مصر ترکوں کے زیر اثر بھی رہا, بہت سارے ترک باشندے ہجرت کرکے یہیں آباد ہوگئے اور اپنے ساتھ خوبصورت دلکش آنکھیں لانا نہیں بھولے

 مصر ترکوں کے زیر اثر بھی رہا, بہت سارے ترک باشندے ہجرت کرکے یہیں آباد ہوگئے ...
 مصر ترکوں کے زیر اثر بھی رہا, بہت سارے ترک باشندے ہجرت کرکے یہیں آباد ہوگئے اور اپنے ساتھ خوبصورت دلکش آنکھیں لانا نہیں بھولے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:37
 بالائی مصر میں اسوان کے مقام پر مشہور زمانہ اسوان ڈیم بنا کر دریائے نیل کے پانی کو روک دیا گیا ہے اور وہاں سے حسب ضرورت پانی نشیبی مصر میں چھوڑا جاتا ہے۔ اسوان سے تھوڑا اوپر ابو سمبل نامی چھوٹا سا قصبہ ہے جو بند کے نتیجے میں بننے والی اسوان جھیل کے کنارے پر واقع ہے۔ یہاں چھوٹا سا ہوائی اڈہ ہے۔ سیاحوں کی آمدورفت بہت زیادہ ہے۔ یہاں وہ بڑے بڑے معبد اور فرعونوں کے مجسمے لا کر رکھے گئے ہیں جو جھیل بن جانے کی وجہ سے لازمی طور پر پانی میں غرق ہو جانے والے تھے۔ ان کا ذکر آگے چل کر آئے گا۔
اس جھیل کے ساتھ ساتھ مزید اوپربڑھتے جائیں تو آبادی کے لحاظ سے افریقہ کا ایک بڑا اسلامی ملک سوڈان آجاتا ہے، جس کی سرحدی بندرگاہ وادی حلفہ اسی دریا پرواقع ہے۔  دریائے نیل اسی مقام سے مصر میں یہی داخل ہوتاہے۔ 
مصر کو اگر شمالاً جنوباً دیکھا جائے تو یہ کوئی ایک ہزار کلومیٹر طویل ہے اور اسی طرح شرقاً غرباً یہ فاصلہ تقریباً 1200 کلومیٹر بنتا ہے۔ مغرب میں اس کی سرحدیں طویل صحرائی سفرکے بعدایک دوسرے اسلامی ملک لیبیا سے جا ملتی ہیں،جب کہ مشرقی سمت یہ صحرا ئے سیناء، شرم الشیخ اور نہر سویز سے ہوتا ہوا اسرائیل اوربحیرہ احمر کی طرف جا نکلتا ہے۔ مشرقی صحرا ء مصر کے باقی وسیع و عریض مغربی ریگستان سے تھوڑا مختلف ہے کہ اس میں ریت کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر چھوٹے بڑے پہاڑی سلسلے بھی پھیلے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف نشیبی مصر کا ذکر کریں تو وہاں دریائے نیل قاہرہ کے پاس سے گزرتا ہوا آگے شمال کی طرف بہہ جاتا ہے اور پھر ایک ڈیلٹا بنا کر اسکندریہ کے پاس بحیرہ روم میں جا گرتا ہے اور یوں دنیا کے اس طویل ترین دریا کا سفر تمام ہوتا ہے۔
قدیم مصر میں نشیبی مصر کا دارالخلافہ میمفس تھا جو آج کل کے قاہرہ کے مضافات میں ہے، جس کا ذکر ابھی کچھ دیر پہلے ہی ہوا ہے۔
اسی طرح یہاں کے باشندے بھی اپنے قد کاٹھ، رنگت اورحلیے سے پہچانے جاسکتے ہیں۔ بالائی مصر کے باشندے اپنے باقی سوڈانی اور افریقی ہمسائیوں کی طرح قدرے سیاہ فام ہوتے ہیں۔ ان کے متناسب جسم، بڑے ہونٹ اور گھنگھریالے بال انہیں اپنے ہم وطن نشیبی علاقے میں رہنے والے مصریوں سے منفرد کرتے ہیں۔ اس طرح ان کے فرعون اور نیوبن حکمران بھی قدرے گہری رنگت لئے ہوئے ہوتے تھے۔ نشیبی مصر کے لوگ زیادہ تر سرخی مائل صاف ستھری رنگت کے ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھیں خوبصورت اور بڑی بڑی ہوتی ہیں۔ قد میں یہ لمبے تڑنگے اور قدرے فربہی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ چونکہ مصر کے نشیبی علاقے یورپ خصوصاً مالٹا وغیرہ سے قریب پڑتے ہیں اس لئے یورپ کا ہلکا پھلکا اثر ان کی صحت، رنگت اور شکل و صورت میں بھی نظر آتا ہے۔
کسی زمانے میں مصر ترکوں کے زیر اثر بھی رہا جس کی وجہ سے بہت سارے ترک باشندے بھی ہجرت کرکے یہیں آباد ہوگئے اور آتے ہوئے وہ اپنے ساتھ اپنی خوبصورتی، صاف ستھری یورپی رنگت اور دلکش آنکھیں لانا نہیں بھولے تھے۔ ان کا یہاں کی مقامی آبادی پر بڑا اثر و رسوخ بھی تھا۔ ان کے خاندان اور آئندہ آنے والی نسلیں ابھی تک اپنے ناموں کے ساتھ پاشا، سلطان، حکیم یا خان وغیرہ لکھتے ہیں۔
 میرا خیال ہے کہ تاریخ اور جغرافیہ توبہت ہوگیا، اب میں اپنے خیا لوں کو سمیٹ کر اپنی بینچ پر واپس آ جاتا ہوں۔ شب ڈھل گئی تھی اور چاند بھی دور نیچے دریائے نیل کے گہرے پانیوں میں اتر گیا تھا ہر طرف سرگرمیاں آہستہ آہستہ کچھ ماند پڑ گئی تھیں تاہم دریا کے وسط میں تیرتے پھرتے بحری جہازوں سے موسیقی اور تماشائیوں کے شور و غل کی ہلکی ہلکی آوازیں ابھی تک ایک تواتر سے آ رہی تھیں۔ میں بھی ہوٹل واپس جانے کے ارادے سے وہاں سے اٹھ آیا۔(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

ادب وثقافت -