مسائل ہی مسائل، بات کس پر کی جائے، مشکل ہے!
لکھنے اور کہنے کے لئے اتنا کچھ ہے کہ چناؤ مشکل نظر آنے لگا ہے۔ خیال تھا کہ سب سے بڑی عدالت کے فاضل جج صاحبان کے حوالے سے کچھ عرض کیا جائے کہ وہ اپنے خطوط اور ریمارکس کی وجہ سے خود یہ موقع فراہم کررہے ہیں کہ بات کی جائے لیکن ہم ٹھہرے پرانی وضع کے لوگ، جب فاضل جج حضرات خود کم اور ان کے فیصلے زیادہ بولتے تھے،تب ہم پابند تھے کہ دوران سماعت ہونے والی کارروائی کے سوا کچھ اور نہ لکھیں، حتیٰ کہ بعض اوقات فاضل جج دوران سماعت کوئی ریمارکس دیتے تو ساتھ ہی اشاعت سے منع فرما دیتے تھے جبکہ آج کی صورت حال بالکل مختلف ہے فاضل جج صاحبان دوران سماعت تاریخی نوعیت کے ریمارکس دیتے ہیں جو تجزیئے یا تبصرہ کا تقاضا کرتے ہیں، جہاں تک فاضل جج حضرات کی طرف لکھے جانے والے خطوط یا کسی تقریب میں تقریر کا مسئلہ ہے تو یہ بذات خود دعوت ہوتی ہے کہ تقریر تو کوریج میں آتی ہے تاہم خطوط اشاعت کے لئے ویب پر جاری کر دیئے جاتے ہیں، لہٰذا جب آپ خود اپنے خط کو اشاعت کا موقع دیں تو ان پر بھی اسی طرح بات ہو سکتی ہے جیسے کسی کیس کے فیصلے کے بعد اس پر نیک نیتی سے تبصرہ کیا جاتا ہے لیکن میں اس سے اس لئے گریز کررہا ہوں کہ پرانی وضع کا ہوں، جب احترام ہی بہت کچھ تھا آج کا سوشل میڈیا نہیں تھا اس لئے اس حوالے سے معذرت ہی بہتر ہے۔
تازہ ترین خبر انٹرسروسز پبلک ریلیشنز کی طرف سے جاری کی گئی ہے جس کے مطابق 9مئی کے واقعات میں ملوث 25ملزموں کی سزاؤں کا اعلان کر دیا گیا ہے جو دو سال سے 10سال قید بامشقت تک ہیں، ان ملزموں کو جواب مجرم ہیں قواعد کے مطابق اپیل کا حق ہے،بہرحال یہ ایک سال سے زیادہ عرصہ تک زیرحراست رہے کہ عدالت عظمیٰ نے فوجی عدالتوں کو فیصلہ سنانے سے روک رکھا تھا اور حکم امتناعی جاری کیاہوا تھا، اب یہ بھی ایک سوال ہوگا کہ جو عرصہ یہ حضرات سماعت مکمل ہونے اور فیصلہ کا اعلان ہونے کے دوران زیر حراست رہے، ان دنوں کا کیابنے گا؟ کیا یہ عرصہ سزا سے کم کر دیا جائے گا؟ کہ سزاؤں کا اعلان عدالت کی اجازت کے بعد ہوا ہے، اس کے کئی پہلوؤں پر غور لازم ہے تاہم پریس ریلیز میں جو اہم بات کہی گئی وہ یہ کہ ان تمام افسوسناک واقعات کے ماسٹر مائنڈز جب تک اپنے انجام کو نہیں پہنچیں گے تب تک انصاف مکمل نہیں ہوگا۔ اس لئے میرے خیال میں تو کسی تبصرے سے گریز ہی کرنا چاہیے کہ خبر کے ساتھ ساتھ وہ ویڈیوز بھی شیئر کی گئی ہیں جو ان حالیہ مجرموں اور سابقہ ملزموں کی شناخت کاباعث بنیں اور جن میں ان کے عمل / جرم کی بھی نشاندہی ہوتی ہے، اس لئے فیصلے پر بھی بات کو ٹلا دینا چاہیے کہ ابھی مزید 60افراد کی قسمت کا فیصلہ سامنے آنا ہے۔
مزید اہم خبریں سول/ خصوصی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کے حوالے سے بھی ہیں جن کے مطابق ایک خاص کیس (190ملین پاؤنڈز) کا فیصلہ کل سنایاجائے گا اس کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے مرکزی کردار عمران خان اور ان کی اہلیہ بی بی بشریٰ ہیں، یوں یہ سب اپنی اپنی نوعیت سے بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور ان کی وجہ سے حالات میں تبدیلی ہو سکتی ہے کہ حزب اقتدار مطمئن اور حزب اختلاف مزید مشتعل ہوگی، اس لئے آج اس حوالے سے بھی گریز ہی بہتر ہے کہ مذاکرات کے حوالے سے ابھی گزشتہ روز ہی اچھی توقعات کا اظہار کیا تھا، تاہم اب کیا صورت بنتی ہے اس پر توجہ دینا ہوگی کہ فیصلہ اور سزائیں تحریک انصاف کے لئے خوشگوار عمل نہیں بلکہ ناراضی کا باعث ہیں۔ پی ٹی آئی کیلئے بڑی مشکل یہ ہوگی کہ دفاع کیسے کیا جائے، اب تو یہ سلسلہ شروع ہوا تو جاری رہے گا، یوں تحریک انصاف کے لئے پریشانی بڑھ گئی ہے۔ اس پر بھی پھر بات ہو سکتی ہے۔
بہت اہم مسئلہ (ایشو) پارا چنار ہے، اس حوالے سے جمعہ کو پشاور میں صوبائی اپیکس کمیٹی کا بھی اجلاس ہوا جس میں بہتری کے لئے کئی فیصلے کئے گئے اور اہم فیصلہ تو وہی ہے کہ فریقین اسلحہ صوبائی حکومت کے حوالے کر دیں اور مورچے ختم کر دیئے جائیں جبکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے قابل اعتراض مواد کو ضبط کرلیا جائے۔ اسی مسئلہ پر بڑے جرگہ کی کارروائی معطل ہو گئی تھی۔ اب اس شرط پر کیا فیصلہ ہوتا ہے وہ بھی وقت ہی بتائے گا کہ امن کے لئے تو یہ ضروری ہے کہ عام لوگوں کو آزادی سے گھومنے پھرنے دیاجائے۔
قارئین! یہ اجمالی سا ذکر ہے جو کیا گیا تاکہ عرض کر سکوں کہ آج چند ایسے عوامی مسائل کا ذکر کر لیتے ہیں،جن سے ہم خود بھی متاثر ہوتے ہیں۔ بات کرنے سے قبل میں یہ عرض کردوں کہ اس سے میری مراد تنقید برائے تنقیدنہیں بلکہ یہ مسائل سربراہ صوبائی حکومت مریم نواز اور ان کے رفقاء کے علم میں لانا ہیں تاکہ ان کا ازالہ ہو سکے۔
جہاں تک وزیراعلیٰ مریم نواز کا تعلق ہے تو وہ عوامی فلاح کے اتنے زیادہ منصوبوں کا اعلان کر چکی ہوئی ہیں کہ تعداد بھی یاد نہیں، وہ ہر روز اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کرتیں اور کسی نہ کسی نئے منصوبے کا اعلان کرتی ہیں، ان کے کام کرنے کی رفتار بہتر ہی نہیں تیز بھی ہے اور دن کا زیادہ عرصہ عوامی بہبود کے لئے مصروف بھی رہتی ہیں، ابھی حال ہی میں انہوں نے تجاوزات کے حوالے سے بہت بڑا فیصلہ کیا اور 8روز کے اندر تمام شہروں سے تمام تجاوزات ختم کرنے کی ہدایت کی ہے، میرے خیال میں جہاں یہ ہدائت ضروری ہے وہاں ناقابل عمل بھی ہے کہ جس عملہ کی یہ ذمہ داری ہے وہ خود ملوث ہے، حتیٰ کہ لاہور میں تجاوزات میں ایل ڈی اے کا عملہ اور ادارے کے فیصلے معاون و مددگار ہیں۔ جتنی تجاوزات ایل ڈی اے کی ہاؤسنگ سکیموں میں ہیں، وہ اور کہیں نہیں، ایل ڈی اے کی طرف سے رہائشی علاقوں کی سڑکوں کے اطراف عمارتوں کو فیس وصول کرنے کے لئے کمرشل قرار دینے کا سلسلہ تاحال جاری ہے اور اسی کمرشلائزیشن کی وجہ سے اتنی بھرپور مستقل اور عارضی تجاوزات ہوتی ہیں کہ راستہ تنگ ہو کر رہ جاتے ہیں، اسی ادارے کے عملہ کی وجہ سے مارکیٹوں کے وہ برآمدے جو گاہکوں کی گزرگاہ ہیں، بند رہتے ہیں کہ تاجر حضرات نہ صرف ان برآمدوں میں اپنا سامان رکھتے ہیں بلکہ برآمدوں کے باہر کھوکھا والوں کو کرائے پر کاروبار کی اجازت دیتے ہیں، یہ سیدھا سادا معاملہ ہے لیکن آج تک حل نہیں کیا گیا، اس حکم پر کیسے اور کہاں کہاں عمل ہوتا ہے۔ یہ وقت ہی بتائے گا کہ ایک ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔اسی سے جڑا مسئلہ گزر گاہوں اور ٹریفک جام کا ہے لاہور میں گاڑیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کسی رکاوٹ کے بغیر بھی ٹریفک رواں نہیں رہتی کہ نہ تو لوگ ٹریفک قواعد پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی اب ٹریفک وارڈنز کو کوئی دلچسپی رہ گئی ہے، وہ سارا دن چالان کرتے نظر آتے ہیں، میرا اپنا روزانہ آنا جانا وحدت روڈ، فیروزپور روڈ، جیل روڈ اور کینال روڈ سے ہوتا ہے ہرسڑک پر ٹریفک جام معمول ہے اور ٹریفک وارڈنز کی طرف سے نظر انداز کرنا بھی جاری رہتا ہے۔ نتیجہ فیول کا زیادہ خرچ اور سموگ کے لئے زیادہ سموک ہے۔ اس سلسلے میں ایک ایک مسئلہ الگ الگ کالم کا تقاضا کرتا ہے۔ میں بار بار کی گئی اس گزارش پربات مکمل کرتا ہوں کہ منصوبے بنانا، اعلان کرنا، رقوم مختص کر دینا احسن اقدام ہیں، لیکن ان سے بھی زیادہ حقیقی کام عمل ہے اور یہ عمل نگرانی اور فالواپ سے ممکن ہے کہ ہڈحرامی اور خرابی تو عوامی بہبود کے شعبوں اور ان کے اہل کاروں کے باعث ہے۔