی مل جاتی ہے اس ساری کوشش کا مطلب ہے کہ بالواسطہ رابطے تو تھے ہی۔ اب بات کسی کنارے لگنے والی تھی تو کسی محترم نے خبر بھی لیک کر دی ہے اور اب ہر صحافی اس فکر میں مبتلا ہے کہ بیرسٹر گوہر خان اورعلی امین گنڈا پور کیا کرتے ہیں، آثار تو یہی ہیں کہ معاملہ اسی تنخواہ پر کام کرنے والا ہوگا کہ مطالبات ایسے ہیں جو منظور کرلئے جائیں تو تمام انتظام دھڑام سے نیچے گر جائے گا اس لئے زیادہ توقعات وابستہ کرنا بھی درست نہیں، جہاں تک مقتدر ہستی اور صاحبان سے مذاکرات کا تعلق ہے تو یہ ورق کب سے پھٹ چکا، بات چیت بالواسطہ ہوگی، معاملات طے پائے تو مقتدر طبقوں سے منظوری حاصل کرنا ہوگی اس لئے 24نومبر کے بارے خود فیصلہ کرلیں۔