بچے اپنے آ پ کو خوبصورت اور اہم سمجھتے ہیں، پھر معاشرہ سحرانگیزی میں جکڑ لیتا ہے، انہیں اپنی ذات شکوک و شبہات میں ڈوبی نظر آتی ہے

بچے اپنے آ پ کو خوبصورت اور اہم سمجھتے ہیں، پھر معاشرہ سحرانگیزی میں جکڑ لیتا ...
بچے اپنے آ پ کو خوبصورت اور اہم سمجھتے ہیں، پھر معاشرہ سحرانگیزی میں جکڑ لیتا ہے، انہیں اپنی ذات شکوک و شبہات میں ڈوبی نظر آتی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر 
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:24
پہلی محبت
”اپنی ذات کی اہمیت وقدر کی تصدیق دوسرے نہیں بلکہ آپ ہی کر سکتے ہیں کیونکہ آپ کا خیال اور یقین ہی قابل قدر اور اہم ہے۔ اگر آپ اپنی ذات کی قدر اور اہمیت کا تعین دوسروں سے کروانا چاہیں گے تو پھر ان کی ذات اہم اور قابل قدر ہوگی۔“
ممکن ہے کہ آپ کو ایک ایسا معاشرتی اور سماجی مرض لاحق ہو جس کا محض ایک سادہ ٹیکے سے علاج ممکن نہ ہو۔ اس امر کا بہت زیادہ امکان ہے کہ آپ احساس کمتری کا شکار ہو جائیں، اپنی ذات کے لیے نفرت کا اظہار کریں جس کا علاج صرف یہ ہے کہ آپ اپنی ذات کے لیے انتہائی محبت پرمبنی رویہ اور طرزعمل اپنائیں لیکن شاید ہمارے معاشرے کے اکثر لوگوں کے مانند آپ کو بچپن ہی سے یہ سکھایا اور پڑھایا گیا ہے کہ حُبِ ذات پر مبنی آپ کا رویہ اور طرزعمل صحیح نہیں ہے۔ اکثر افراد یہ امر فراموش کر دیتے ہیں کہ انہیں اپنی ذات سے محبت اورپیار کرنا چاہیے۔ مزیدبرآں اگر آپ ”موجود لمحے“ سے خوشی اور مسرت کشید کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو لازمی طور پر چاہیے کہ آپ حُب ذات پر مبنی رویہ اور طرزعمل اپنائیں۔
آپ کو اپنے بچپن میں یہ سکھایااورپڑھایا گیا تھا کہ اپنے آپ سے محبت کرنے کا عمل جو ایک فطری رجحان ہے، آپ کی طرف سے خودغرضی اور تکبر کی علامت ہے۔ آپ نے اپنے بچپن میں یہ بھی سیکھا کہ آپ دوسروں کو اپنے آگے اور خود کو پیچھے رکھیں کیونکہ انہوں نے خو دکو آپ کے لیے ایک اچھا شخص ثابت کیا۔ آپ نے یہ بھی سیکھا کہ اپنی ذات کی نفی کی جائے اورآپ میں اس طرح کی عادات پختہ کی گئیں مثلاً اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ مل جل کر اپنی چیزیں استعمال کرو۔“ اس امر کی چنداں اہمیت نہیں کہ وہ آپ کے خزانچی تھے، آپ کے انعامات کو انہوں نے سنبھال کر رکھا ہوا تھا، ممکن ہے کہ آپ کے والدین بچپن میں اپنے کھلونوں سے دوسروں کو کھیلنے نہ دیتے ہوں۔ ممکن ہے کہ آپ کو بچپن سے سکھایا اور پڑھایا گیا ہو کہ ”آپ کو صرف دیکھا جا سکتا ہے، آپ کی کوئی بات سنی نہیں جا سکتی“ اور ”آپ کو اپنی اوقات اور مقام یاد رکھنا چاہیے۔“
فطری اور قدرتی طور پر بچے اپنے آ پ کو خوبصورت اور نہایت اہم سمجھتے ہیں لیکن جب بالغ ہوتے ہیں تو پھر معاشرے کا پیغام انہیں اپنی سحرانگیزی میں جکڑ لیتا ہے۔ انہیں اپنی ذات شکوک و شبہات میں ڈوبی نظر آتی ہے اور عمر گزرنے کے ساتھ یہ شکوک و شبہات مزید تقویت پکڑتے جاتے ہیں۔ آپ کے دل و دماغ میں یہ نظریہ جڑ پکڑ لیتا ہے کہ دوسرے آپ کے بارے جو کچھ مرضی خیال کریں آپ اپنی ذات کو اپنی محبت، چاہت اور پیار کا مرکز نہیں بنا سکتے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -