بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ ۔ ۔ ۔قسط نمبر 54
ہندوؤں کے عقائد و تعارف ان کی اپنی نظر میں
ہندوؤں کے عقائد و تعارف پر ان کے اپنی تحریر سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ زمانہ قدیم میں وہ بت پرست نہیں بلکہ آتش پرست تھے اور ہندوستان میں آنے کے بعد بت پرست بنے۔ تاتاری اور ساسانی نسل کے قدیم باشندوں کو وہ اپنا ہم نسل سمجھتے تھے البتہ افغان نسل کو اسرائیلی کہہ کر ایک علیحدہ قوم تصور کرتے اور انہیں اسرائیل ، پٹھان اور افغان قوم کے ناموں سے پکارتے ہیں۔ نیز محمد غوری سے شیر شاہ تک کا زمانہ وہ افغانی دور سمجھتے ہیں۔ اس کی تصدیق میں تاریخ ٹاڈراجستان جلد اول مترجم منشی دوارکا پرشاد افق لکھنوی ۱۹۱۴ء کی عبارت ذیل میں درج کی جاتی ہے۔
شجاع قوم پٹھان کی تاریخی داستان، قسط نمبر 53پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
۱۔ قدیم شجروں میں ہندوؤں کا نام دیوتاؤں کے نام پر موجود نہ ہونے سےء یہ باور کرنا خلاف عقل نہیں کہ بیشنو مذہب کے قبل مورتی پوجا کا رواج نہ تھا۔ قدیم تواریخ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ منتر جنتر ، نو گرہوں اور مورتیوں کا رواج کرشن چندر کے بعد ولایت کشمیر سے ہندوستان میں مروج ہوا۔ مورتی پوجا کی رفتہ رفتہ ایسی ترقی ہوئی کہ عوام الناس کل چیزوں کو پوجنے لگے۔ دیوتا 33 کروڑ ہوگئے جن کے نام بھی کسی کو معلوم نہیں دنیا کی اعلیٰ سے اعلیٰ اور ادنیٰ سے ادنیٰ چیز بھی ایسی باقی نہ رہی جس کی پرستش نہ کی گئی ہو۔ سورج سے لے کر چمار کی مالپی دراپی، کوبھی لوگوں نے پوجنا شروع کر دیا۔ کرشن ایک ، مگر پرستش سات صورتوں میں۔ کرشن جی کی مورتیں راجپوتانہ کی مختلف ریاستوں میں موجود ہیں۔ صفحہ ۹۰۴
۲۔ اب سے بارہ سو برس پہے شری رام چندر جی کے تخت حکومت پر ایک گؤ خوار (ایرانی) نے قدم رکھ کر ہندوؤں کے سورج کا خطاب حاصل کیا۔ وہ کبھی باور نہ کریں گے کہ دنیا کی قدیم ترین قوم کی موجودہ نسل یزدجود بادشاہ خاندان ساسانی کے بقائے نام ہے راجہ گرو ہابھیل بہعرام گور کا بیٹا تھا۔ جس کے ایک بیٹے کو پٹن کی حکومت حاصل تھی۔ ہم آگے چل کر رانا کے خاندان کا ایرانی نسل سے تعلق ظاہر کریں گے۔ صفحہ ۵۷، ۴۵۶
۳۔ اودے پور کے تاجدار تمام ہند کے فرمانرواؤں سے افضل و صاحب عظمت ہیں۔ ہندوستان کے راجے تاجپوشی کی تقریب میں رانا اودے پور ہی کے ہاتھ سے تلک کراتے اور اس رسم کے وقت ان کے سامنے سرداب خم کرتے ہین۔ تلک آدمی کے خون سے لگایا جاتا ہے۔ اودے پور کے فرمانرواؤں کا خطاب رانا ہے اور وہ اپنے کو نوشیرواں عادل کی اولاد سمجھتے ہیں۔ جس نے علاوہ اور ملک کے ولایت ہندوستان میں بھی علم فتح گاڑا۔ نوشیروان کی زندگی میں نوشیزاداس کا بیٹا جو شہزادی قیصر روم کے بطن سے تھا۔ عیسائی ہوگیا اور بہت سے رفقاء کو ساتھ لے کر ہندوستان میں قیام پذیر ہوا۔ اس کی اولاد ہندوستان میں باقی رہ گئی۔ اودے پور کے رانا کو اس کی نسل سے تعلق ہے۔ صفحہ ۴۵۹
۴۔ چونکہ دہلی کے تاتاری شہنشاہ کو لڑکیاں دینا ہندوؤں کے ہاں ایک بدنما دھبہ تھا۔ لہٰذا انہوں نے داغ بدنامی سے بچنے کے لیے یہ بات پیدا کی کہ گو سلسلہ حسب و نسب بہت پرانا اور رشتہ بہت دور کا ہے تاہم ہمارے اور تاتاری بادشاہ کے بزرگ ایک ہی تھے آخر میں اس خیال نے ان کے دل کو قدرے مطمئن کر دیا کہ آمیزش خون بزرگان قدیم کے خون ہی سے ہے۔ صفحہ ۴۵۸
۵۔ محمود غزنوی کی یورشوں اور خاندان افغان(محمد غوری) کے حملہ اول کے موقعوں پر اس دیوتا(یعنی کرشن جی کا بت) کو برج چھوڑنا پڑا۔ غیر متعصب شاہان مغلیہ نے مذہب ہندو سے مخالفت کرنا کیا معنی، ان کے اس دیوتا کو برج میں (دوبارہ) متسلط کرکے یہ یقین دلایا تھا کہ وہ خود بھی کنھیا جی(کرشن جی) کی معتقد اور آدھے ہندو اور آدھے مسلمان ہیں۔ جسے دیو کی نظمیں جن میں رادھا کشن کے حسن و عشق کی تصویریں کھینچی ہوئی ہین اکبر کے بہت ہی پسند خاطر تھیں ہندو اسے کرشن کا پریمی مانتے ہیں۔ جہانگیر جس میں بھی راجپوت خون کی آمیزش تھی اکبر کی طرح کنھیا جی کا بہت معتقد تھا۔ شاہ جہان جس کی ماں راجپورت راجکماری تھی۔ شیو جی کا بڑا بھگت اور سدھ روپ سنیاسی کا مرید تھا۔ صفحہ ۸۸۶
۶۔ بابر نے جو یک جہتی کا رشتہ قائم کای تھا اور اکبر جہانگیر و شاہ جہان نے جس تعلق کو مضبوط کیا تھا اورنگ زیب نے اپنی حماقت سے توڑ دیا۔ ۶۶۹
۷۔ اورنگ زیب قوم راجپوت کا جانی دشمن تھا۔ مظلوم راجپوتوں نے اس کے ظلم کے انتقام میں اس کی نسل کو نیست و نابود کر دیا۔ صرف ایک صدی میں ملک نے اس کے کمبخت ہاتھوں سے خلاصی پائی۔ لیکن ظالم اسرائیل کی آخری نسل کے ظالم (افغان) ہمیشہ کے واسطے اورنگ زیب کی طرح گناہ کے شریک رہیں گے کیونکہ انہوں نے ہر ایک بت کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے میں ذرا بھی خیال رحم نہ کیا۔ اگر یہ ظالم(افغان) ایک یادو نشانی باقی رہنے دیتے تو میں شاید ان کے احکام و رسوم، دستور و رواج، دلاوری شجاعت، عدل و انصاف کو فوٹو دنیا کے سامنے کھینچ سکتا۔ لیکن ان کی نقصان رسانی و غارت گری کی عادت نے ایک بھی نقش باقی نہ رکھا۔ جو چیزیں قابل دید و پرستش تھیں ان کو بتاہ کر ڈالا۔ صفحہ ۱۲۰۶
۸۔ لکھشمی نے سمت ۱۳۳۱ بمطابق ۱۲۷۵ء میں تخت پدر پر جلوہ فرمایا۔ اس کے عہد حکومت کو تاریخی دنیا میں خاص شہرت حاصل ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پٹھان بادشاہ تمام شہروں سے بارونق اور مال و دولت سے مالا مال تخت گاہ تباہ و برباد کی گئی۔ صفحہ ۴۹۸
۹۔ ہمایوں کے عزل سلطنت سے ان کی بھی مٹی خراب رہی۔ شیر شاہ نے چغتائی فرمانرواؤں سے حکومتیں چھین لیں اور پٹھانوں کی بادشاہت کے قدم جما دیئے۔ ۵۸۹۔‘‘
جاری ہے
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔