دوسری شادی کے لئے کیاپہلی بیوی کی اجازت ضروری ہے۔۔۔؟ (1)

یکم نومبر کو ایک افسوسناک خبر آئی کہ پاکستان میں لاہور کی ایک مقامی عدالت نے بیوی سے اجازت لئے بغیر دوسری شادی کرنے والے شخص کو 6 ماہ قید اور 2 لاکھ جرمانہ کی سزا سنائی ہے ۔ اس سے پہلے بھی ایسے چند کیسز میں شوہر کو دوسری شادی پر کم و بیش ایسی سزائیں دی جا چکی ہیں۔ شرعی طور پر پہلی بیوی سے اجازت کے بغیر شادی کرنے پر سزا کا قانون ہی سرے سے غلط ہے۔ اسلام میں شوہر کے لئے کہیں بھی دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی سے اجازت لینا لازمی نہیں ہے۔ افسوس در افسوس یہ ہے کہ جاوید غامدی بھی اپنے گمراہ کن فتووں کے ساتھ اس عدالتی فیصلے کی بلادلیل حمایت میں لگے ہیں۔
روزنامہ دنیا 3 نومبر 2017 میں موصوف نے اپنے فتوے میں کہا ہے کہ دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی کو نہ بتانا دھوکہ ہے۔آیئے اس فتویٰ کا شرعی و عقلی ہر لحاظ سے جائزہ لیتے ہیں ۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ پہلی بیوی جب شادی کرتی ہے تو وہ دراصل چار بیویوں کے حق حاصل کر رہی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے جو بھی نئی بیوی آتی ہے، وہ پہلی بیوی کاحق نہیں لیتی، بلکہ اپنا حق واپس لیتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دیا ہے تو یہ دھوکہ کیسے؟پھر رسول اللہ ﷺ نے خود زوجین میں مصلحت کے لئے غلط بیانی کو روا رکھا ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جھوٹ صرف تین امور کے لئے حلال ہے: آدمی کا اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لئے جھوٹ بولنا اور جنگ میں جھوٹ بولنا اور لوگوں کے درمیان صلح کر وانے لئے جھوٹ بولنا۔‘‘
دوسری بات یہ ہے کہ عورت کا دوسری شادی کے خلاف ناراض ہونا ایک فطری عمل ہے ،وہ اس کی اجازت کب دے گی اور وہ اجازت نہیں دے گی تو دوسری شادی کبھی ممکن نہیں ہوگی۔لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس قانون نے دوسری شادی کا راستہ مسدود کر کے رکھ دیاہے۔
اللہ تعالیٰ نے تعدد ازواج کو صیغہ امر کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
’’ عورتوں میں سے جو تمہیں پسند ہوں، ان سے نکاح کرلو، دو دو سے اور تین تین سے اور چار چار سے، پھر اگر تم ڈرو کہ عدل نہیں کرو گے تو ایک بیوی سے یا جن کے مالک تمہارے دائیں ہاتھ ہوں (یعنی لونڈیاں)۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ تم انصاف سے نہ ہٹو۔‘‘
غور کریں ایک شادی کو عدل نہ کرنے کی شکل میں مشروط کر کے بیان کیا ہے یعنی دو دو، تین تین اور چار چار کو صیغۂ امر یعنی حکم کے ساتھ بیان فرمایا اور کوئی شرط بیان نہیں کی اور ایک شادی تک محدود رہنے کی اجازت عدم عدل کی وجہ سے بیان فرمائی ہے۔
موصوف نے لکھا ہے کہ اللہ نے متعدد شادیوں کی مرد کو اجازت نہیں دی، بلکہ زیادہ شادیوں سے صرف منع نہیں کیا یعنی زیادہ شادیاں کرنے پر صرف پابندی نہیں ۔ اس فلسفے سے یہ ثابت کرنے کی بے کار کوشش کی گئی ہے کہ شریعت میں ،جس کام کے کرنے سے منع نہ کیا گیا ہو، اس کو حکمران منع کر سکتا ہے اور پھر حکمران کے قانون کی حیثیت شریعت کے قانون کی طرح ہوتی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ’’پابندی نہیں‘‘کی بات تو تب ہم مانتے کہ اس مسئلہ پرشریعت خاموش ہوتی، جبکہ یہاں تو قرآن کی آیت اس کو صیغۂ امر کے ساتھ بیان کر رہی ہے اور صیغۂ امر کا کم از کم اطلاق اجازت اور جواز پر ہوتا ہے۔
دوسری طرف مسند احمد اور ابن ماجہ میں ہے کہ غیلان ثقفی جب مسلمان ہوئے تو ان کی دس بیویاں تھیں،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ان میں سے چار کو رکھو اور باقی بیویوں کو طلاق دیدو‘‘اس کے علاوہ شادی کرنے کے وہ عمومی حکم جو رسول اللہﷺ نے دیئے تھے، وہ سب حکم بھی صرف کنواروں کے لئے نہیں، بلکہ سب کے لئے تھے مثلاًفرمایا:
’’زیادہ محبت کرنے والیوں اور زیادہ بچے پیدا کرنے والیوں سے شادی کرو! میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔‘‘ ابوداؤد،نسائی،مسنداحمد
تو ان تمام نصوص کے بعد یہ کہنا کہاں تک درست ہوگا ’’کہ متعدد شادیوں کی اللہ نے اجازت نہیں دی، بلکہ زیادہ شادیوں پر صرف پابندی نہیں ہے۔‘‘ اور یہ کہ جب پابندی نہ ہو تو حکمران وقت اس پر پابندی لگا سکتا ہے؟
گویا کہ موصوف نے اشارہ دے دیا کہ طے شدہ منصوبہ کے تحت جو اگلا قانون تعددا زواج کے مطلق امتناع کا آرہا ہے، اس کا جواز پیدا کردیاجائے۔ پھر حکمرانوں کی پھرتیاں دیکھیں کہ چٹ منگنی اور پٹ بیاہ کی طرح ادھر ایسا قانون بنتا ہے اور اگلے دن ہی اس پر عمل شروع ہو جاتا ہے گویا کہ اس عمل کے لئے ہی قانون بنایا جاتا ہے۔قانون حقوق نسواں کو دیکھ لیں اور اب دوسری شادی پر پہلی بیوی کی اجازت نہ لینے پرسزا کا قانون۔
دراصل مردوں کو مختلف حیلوں بہانوں اور شرطوں سے دوسری شادی سے روکنا ایک عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے، تاکہ ایک تو مسلمانوں کی آبادی کم کی جا سکے، دوسرے مسلمانوں میں درجنوں لڑکیوں سے بدکاری تو آسان اور عام ہو، لیکن شادی اور نکاح مشکل سے مشکل بنادی جائے۔ حالانکہ مرد کی ایک سے زائد شادیاں عورت کے ہی مفاد میں ہیں۔ اس وقت عالمی صورت حال یہ ہے کہ دنیا بھر میں مجموعی طور پر عورتوں کی تعداد مردوں سے بڑھ رہی ہے۔ اور اوسط عمر بھی انہی کی زیادہ ہے ۔پھر جنگوں میں بھی مرد ہی زیادہ کام آتے ہیں تو بھی عورتیں بڑھ جاتی ہیں ۔یہ سب اللہ تعالیٰ کی حکمت کا کمال مظہر ہے۔
پاکستان میں بھی عورتیں مردوں سے زیادہ ہیں ،یعنی اگر ہر عورت کو ایک شوہر میسر آجائے تو پھر بھی لاکھوں عورتیں شوہر کے بغیر رہیں گی۔ آخر یہ لاکھوں زائد عورتیں کہاں جائیں گی۔ ان کے لئے شادی تو نا گزیر ہے۔ جسمانی تقاضے تو پورے کرنے ہیں، اب یا تو حرام کاری کریں گی یا پھر دوسری یا تیسری بیوی بننے کے بغیر چارہ نہیں ہے۔
اگرچہ اس دفعہ پاکستان کی حالیہ مردم شماری مردوں کی تعداد زیادہ بتارہی ہے۔ یہ بات سمجھ نہیں آرہی،کوئی بعید نہیں کہ یہ اعدادوشمار کسی عالمی سازش اور دباؤ کا نتیجہ ہی ہوں۔ کراچی سے بھی اس مردم شماری کے نتائج پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
اگر یہ اعددو شمار درست بھی ہوں تو یہ اوربھی خطرناک بات ہے کیونکہ اس کی وجہ عورتوں کی شرح پیدائش کی کمی ہے اور اس کی وجہ الٹرا ساؤ نڈ رپورٹس ہیں۔ لوگ بیٹے کی تلاش میں قبل از وقت رپورٹ لے کر بچیوں کو زندہ در گور کر رہے ہیں۔ اس پر حقوق نسواں اور حقوق انسانی کے ٹھیکیدار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اورخود حکومت بھی اس پر کوئی کارروائی نہیں کررہی۔ سرعام لوگ ہسپتالوں میں جاکر بچیوں کو ذبح کر وا رہے ہیں۔اس سے چونکہ فیملی پلاننگ کاعالمی فرعونی ایجنڈا پورا ہورہا ہے، اس لئے سب خاموش ہیں۔
حقیقت میں اگر یہی صورت حال رہی تو مستقبل قریب میں بہت بڑا انسانی بحران بن سکتا ہے۔ سمجھ نہ آئے تو آج ہندوستان کی معاشرتی حالت دیکھ لیں۔ دو د و، تین تین بھائی ایک ہی مشترکہ دلہن گھر میں لا رہے ہیں۔کیا پاکستان کا مسلمان معاشرہ اس کو برداشت کر سکے گا۔(جاری ہے)