جہانگیر کرامت مستعفی ہو گئے,صدر غلام اسحاق خان بیوروکریسی کے امام تھے انہوں نے پیپلزپارٹی اور اُس کے لیڈروں کو رگید دیا  مگر اُن کے ساتھ کیا ہوا؟

 جہانگیر کرامت مستعفی ہو گئے,صدر غلام اسحاق خان بیوروکریسی کے امام تھے انہوں ...
 جہانگیر کرامت مستعفی ہو گئے,صدر غلام اسحاق خان بیوروکریسی کے امام تھے انہوں نے پیپلزپارٹی اور اُس کے لیڈروں کو رگید دیا  مگر اُن کے ساتھ کیا ہوا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:92
میاں نواز شریف اور جرنیل
جس وقت میاں نواز شریف نے وزیراعظم کی حیثیت سے جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ طلب کیا اور وہ مستعفی ہو گئے تو اس سے اگلے روز اخبارات میں سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کا ایک بیان شائع ہوا تھا۔ جس میں انہوں نے جنرل جہانگیر سے استعفیٰ طلب کرنے کو فوج کی توہین قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ فوج ایک ہاتھی کی طرح ہوتی ہے جو کبھی بھی توہین کو بھولتی نہیں ہے۔ میاں نواز شریف یا جو بھی وزیراعظم ہو اُسے اپنے اختیارات قاعدے اور قانون سے استعمال کرنے چاہئیں۔
وزیراعظم میاں نواز شریف نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کو خود ہی جائنٹ چیفس کی سٹاف کمیٹی کا چیئرمین بنایا۔ اس کے ایک ہفتہ کے بعد اُنہیں اصرار کر کے سری لنکا ایک سرکاری میٹنگ میں بھیج دیا اور اس کے بعد اُن کی غیر موجودگی میں اپنے مقرر کردہ چیف آف آرمی سٹاف کو برطرف کر کے انجینئرنگ کور سے تعلق رکھنے والے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل خواجہ ضیاء الدین کو آرمی چیف مقرر کر دیا اور ٹیلی ویژن پر اس کا بار بار اعلان بھی کرا دیا مگر فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹرز میں جنرل ضیاء الدین کو تسلیم ہی نہیں کیا گیا اور نہ ہی اُن کے لئے کوئی نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا۔ اس کی اصل وجہ وہی تھی جو جنرل اسلم بیگ بیان کر چکے تھے کہ فوج کی طرف سے اپنے سربراہ کو اس توہین آمیز انداز میں برطرف کرنے کو ادارہ کی توہین خیال کیا گیا۔
آئین میں وزیراعظم کو بہت سے اختیارات دیئے گئے ہیں مگر وزیراعظم ملک کی انتظامیہ کا سب سے بڑا سربراہ ہے وہ اگر کسی چپڑاسی کے خلاف بھی کارروائی کرنا چاہے تو اسے متعلقہ افسر انچارج کے حوالے کر دیتا ہے کہ اس کی جواب طلبی کی جائے، چارج شیٹ جاری کی جائے، انکوائری ہو پھر متعلقہ مجاز افسر کوئی کارروائی کرے۔ یہ ایک طریق کار ہے۔ آپ اس ملک کے ایک باعزت شہری، خصوصاً آرمی چیف کو اس طرح گردن سے پکڑ کر سڑک پر نہیں پھینک سکتے۔ آپ امریکی صدر روز ویلٹ کی طرح فور سٹار جنرل کو اپنے سامنے کرسی پر بٹھائیں۔ اُس کو چارج شیٹ کریں اور اُس کے جواب کا انتظار کریں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کا ایک آئینی عہدیدار آپ کے کہنے پر کسی دوسرے ملک کا مہمان بنے اور آپ جہاز چلانے والے کو یہ حکم دیں کہ اسے لے کر دشمن ملک میں اتار دیں۔ کہیں پھینک دیا جائے…… جی نہیں آپ کو قانون اور آئین کے تمام تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔
عام لوگ اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ میاں نواز شریف جو کہ جنرل ضیاء الحق اور دیگر جرنیلوں کی مہربانیوں سے سیاست میں آئے , اس کے باوجود میاں نواز شریف فوجی افسروں اور اداروں کو اپنا دوست نہیں بنا پائے۔ گورنر پنجاب جنرل (ر) غلام جیلانی خان اُن کے دوسرے بڑے سرپرست تھے۔ جنرل ضیاء الحق اپنی فوجی ٹیم کے ساتھ ایک سازش کا شکار ہو گئے۔ یہ واقعہ پنجاب کی حدود میں ہوا اور اس کی بنیادی تحقیقات میں آج تک بے پناہ تشنگی پائی جاتی ہے۔ صدر غلام اسحاق خان بیوروکریسی کے امام تھے اور انہوں نے پیپلزپارٹی اور اُس کے لیڈروں کو رگید دیا مگر اُن کے ساتھ کیا ہوا؟ اسی طرح آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے آئی جے آئی بنائی اور بڑے اہتمام سے اس کی لیڈرشپ کی پرداخت کی ۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -