مائنس ون، ٹو، تھری یا پھر…… دمادم مست قلندر
پاکستان میں گزشتہ ماہ سے مائنس ون‘ ٹو‘ تھری کا شور مچا ہوا ہے۔ مسلم لیگ(ن) والے مائنس ون کے خواہشمند ہیں اور روزانہ شام ان کے ”سپوکس پرسن“ ہر ٹیلی ویژن میڈیا کی سکرینوں پر اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے زورِ بیان صرف کر رہے ہیں مگر خواہشات پوری ہونے کا امکان نظر نہیں آرہا۔ پیپلز پارٹی مائنس ون کے ساتھ مائنس ٹو کی بھی خواہشمند ہے جبکہ شیخ رشید صاحب نے تو مائنس تھری بھی کہہ ڈالا ہے،ان کی خواہش ہے کہ میاں نوازشریف اور آصف زرداری کو بھی مائنس کر دیا جائے، انکا یہ مقصد تھا کہ اگر مائنس ون یعنی (عمران خان) ہوا تو پھر مائنس ٹو یعنی ”نواز شریف“ اور مائنس تھری یعنی ”آصف زرداری“ بھی ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ اگر تینوں پارٹیاں ہی مائنس ہو گئیں تو پھر کیا ہو گا؟ اس کا مطلب واضح ہے کہ پھر ”دمادم مست قلندر“ ہوگا‘ یعنی وہی جو پہلے تین دفعہ ہوچکا ہے۔ پاکستان میں ”مائنس“ یعنی سیاست سے ”مائنس یعنی زیرو“ کرنے کا کھیل پہلے بھی کئی مرتبہ کھیلا جاچکا ہے، مگر یہ کھیل کبھی کامیاب ہوتا نظر نہیں آیا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا تختہ الٹ کر جنرل ضیاء الحق مرحوم مسند ِ اقتدار پر تو بیٹھ گئے، مگر ان کی پیپلز پارٹی کو سیاست سے ”مائنس“ کرنے کی خواہش بھٹو کو پھانسی دینے کے باوجود بھی پوری نہ ہوسکی۔ پیپلز پارٹی میں سے غلام مصطفی جتوئی، مولانا کوثر نیازی اور حنیف رامے کی قیادت میں ایک نہیں تین پیپلز پارٹیاں نکالی گئیں، مگر پیپلز پارٹی کو مائنس کرنے کی خواہش رکھنے والوں کو مایوسی ہی ملی۔ بے نظیر بھٹو ایک نہیں دو مرتبہ پوری قوت سے پاکستان واپس آئیں اور پیپلز پارٹی آج بھی زندہ ہے۔ بے شک پاکستان کے چاروں صوبوں کی زنجیر اب صرف ”اپنے گھر“ یعنی سندھ تک محدود ہو گئی ہے اور مستقبل میں بھی اس کی حالت تبدیل ہوتے نظر نہیں آ رہی۔ پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ(ن) کو پاکستان کی سیاست سے نکالنے کی خواہش رکھنے والے جنرل پرویز مشرف کو بھی مایوسی ہوئی۔ وہ نوازشریف اور ان کے خاندان کو پاکستان سے نکالنے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کو پاکستانی سیاست سے نہ نکال سکے۔ 2002ء میں ان کی بنائی مسلم لیگ(ق) وہ کامیابی نہ سمیٹ سکی جو جنرل پرویز مشرف کی خواہش تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جنرل پرویز مشرف کو ان کی زندگی میں ہی نوازشریف اور شہبازشریف کی وطن واپسی اور سیاست میں کامیابیاں دیکھنے کو ملیں۔ اس میں شک نہیں کہ مسلم لیگ(ن) کو سیاست سے ”مائنس“ تو نہیں کیا جاسکا مگر وہ بھی اب صرف صوبہ پنجاب تک محدود ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کم از کم اپنے ”آبائی گھر“ یعنی سندھ میں اقتدار پر قبضہ تو برقرار رکھے ہوئے ہے، لیکن مسلم لیگ (ن) تو یہ بھی گنوا بیٹھی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اگر آج تحریک انصاف کو (ن)لیگیوں کو ”لوٹا“ بنانے کی ”اجازت“ مل جائے تو پنجاب میں ایسے لوٹوں کی کمی نہیں، بلکہ کثرت ہے جو ”ڈرائی کلین مشین“ سے گزر کر ”صاف ستھرا ٹائیگر“ بننے کو تیار ہوں گے، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے ارکان کی تعداد قومی اسمبلی میں 84 اور پنجاب اسمبلی میں 166 ہے‘ یعنی وفاق میں مسلم لیگ(ن) کے 43 ارکان بغاوت کریں تو یہ کامیاب بغاوت کہلائے گی اور پنجاب میں کامیاب بغاوت یعنی لوٹا سازی کی مشین میں سے 84 لوٹوں کو گزار کر نہلا دھلا کر ”صاف ستھرا ٹائیگر“ بنایا جائے‘ تبھی مسلم لیگ (ن) کو مائنس کرنے کا عمل باقاعدہ شروع ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) ابھی اتنی کمزور دکھائی نہیں دے رہی، مگر ”ڈرائی کلیننگ“ کی مشین ”چلانے والوں“ کے ارادوں کا کیا پتہ، پنجاب میں میاں شہباز شریف نے اکثریت نہ رکھنے پر 2008ء میں پیپلز پارٹی کے ساتھ اشتراکِ اقتدار قبول کرلیا تھا اور پھر خواجہ احمد حسان نے ڈرائی کلین کی مشین سے گزار کر جس دن 49 لوٹے نہلا دھلا کر سفید کپڑے پہنا کر مسلم لیگ (ن) کے لئے قابل استعمال کرلئے، اس دن پنجاب اسمبلی میں باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے مسلم لیگ(ق) کے ان ارکان اسمبلی کے چہرے پریس کو دکھائے جو مسلم لیگ(ق) کو چھوڑ کر آئے تھے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کو جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف تک مائنس نہیں کرسکے تو مستقبل میں کیا ہوگا؟ اس کا فیصلہ میاں نواز شریف اور میاں شہبازشریف سے زیادہ ”جاتی عمرا“ میں مقیم مریم نوازشریف کے ہاتھ میں ہے‘ جن کے بارے میں ان کی پارٹی کے سرکردہ لوگ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) کو موجودہ حالات تک کسی اور نے نہیں ”مریم نواز شریف“ نے پہنچایا ہے۔ پاکستانی سیاست سے منفی کرنے کی ایک کامیاب کوشش جماعت اسلامی کے سید منور حسن کے خلاف کی گئی۔ مرحوم سید منور حسن کو اپنے ایک بیان کو بھگتنا پڑا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر افغانستان میں لڑنے والے امریکی فوجی شہید نہیں تو پھر ان کے لئے لڑنے والے پاکستانی فوجی کیسے شہید ہوسکتے ہیں۔ سید منور حسن کے اس بیان پر ”سخت ردعمل“ ہوا۔ ان کے ساتھ منصورہ میں مقتدر حلقوں کی ایک ملاقات ہوئی جو کہ ناکام ہوئی جس کے بعد سید منور حسن کو جماعت اسلامی کے الیکشن میں ناکامی کے ذریعے ”مائنس“ کردیا گیا۔ پاکستان کی سیاست سے الطاف حسین کو بھی ”مائنس“ کیا گیا، مگر اس کے لئے ایم کیو ایم کو تقسیم کیا گیا جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کی تقسیم کے ساتھ ساتھ الطاف حسین کا ساتھ دینے والوں کی زبان بندی بھی کر دی گئی۔ پاکستان کے میڈیا پر وہ الطاف حسین جو وقت بے وقت کسی بھی مسئلے پر اچانک بولنے کا فیصلہ کرتا اور پھر ہر چینل الطاف حسین کی تقریر دکھانے پر مجبور ہوجاتا، ورنہ…… ورنہ کیا ہوسکتا تھا اس کے لئے ”آج“ اور ”اے آر وائی“ نیوز کے کراچی دفاتر پر حملوں کی مثال کے علاوہ کئی مزید حملے بھی تھے، مگر جب الطاف حسین کی ”زبان بندی“ کا فیصلہ ہوا تو پھر سب میڈیا نے اس پر عمل کیا اور آج پاکستان میں لوگوں کو الطاف حسین کی شکل بھی یاد نہیں رہی۔ مائنس ون اور مائنس ٹو کی خواہش رکھنے والوں کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ اگر ان کی خواہش پوری ہوگئی تو کہیں ”دمادم مست قلندر“ نہ ہوجائے اور پھر سبھی خواہشیں دم توڑ جائیں گی……!