مریم سے کہا ہے کہ پنجاب حکومت پی آئی اے کو خرید لے،نواز شریف
سابق وزیرِ اعظم اور ن لیگ کے صدر میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ”میں نے مریم سے کہا ہے کہ پنجاب حکومت پی آئی اے کو خرید لے“ اور اگر پنجاب حکومت نہیں خرید سکتی تو مجھے بتائے میں خود خرید لوں گا کیونکہ منافع دینے والی کسی چیز کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے لیکن چونکہ یہ گھاٹے میں جانے کی عادی ہو چکی ہے اِس لیے اگر وہ گھاٹے میں چلی گئی تو سارا گھاٹا حکومت کے کھاتے میں ڈال دیا جائے گا اول تو اِس کے گھاٹے میں جانے کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ سب اہلِ وطن کے لیے پی آئی اے سے سفر کرنا لازمی قراردے دیا جائے گا اور ملک کے ہر امیر غریب کے لیے ضروری قرار دیا جائے گاکہ وہ زندگی میں کم از کم ایک بار ضرور پی آئی اے کے ذریعے سفر کریں جبکہ ٹکٹ خریدنے کے لیے اُسے قرض بھی دیا جا سکتا ہے جس کی وصولی آسان قسطوں میں کی جا سکتی ہے اِ س طرح پی آئی اے کا گھاٹے میں جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوگا اور یہ سراسر منافع میں جائے گی جبکہ میں نے بھی آج تک گھاٹے کا سود ا کبھی نہیں کیا اور اگر کبھی گھاٹا پڑا بھی ہے تو اُسے کسی او ر کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے اِس لئے پی آئی اے کی خریداری میں سست رفتار ی میں ہر گز کام نہیں لیا جا سکتا کیونکہ یہ سراسر منافع کا سودا ہے آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
حکومت سے جان چُھڑانے کے لیے فائنل راؤنڈ کی تیار ی کر رہے ہیں۔گنڈا پُور
وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈ اپور نے کہا ہے کہ ”حکومت سے جان چھڑانے کے لیے فائنل راؤنڈ کی تیاری کر رہے ہیں“جس سے یا تو حکومت چلی جائے گی یا ہم چلے جائیں گے کیونکہ دونوں میں سے ایک نے تو جانا ہی جانا ہے اور ہم ایک ساتھ نہیں چل سکتے اور دونوں کی ایک دوسرے سے جان چھڑانا بے حد ضروری ہو چکا ہے کیونکہ اب تو ہمارا سامان بھی چور ی ہونا شروع ہو گیا ہے اور جس کا مطلب بھی اُس کے سوائے اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ ہمارے ہی آخری دن قریب ہیں اور اِس راؤنڈ کے بعد ہماری جان خلاصی ہو جائے گی کیونکہ آخری راؤنڈ آخری راؤنڈ ہی ہوتا ہے جس کے بعد ویسے بھی کوئی سکت ہی باقی نہیں رہتی کیونکہ آخری کے بعد کوئی اگلا راؤنڈ ہوتا ہی نہیں جسے کھیلا جا سکے اِس کامیابی پر حکومت کو پیشگی مبارکباد بھی پیش کرتاہوں اور یہ ہماری شکست بھی ایک طرح سے ہماری فتح ہی ہو گی کیونکہ اِس طرح روز روز کی یہ دانتا کِل کِل ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی اور مکمل طور پر امن و امان ہو جائے گا کیونکہ اگر اِس طرح مکمل اور مستقل امن وامان حاصل کیا جاسکے تو اِس سے بڑی کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے اور جس کے لیے ہم اپنے آپ کو مبارکباد کا بھی مستحق سمجھتے ہیں آپ اگلے روز پشاور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
حق اور سچ بولنے والے صحافیوں پر ظلم و تشدد بند ہونا چاہیے۔مریم نواز
وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نوا ز نے کہا ہے کہ ”حق اور سچ کی آواز بلند کرنے والے صحافیوں پر ظلم و تشدد بند ہونا چاہیے“۔اور حق اور سچ کی آواز بلند کرنے والے صحافی وہی ہیں جو ہماری پالیسیوں کی تائید اور ہمارے کام کی تعریف کرتے ہیں جبکہ ہم پر تنقید کرنے والے اور ہمیں بُرا بھلا کہنے والے صحافی وہ ہیں جو حق و صداقت کی آواز کر بلند کرنے کی بجائے دباتے ہیں اور ہمارے کاموں میں کیڑے ڈالتے رہتے ہیں اِس لیے اُن پر ہر طرح کا ظلم و تشدد ہونا چاہیے تاکہ اُن کا دماغ درست ہو سکے اور وہ حق اور سچ کی آواز بلند کرنا شروع کردیں کیونکہ سیدھی اُنگلیوں سے گھی کبھی نہیں نکلتا اور نہ ہی سیدھی طرح سے اِن صحافیوں کو سیدھا کیا جا سکتا ہے اِس لیے انہیں سیدھا کرنے کے لیے اِن کی کھچائی بہت ضروری ہے کیونکہ کسی چیز کو کھینچ کر ہی سیدھا کیا جا سکتا ہے جبکہ قومی خدمت ہی ہمارا مطمہئ نظر ہے اور اگر ہم دیگر ہر طرح کی قومی خدمات سرانجام د ے رہے ہیں تو اِن ٹیڑھے صحافیوں کو سیدھا کیوں نہیں کیا جا سکتا ورنہ ہمارا نام تاریخ کے صفحات پر سنہری حروف میں نہیں لکھا جائے گا اور ہماری ساری کوششیں بُری طرح سے رائیگاں چلی جائیں گی آپ اگلے روز صحافیوں پر جرائم کے عالمی دن کے موقع پر لاہو ر سے ایک بیان جار ی کر رہی تھیں۔
عقل مند چوہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوہے نے بل میں سے سر نکالا تو بلی بھی تیار بیٹھی تھی۔چوہے کو پانچ روپے کا کڑکنا نوٹ دکھاتے ہوئے بولی،
”اِس بِل سے نکل کر اُس بِل میں گُھس جاؤ تو یہ نوٹ تمہارا ہو گا“چوہے نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر بولا،
”فاصلہ تھوڑا ہے اور پیسے زیادہ ہیں اِس لیے معاملہ کچھ گڑبڑ نظر آتا ہے لہٰذامیری طرف سے معذرت“
اور اب آخر میں جواد شیخ کی یہ غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ غم تو ہے سو ہے کہ غریب الدیار ہوں
لیکن جہاں جہا ں ہوں میں دیوانہ وار ہوں
اُس کی تلاش ہے تو مجھے دیکھ لیجئے
میں اُس کی آزمائشوں کا اشتہار ہوں
زنجیر ہوں تواُلجھی ہوئی اپنے آپ سے
میں تیر ہوں تو اپنے ہی سینے کے پار ہوں
میں خار تھا تو اپنے ہی اندر گڑاہُوا
آزار تھا تو آج تلک برقرارہوں
غم کے لیے کچھ اور،خوشی کے لیے کچھ اور
جائے پناہ ہوں کہیں جائے فرار ہوں
یعنی عروج ہی میں نیہاں ہیں مرا زوال
پہلے میں دل گُداز تھا اب دل فگار ہوں
قائم رہیں وہ جن کی بدولت ہے یہ مدار
دائم رہیں وہ جن کامیں دارومدار ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کا مقطع
ہوں اُس کا سب سے زیادہ نیاز مند،ظفر
جو شہر میں مرا سب سے بڑا مخالف ہے