صوبائی دارالحکومت کے متعدد ہوٹلوں اور باغات میں بد اخلاقی کے مکروہ دھند ہ میں اضافہ

صوبائی دارالحکومت کے متعدد ہوٹلوں اور باغات میں بد اخلاقی کے مکروہ دھند ہ ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 لاہور(رپورٹ: ملک خیام رفیق ) لاہور میں کم عمر جسم فروش لڑکوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہونے لگا۔نولکھا ،داتا دربار اور شہر کے بعض دیگر تھانوں کی حدود میں خواتین کی نسبت نو عمر لڑکوں کی زیادہ تعداد کا انکشاف ہو ا ہے۔یہ امرقابل ذکرہے کہ جہاں ایک عام لڑکی اس مکروہ دھندے میں25سے30 ہزار روپے کما تی ہے وہاں یہ لڑکے50سے70ہزار روپے کما لیتے ہیں۔ذرائع کے مطابق نہ صرف شہر میں جگہ جگہ بدکاری کے اڈے کھل گئے بلکہ نجی اور سرکاری اداروں میں بھی ایسے افراد موجود ہیں جو نو عمر لڑکوں کے ساتھ قبیح حرکات کرتے ہیں جبکہ بڑی مارکیٹوں ، سڑکوں ، درباروں، باغوں ، پارکوں اور اہم علاقوں میں بھی چلتے پھرتے ایسے افراد کی کوئی کمی نہیں۔ اس طرح لاہور میں 5سال کے دوران جسم فروشی میں دوگنا سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق لاہور شہرمیں15ہزار سے زائد جسم فروش لڑکے ہیں جن میں 12\13 سال کی عمر سے لیکر 16/17سال کے درمیان ہے ۔موجودہ دور میں نو عمر بچوں کی شمولیت خاصی تشویش کی بات ہے۔کچھ عرصے سے اس مکروہ دھندے میں لڑکوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ ان لڑکوں میں ایک ایسی قسم ہے جو ہوٹلوں کے کمروں تک محدودکام کرتے ہیں جبکہ دوسرے لوگوں کے گھر یا اس کی جگہ پر بھی جاتے ہیں۔ چھوٹی عمر

کے کچھ ایسے لڑکے بھی ہیں جو پارٹ ٹائم یہ کام کرتے ہیں اور دوران سفر کار میں یا رات کے وقت باغات اور دیگر جگہوں پر ہی مکروہ حرکات کرتے ہیں۔ پارٹ ٹائم کام کرنے والوں میں زیادہ تر طالب علم، بطور سیلز مین کام کرنے والے لڑکے،ہوٹل اور گیراجوں میں کام کرنے والے لڑکے شامل ہیں جو مزید پیسوں کے حصول کیلئے کام کرتے ہیں۔ ایسے لڑکے بھی موجود ہیں جو صرف یہ کام کرتے ہیں۔ ان میں سٹریٹ چلڈرن ، یتیم، بے سہارا، گھروں سے بھاگے ہوئے بچے بھی شامل ہے جبکہ لوکل لڑکوں کی بھی کمی نہیں۔اس کام سے منسلک ہونے والے بیشتر لڑکے ایسے ہوتے ہیں جو زبردستی جنسی بد اخاقی کا شکار ہو کر بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں اور بعد ازاں اس کام کو پیسے کے حصول کیلئے شروع کر دیتے ہیں۔ جس سے مختلف بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں مگر اس کی بہتری کیلئے کوئی کام نہیں کیا جا رہا حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔تعزیرات پاکستان کی دفعہ377کے تحت لڑکوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا جرم ہے اوراس کی باقاعدہ سزابھی مقررہے۔ صرف یہی نہیں اس پیشہ سے متعلق ہر ملک اور معاشرے کے مختلف اصول و ضابطے ہیں بعض قوموں نے اسے قبول کر کے ان سے متعلق قانون وضع کر لیے اور انھیں کچھ حقوق بھی دیے جبکہ دیگر ممالک میں سخت سزائیں موجود ہیں مگرقانون کی موجودگی یا عدم موجودگی کی پروا کیے بغیر اس پیشہ کے افراد تمام دنیا میں موجود ہیں۔نو لکھا میں نو عمر لڑکو ں کو مکروہ دھندہ کے لیے استعمال کے جانے کے حوالے سے ایس ایچ او نولکھا کا کہنا تھا کہ ہم نے گزشتہ روز ایسے ہوٹلوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے لیکن ہمیں کہیں سے بھی اس طرح کا کوئی بچہ نہیں ملا۔

مزید :

علاقائی -