ہمارے پیارے نانا ابو
مولانا میاں محمد شوکت ہمارے نانا ابو تھے اور ہمارے نانا ابو ہم سے بے حد پیار کرتے تھے اور ہم سب بچوں میں گھر مل جاتے ہم بچوں کو پیار کے ساتھ قصے سناتے اور سنتا کشتی کھیلتے بہت سی پیاری باتیں بتاتے اور ہم سے پیار بھی خوب کرتے اور ہم سے مراد ہم نہیں پورے خاندان کے چھوٹے بچے جی ہاں ہمارے نانا جناب میاں محمد شوکت پورے خاندان بھر کے بچوں سے پیار کرتے تھے اور ہم بھی انہی بچوں میں سے ایک ہیں ہم نانا ابو نانی امی دادا ابو دادی اماں سب کے لاڈلے تھے ہیں اور رہینگے ہمیں یاد ہے کہ جب ہمارے والد صاحب ہماری کسی غلطی پہ ہمیں ڈانٹنے کی کوشش کرتے تو ہماری دادی جمشیدہ بیگم ہمارے والد صاحب سے لڑائی کرتی کے فیصل میرا پت ہے کچھ نا آنکھیں بالکل ویسے ہی میں اپنے نانا ابو میاں محمد شوکت اور نانی سلامت بیگم کا لاڈلا نواسہ تھا اور یہ بھی یاد ہے کہ میرے والد صاحب ہمیں چھٹیوں میں ہمیں حیدرآباد بھیجتے تھے اور ہم ٹرین میں بیٹھ کے حیدرآباد جاتے اور سفر کے مزے اٹھاتے اور بتلا دیں کے حیدرآباد ہمارا پہلا گھر جہاں آنکھ کھولی بچپن لطیف آباد سات نمبر میں گزرا اور حیدر آباد میں ہمارے نانا کا گھر تھا ہماری پیدائش بھی حیدرآباد کی ہے لطیف آباد سات نمبر میں بچپن گزرا اور جیسا کہ پہلے بتایا کہ ہم بچپن سے ہی خاندان کے لاڈلے ہیں اور بڑے شامی صاحب کے تو ایسے لاڈلے ہیں کہ کسی کی سوچ ہو گی چار بھائی ہیں لیکن جو شامی صاحب کے دل میں میری یعنی فیصل شامی کے لئے جگہ ہے وہ شائد ہی کسی کے لئے کہو شائد اس لئے کہ میں اپنی اماں جان یعنی دادی اماں کا لاڈلا تھا اور دادی اماں جو تھی ہماری وہ ہمارے والد صاحب کو بھی ہمارے لئے ڈانٹ دیتی تھی اور بڑے شامی صاحب کو کہتی تھی فیصل میرا پت ہے اینوں کچھ نا آنکھیں اور ویسے تو میں اپنی نانی اور نانا ابو میاں محمد شوکت صاحب کا بھی لاڈلا ٹھرا میاں محمد شوکت مرحوم حیدرآباد سے جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے لیکن ایسے رکن تھے جن کو ایم کیو ایم کے کارکنان نے کبھی اسمبلی میں جانے نہیں دیا ہمارے سامنے ہی ایم کیو ایم کے کارکنان نے ہمارے نانا ابو کا دفتر توڑ دیا گیراج توڑ دیا۔ جہاں ہمارے نانا ابو۔ گاڑی کھڑی کیا کرتے تھے اور ہم نے یہ مناظر بچپن میں اہنی آنکھوں سے دیکھے اور ایم کیو ایم کے کارکنوں کو دکانداروں سے چندہ لیتے ہوئے بھی دیکھا اسوقت فی دکان دار دس سے بیس روپے پرچی ہوتی تھی اور دس سے بیس روپے بہت بڑی بات تھی اور ہمیں یاد ہے کہ ہم پانچ روپے کی گرما گرم جلیبی لیتے تھے تو پورے گھر والے بھی چکھ لیتے ویسے یہ بتادیں کہ گرما گرم جلیبی ہمیں بہت پسند ہے اور یہ بھی یاد ہے کہ بچپن میں شام کے وقت جب محلے میں جلیبی کی دکان کھلتی تو سب سے پہلا گاہک ہم ہی بنتے اور یاد ہے کہ محلے میں ایک قلفی والے انکل آتے تھے اور زندگی گزر گئی لیکن آج تک ایسی قلفی نا ملی جو بچپن میں کھاتے تھے اور یہ بھی یاد ہے شام کو حیدرآباد میں ہماری گلی میں پاپڑی والا بھی آتا اور لطیف آباد سات نمبر مارکیٹ میں پانچ سے دس روپے میں نان کباب آ جاتے تھے جو ہم ضد کر کے نانا ابو سے کبھی اپنی والدہ سے ضد کر کے پیسے لیتے تھے اور ذکر ہو رہا ہے ہمارے نانا جناب میاں محمد شوکت صاحب کا تو انکے بارے میں بتائیں کہ وہ امیر جماعت اسلامی رہے اور اللہ پاک کی مقدس کتاب قرآن مجید کا بے شمار زبانوں میں ترجمہ کیا انتہائی شریف النفس انسان تھے لطیف آباد سات نمبر میں ہی جماعت اسلامی کا پریس تھا جسکے منتظم ہمارے پیارے نانا ابو تھے اور ہم بھی بچپن میں نانا ابو کے پریس جاتے تھے تو سب خوشی سے کہتے کہ میاں صاحب کے نواسے۔ آ گئے تو ہمیں بھی بے حد خوشی ہوتی اور یہ بھی بتا دیں کہ ہمارے پیارے نانا ابو میاں محمد شوکت آخری ایام میں لاہور میں ہمارے گھر ہی قیام پزیر رہے اور ہمارے نانا ابو بچوں سے بہت پیار کرتے تھے اور آج ہم بھی سب بچے بڑے ہونے کے باوجود بھی اپنے نانا انو سے بے حد پیار کرتے ہیں اور انکی بلندی درجات کے لئے دعائیں کرتے ہیں کہ اللہ پاک انھیں جنت ال فردوس میں جگہ عطاء فرمائے آمین ثم آمین