دادا کبھی اپنے اصول، میرٹ سے نہ ہٹے خواہ سامنے کوئی بھی ہو، نہ ہی کبھی سچ کے علاوہ بات کہی یا سنی، یہ خوبیاں اگلی نسل میں بھی منتقل ہوئیں 

 دادا کبھی اپنے اصول، میرٹ سے نہ ہٹے خواہ سامنے کوئی بھی ہو، نہ ہی کبھی سچ کے ...
 دادا کبھی اپنے اصول، میرٹ سے نہ ہٹے خواہ سامنے کوئی بھی ہو، نہ ہی کبھی سچ کے علاوہ بات کہی یا سنی، یہ خوبیاں اگلی نسل میں بھی منتقل ہوئیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:26
 اس ممتحن کا نام اور ایڈریس آپ کے لئے لایا ہوں کہ ہو سکتا ہے وہ آپ کا واقف ہو۔“  ابا جی بتاتے تھے کہ یہ سن کر تمھارے دادا کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ ابا جی کے ہاتھ سے پرچی پکڑی اور بنا دیکھے مسل کر پھینک دی اور بولے؛
” ''don"t   ask for   a   thing which you dont desrve''  
اورغصہ میں چلے گئے۔دادا کبھی اپنے اصول، میرٹ سے نہ ہٹے خواہ سامنے کوئی بھی ہو اور نہ ہی کبھی سچ کے علاوہ بات کہی یا سنی۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ خوبیاں میرے والد، چاچا جی سے ہوتی اگلی نسل میں بھی منتقل ہوئیں۔ میرا بیٹا احمد جو کاڑیوں کے کاروبار سے منسلک ہے کبھی بھی اپنی گاڑی غلط بیانی کرکے نہیں بیچتا۔ یہی وجہ ہے کہ احمد صاحب کے کلائنٹ پورے پاکستان میں پھیلے ہیں۔ یہی حال عمر کا بھی ہے اسے کمپنی نے ایک بار 2 ہزار ڈالر تنخواہ زیادہ دے دی جو اس نے انے منیجر کو لوٹا دی۔ اس کا باس کہنے لگا؛”یار! تم رکھ لیتے۔“ اس نے جواب دیا؛”جو چیز میری نہیں میں کیسے رکھ سکتا تھا۔“ 
غلام مرتضیٰ المعروف بابا جی؛
 یہاں بابا جی غلام مرتضی ٰ کا ذکر بھی بہت ضروری سمجھتا ہوں۔ وہ میرے دادا کے تایا زاد بھائی تھے۔ کمال علم دوست، دانش مند، دریا دل، سادہ اور مخلص شخص تھے۔ میرے دادا کی ساری جائیداد کا حساب کتاب ان کے پاس تھا۔ کبھی اکیلے کھانا نہیں کھاتے تھے۔ گھر سے ہمیشہ پانچ چھ لوگوں کا کھانا ہی تیار ہو کر باغ میں آتا جو ان کا ڈیرہ تھا۔ اگر کھانے پر کوئی ساتھ دینے والا نہ ہوتا تو کھانا ہی نہ کھاتے تھے۔ کھانے کے وقت اکژ ڈیرے پر تین چار لوگ ضرور موجود ہوتے تھے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ کھانے کے وقت کوئی موجود نہ تھا اور اگر کو ئی تانگہ گزر رہا ہوتا تو اس کی سواریوں کو روک کر اپنے ساتھ کھانے میں شامل کر لیتے تھے۔ انہیں انگریزی کے دو ہی الفاظ آتے تھے، yes  اور thank you  دونوں الفاظ کا خوب درست استعمال کرتے۔ان کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی۔میرے والد سے انہیں بہت محبت تھی اور ان کے خوب نخرے اٹھاتے۔ابا جی مرحوم نے ایک دفعہ مجھ سے ذکر کیا تھا؛”کہ اسلامیہ کالج امرتسر کے اساتذہ اور میرے ہم جماعتوں نے”مادھو پور ہیڈ ورکس“ پکنک کا پروگرام ترتیب دیا اور رہنے اور کھانے پینے کی ذمہ داری میرے سپرد ہوئی۔ والد پروگرام کے مطابق ایک روز پہلے گھر آئے اور بابا جی کو اس پکنک سے آگاہ کیا اور بتایا کہ کل 40 کے لگ بھگ لوگ ہوں گے۔ صبح پہنچیں گے، ناشتہ کرکے مادھو پور جائیں گے۔ رات کا کھانا کھائیں گے، اور اگلی صبح واپسی ہو گی۔ بابا جی انتظام میں کمی نہ ہو۔“ انہوں نے جواب دیا؛”پتر! ہن میری فکر اے تیری مک گئی۔“ مہمانوں کی آمد سے روانگی تک ایسے شاندار انتظام تھے کہ سبھی لوگ ایک عرصہ تک اس پکنک کو بھول نہ پائے۔وہ بلا کے مہمان نواز تھے۔ ابا جی نے جب بھی کبھی ان سے پیسے مانگنے انہوں نے زیادہ ہی دینے۔ ابا جی کے پوچھنے پر جواب دیتے؛”پتر ودے پیسے چنگے ہوندیں نے۔ کھٹ گئے تے فیر کس توں منگیں گا۔“ اب ایسے بابا جی ناپید ہی ہو چکے ہیں۔ خون کے رشتوں میں وہ پہلے والی باتیں نہیں رہی ہیں۔ رشتے اب فائدے نقصان کے ترازو میں تولے جاتے ہیں۔ بابا جی شکاری بھی بہت اچھے تھے۔یہ فن میرے والد کو بھی ورثہ میں ملا تھا کہ میرے دادا بھی عمدہ شکاری تھے۔ اس درویش منش انسان بابا جی) کو اللہ نے ایک اور خاص خوبی سے بھی نوازا تھا۔ ابا جی کو بھی وہ اکثر شکار پر ساتھ لے جاتے تھے۔ جنگل میں یا کسی اور جگہ سانپ کی موجود گی کا  بابا جی کو پتہ چل جاتا تھا۔ ایسے موقع پر ہمیشہ ابا جی سے کہتے؛”پتر! میرے پچھے ہو جا اگے سپ اے۔“ آگے واقعی ہی سانپ ہو تا اور پھر وہ سانپ کو دم سے پکڑ کر زور دار جھٹکا دیتے اس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جاتی، وہ ہلنے کے قابل نہ رہتا اور اپنی جوتی سے ماردیتے۔ ایک دن باغ میں چارپائی پر بیٹھے تھے کہ کوبرا نکل آیا۔ سب ملازم دوڑ گئے۔ انہوں نے اپنی پگڑی سانپ پرپھینکی، وہ ڈنگ مارنے کے لئے الٹا ہوا اوربابا جی کی جوتی کا شکار ہو گیا۔ سانپ مار کر ملازمین سے بولے؛”اؤے سوری دیو! بابا نوں کلا چھڈ کے دوڑ گئے سو۔“ پاکستان بننے کے بعد وہ جھنگ آباد ہوئے، باقی عمر وہ اپنے بھتیجے اور میرے دادا کو بہت یاد کرتے تھے۔ وہیں 1952ء میں وفات پائی۔  (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -