لوڈر رکشے
میرے دوست رضوان سنی اور حاجی اسلم بہت محنتی،جفا کش اور ایماندار انسان ہیں ان دونوں نے اپنے گزر بسر کے لیے لوڈر رکشے بنا رکھے ہیں وہ ان رکشوں کے ذریعے سارا دن کنسٹرکشن مٹیریل، فیکٹریوں کا سامان، منڈی سے سبزیاں فروٹ اور دیگر اشیاء خورد و نوش کی ترسیل کا کام کر کے سے بڑے احسن طریقے سے اپنے بچوں کا رزق کماتے ہیں اسی طرح میرے گاؤں میں تقریبا تیس کے قریب نوجوان ہیں جنہوں نے قسطوں پر رکشے لیے خوب محنت کی قسطیں بھی بروقت ادا کیں اور اپنے خاندان کی کفالت بھی کی اور آ ج وہ تمام لوگ ان رکشوں کے مالک ہیں۔
مختلف ذرائع سے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت صرف پنجاب میں پنتیس کے قریب کمپنیاں رکشے بنا رہی ہیں جن میں سر فہرست سازگار، روڈ پرنس، سپر ایشیا، نیو ایشیا، ہائی سپیڈ،سیوا اور سپر سپیڈ سمیت بہت سی چھوٹی کمپنیاں بھی اپنا حصہ ڈال رہی ہیں یہ تمام کی تمام امپورٹ ڈیوٹی،ایکسائز ڈیوٹی، سیلز ٹیکس کے علاوہ بہت سے ٹیکسز گورنمنٹ کو ادا کرتی ہیں۔
اس کالم کی ریسرچ کے دوران میں نے اپنے عزیز دوست خاور بھٹی صاحب سے رابطہ کیا جو براہ راست رکشوں کے کاروبار سے منسلک ہیں تاکہ قارئین کے لیے درست اور مستند حقائق تلاش کیے جا سکیں وہ بتا رہے تھے کہ اس وقت ایک رکشے کی قیمت جو چند سال پہلے ایک لاکھ روپے تھی بڑھ کر چار لاکھ دس ہزار تک ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود بھی نوجوان نوکریوں کی بجائے اپنا رکشہ خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں اس وقت پاکستان میں بننے والے لوڈر رکشوں کے صرف انجن چین سے امپورٹ کیے جاتے ہیں اور باقی تمام باڈی پارٹس لوکل بنائے جاتے ہیں یوں کہہ لیں کہ یہ رکشہ نوے فیصد تک پاکستانی ہے اور اس وقت صرف پنجاب میں تقریبا تین لاکھ سے زائد رکشے موجود ہیں جو بہت سے غریب گھروں کا چولھا جلانے میں اپنا موثر کردار ادا کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت پنجاب انہیں رجسٹرڈ نہیں کر رہی۔
جناب وزیراعلی کیا وجہ ہے کہ ان رکشوں کو رجسٹرڈ نہیں کیا جا رہا؟ کیا یہ حکومت کی طرف سے طے کردہ پیرامیٹرز پر پورے نہیں اتر رہے؟ کیا یہ غیر معیاری ہیں؟کیا یہ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہے ہیں؟اگر ایسا ہے تو حکومت نے ان کمپنیوں کو رکشے بنانے کی اجازت کیوں دے رکھی ہے؟ ان کے انجنوں کی امپورٹ پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی؟ ان سے امپورٹ ڈیوٹی، ایکسائز ڈیوٹی، سیلز ٹیکس کیوں وصول کیے جا رہے ہیں؟ اگر یہ غیر قانونی ہیں تو انہیں سڑکوں پر چلنے کی اجازت کیوں دے رکھی ہے؟ اگر یہ انسانی زندگی کے لیے خطرہ ہیں تو فی الفور ان کمپنیوں کو سیل کر دیا جائے اور اگر یہ قانونی بھی ہیں تمام قسم کے ٹیکسز بھی ادا کر رہے ہیں ہزاروں غریب خاندانوں کی کفالت بھی کر رہے ہیں تو پھر انہیں رجسٹرڈ کیا جائے تاکہ یہ غریب لوگ باعزت طریقے سے اپنا روزگار کما سکیں۔
ہائی وے پولیس اور ٹریفک وارڈنز یہ جانتے ہیں کہ یہ رجسٹر نہیں ہیں اس لیے یہ پسندیدہ شکار کی طرح ان پر جھپٹتے ہیں انہیں جرمانے کر تے ہیں اور کبھی کبھار تو جرمانہ کم کرنے کے لیے چائے پانی بھی وصول کر لیتے ہیں یعنی اگر کسی غریب نے وطن عزیز میں رکشہ خرید کر اپنے خاندان کی باعزت کفالت کی جسارت کی ہے تو اسے اپنے ہر پھیرے میں پولیس کے جرمانے اور چائے پانی کو مدنظر رکھنا ہوگا۔
جناب وزیراعلیٰ برائے کرم ان نوجوانوں کو باعزت روزگار کمانے کے لیے تھوڑی سی توجہ دے دیں یہ آپ کے عمر بھر مشکور رہیں گے اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں بہت سے سنیوں اور حاجی اسلمو سمیت بہت سے رکشہ ڈرائیور نوجوانوں کو آپ کی خدمت میں پیش کر سکتا ہوں ان کی پریشانیاں سنیں شاید آپ اور سی ٹی او لاہور کو ان کی حالت پر کچھ ترس آ جائے۔
جناب وزیراعلیٰ ان رکشوں کی رجسٹریشن میں سب سے بڑی رکاوٹ سوزوکی کمپنی کی جانب سے عدالتی سٹے آرڈر ہے بتایا جا رہا ہے برائے کرم آ پ عدالت عالیہ کو بتائیں کہ ہم سوزوکی اور جاپان کے غلام نہیں ہیں کہ وہ ہمیں ڈائریکشن دیں گے کہ ہمیں پنجاب میں کس سواری کو اجازت دینی ہے اور کس کو نہیں ویسے بھی چین، تھائی لینڈ، ملائشیا، ہندوستان اور بنگلہ دیش سمیت بہت سے ممالک میں یہ رکشے چل رہے ہیں محترمہ اس وقت پنجاب میں موجود تین لاکھ کے قریب رکشے غیر رجسٹرڈ ہیں اگر ایک رکشے سے دس ہزار روپے رجسٹریشن بھی لے لی جائے تو بھی کروڑوں روپے حکومت پنجاب کے کھاتے میں جمع ہوتے ہیں اور دوسرا یہ کہ جہاں سوزوکی ویگن والاپانچ ہزار روپے میں پھیرا لگاتا ہے وہیں یہ رکشے والا پندرہ سو روپے میں لے جاتا ہے اس سے ہمارے وہ تاجر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر منڈیوں سے اشیائے خورد و نوش لے کر اپنی دکانوں پر جاتے ہیں جب سے لوڈر رکشے چلے ہیں عوام نے سوزوکی ویگن کو خریدنا اور کرایہ پر لینا چھوڑ دیا ہے سوزوکی ویگن کی قیمت تقریبا بیس لاکھ کے قریب ہے جبکہ اسی قیمت میں پانچ رکشے آ جاتے ہیں جس سے پیسوں اور پیٹرول دونوں کی بچت ہوتی ہے اور جب تک انہیں رجسٹرڈ نہیں کیا جاتا برائے کرم سی ٹی او صاحب کو حکم جاری فرما دیں کہ انہیں کم سے کم جرمانے کیے جائیں تاکہ یہ بلا خوف و خطر اپنا روزگار کما سکیں۔
جناب وزیرعلی آ پ کی حکومت جب بھی آ ئی ہے آپ نے غریب عوام کے لیے ٹیکسی ویگن کیری ڈبہ کی صورت میں بہت سی سہولتیں فراہم کی ہیں لیکن اس کا انجام کیا ہوا لوگوں نے حکومت سے سستی گاڑیاں خریدیں ان کا رنگ تبدیل کیا اور اپنے ذاتی استعمال کے لیے رکھ لیں اگر آپ اور آ پ کی حکومت حقیقت میں غریبوں کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے تو اس بار بڑی گاڑیوں کی نسبت رکشے متعارف کروائیں یہ سستے بھی ہوں گے اور غریب لوگوں کو باعزت روزگار کمانے کا موقع بھی فراہم کریں گے یہ لوگ بروقت قسطیں ادا کریں گے اور یوں حکومت کی طرف سے دیے جانے والے رکشے کے ساتھ دوسرے رکشے بھی رجسٹرڈ ہونا شروع ہو جائیں گے اور جہاں آپ ایک گاڑی ایک شخص کو دیں گی اتنی ہی رقم میں پانچ رکشے دیں تاکہ زیادہ سے زیادہ بے روزگار نوجوان اس سکیم سے فائدہ اٹھا سکیں ۔