گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 58
’’کچھ کرو یا مر جاؤ‘‘ کی صدائے بازگشت 1945ء میں سان فرانسسکو میں بھی سنائی دی۔ یہ اقوام متحدہ کا پہلا اجلاس تھا جس میں سرراما سوامی مدلیئر کے ساتھ میں نے ہندوستان کی نمائندگی کی تھی۔ انڈین کانگریس پارٹی کے بعض لیڈر مثلاً مسز پنڈت اور سید حسین جو سان فرانسسکو میں موجود تھے، سر راما سوامی اور میرے خلاف یہ پروپیگنڈہ کررہے تھے کہ ہم دونوں ہندوستان کی نمائندگی نہیں کرتے۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف یہ رسوا کن پروپیگنڈہ کم از کم ایک غیر ملک میں تو نہ کریں۔ پھر میں نے کہا کہ ہندوستان کی آزادی کے لئے ہم بھی اتنے ہی بے چین ہیں جتنے کہ آپ۔ ساتھ ہی میں نے مشورہ دیا کہ ہمیں ہندوستان کی بھلائی کیلئے کام کرنا چاہیے اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی روش ترک کردینی چاہیے۔ انہوں نے ہم سے اتفاق کیا لیکن جلد ہی وہ لوگ اس فیصلے سے مکرگئے اور انہوں نے ہمارے ہوٹل مارک ہوپکنز میں ایک اخباری کانفرنس منعقد کی۔ مجھے معلوم تھا کہ پاکستان کے بغیر ہندوستان کی آزادی ہم مسلمانوں کی آزادی نہ تھی اور ہماری رائے میں کانگریس پارٹی کی کامیابی مسلمانوں کی تباہی کے مترادف تھی۔ مجھ سے یہ نہیں ہوتا تھا کہ آرام سے بیٹھا رہوں اور عالمی اخبارات کے سامنے کانگریس کو اپنا پروپیگنڈہ بے روک ٹوک کرنے دوں۔ ہمیں اس اجلاس میں شرکت کے لئے کوئی موزوں آدمی نہ مل سکا تاہم ہمارے ایک بہادر سٹینو گرافر نے وہاں جانے اور ایک بے ڈھب سوال کرنے کا تہیہ کرلیا۔ اس نے ان سے پوچھا ’’کیا یہ حقیقت ہے کہ جب جاپانیوں کے ہاتھوں امریکیوں کا قتل ہورہا تھا، اس وقت تمہاری پارٹی کے لیڈر نے ’’کچھ کرو یا مرجاؤ‘‘ کا نعرہ بلند کرکے امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کی پشت میں چھرا گھونپ دیا تھا؟‘‘ کانگریس کے نمائندے اس سوال پر بھونچکے رہ گئے۔ اس میں سے ایک شخص نے اس شخص سے پوچھا کہ آپ کیا اخباری نمائندے ہیں؟ اس نے جواب دیا نہیں۔ اس پر جلسہ کے صدر نے اس سے کہا کہ آپ ہال سے باہر نکل جائیں۔ جب وہ باہر نکل رہا تھا تو تمام کمرے کھٹا کھٹ اس کی تصویر کھینچ رہے تھے پھر تو اس شخص کو وہ شہر ت ملی کہ کیا کسی کو ملے گی۔ اس واقعہ کے بعد اسے متعدد جگہوں پر مدعو کیا گیا لیکن اسے اپنی شخصیت بدلنے کے لئے ڈاڑھی منڈوانی پڑی۔ جب وہ دہلی واپس آیا تو کانگریس پارٹی کے متوقع اقتدار کا اندازہ کرتے ہوئے کوئی شخص اسے اپنے دفتر میں ملازم رکھنے کا روادار نہ تھا۔ انجام کار میں نے دہلی کے کمشنر کو جو میرے دوست تھے، اس بات پر آمادہ کیا کہ اسے محکمہ خوراک میں ملازم رکھ لیں۔ بعد میں اسے یہ ملازمت ترک کرنی پڑی اور بالآخر کناٹ پیلس میں اس نے دکان کھول لی۔ جب ہندوستان کی تقسیم عمل میں آئی تو اس کا اسی ہزار روپیہ کا سامان لوٹ لیا گیا اور اسے مار مار کر ادھ موا کردیا۔ اس کے چہرے پر تلوار کا ایک نشان اب بھی صاف نظر آتا ہے۔ یہ شخص آج کل پاکستان کا شہری ہے۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 57 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مجھے ہندوستان واپس آنے پر اخبارات کی زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ معلوم ہوا کہ ہندو اخبار نویسوں نے نہایت اشتعال انگیز اور مسخ شدہ خبریں میرے بارے میں یہاں بھیجی تھیں۔ حد تو یہ ہے کہ مسلمان اخبارات بھی جو آزادی کا ڈھول پیٹ رہے تھے، اس پروپیگنڈے کے نتائج و عواقب سے بے خبر تھے جو کانگریس کے ان اہم اور انتہائی بااثر نمائندوں نے اقوام متحدہ کے پہلے اجلاس میں کیاتھا۔
کابینہ نے مجھے 1944ء میں مہاراجہ کشمیر کے ساتھ لندن بھیجا۔ مہاراجہ ہندوستانی ریاستوں کی نمائندگی کررہے تھے اور میں برطانوی ہند کا نمائندہ تھا۔ کینیڈا کے میکنزی کنگ، جنوبی افریقہ کے جنرل سمٹس، آسٹریلیا کے لیبر وزیراعظم منسٹر کرٹن، ان کے علاوہ شاہ جارج ششم، مسٹر چرچل اور مہاراجہ کشمیر، جنوبی رہوڈیشیا کے ڈاکٹر ہگنس اور نیوزی لینڈ کے مسٹر فاش یہ ساری شخصیتیں، جن کی تصویر میری آرام گاہ میں رکھی ہیں، ایک ایک کرکے اللہ کو پیاری ہوچکی ہیں۔ 1945ء کی جنگی کابینہ کا پس ماندہ، ایک میں ہی زندہ رہ گیا ہوں۔
ایک دن ہمیں وزیراعظم مسٹر چرچل کی طرف سے کابینہ کے ایک اجلاس میں اچانک طلب کرلیا گیا۔ مسٹر چرچل نے بتایا کہ برطانوی فوجیں امریکی فوجوں کیساتھ مل کر آج رات نارمنڈی پر حملہ کریں گے۔ میں رات کو خاص دیر تک بیٹھا نارمندی میں ان کے بہ حفاظت پہنچنے کی دعائیں مانگتا رہا لیکن حملہ اس رات نہیں ہوا بلکہ اس کے دو دن بعد ہوا۔
مسٹر چرچل اپنے اجلاس ایک گہری زمین دوز پناہ گاہ میں منعقد کرتے تھے لیکن جرمنی کے وی ون طیاروں سے جو ہوا باز کے بغیر پرواز کرتے تھے، یہ جنگیں بھی محفوظ نہ تھیں۔ میزائل کے ذریعہ بمباری کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ ہم میں سے ہر شخص ایک ایک دن گن گن کر گزاررہا تھا۔ ہر صبح نیند سے بیدار ہوکر اور اپنے آپ کو جیتا جاگتا اور صحیح سالم پاکر ہم اپنے ستاروں کو دعا دیتے تھے۔ پائلٹ کے بغیر اڑنے والے ان طیاروں سے ایک دفعہ میں مرتے مرتے بچاتھا۔ میں لندن کے ہائیڈپارک ہوٹل میں مقیم تھا اور میرے کمرے سے پارک کا منظر نظر آتا تھا۔ ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ میری والدہ جو ان دنوں ہندوستان (اب پاکستان) کے دیہی مکان میں رہتی تھیں، مجھ سے کہہ رہی ہیں ’’میرے بیٹے! میری دعا قبول ہوگئی۔ تم میرے پاس بحفاظت پہنچ جاؤ گے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی۔ گھڑی دیکھی تو اس وقت صبح کے تین بج رہے تھے۔ سہ پہر کو کھانا کھانے کے بعد میں تین بجے کے قریب ریڈیو کے مختلف سٹیشن چلارہا تھا کہ اچانک یوں لگا جیسے کوئی کہہ رہا ہے کہ ’’اے احمق! تو باہر کیوں نہیں دیکھتا۔ ہوائی حملے کے خطرے کا اعلان ہورہا ہے۔‘‘ میں نے فوراً سوئچ بند کیا اور یہ دیکھنے کے لئے کہ باہر کیا ہورہا ہے، کھڑکی طرف دوڑا۔ میں نے دیکھا کہ ایک وی ون، جس کے انجن ندار وہیں ہمارے مکان کی کھڑکی سے بمشکل تین چار سو فٹ دور، پارک کی طرف نہایت تیزی سے اُڑتا چلا آرہا ہے۔ مجھے صرف اتنی مہلت مل سکی کہ کھڑکی کھلی چھوڑ کر کمرے کے وسط میں آجاؤں اور اوندھے منہ زمین پر گرپڑوں۔ میں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں، پیٹ کو فرش سے اوپر اٹھالیا اور انتظارکرنے لگا کہ دیکھیں کیا قیامت گزرتی ہے۔دفعتاً ایک زور کا دھماکہ ہوا۔ برآمدے کا دروازہ جس کی کنڈی بند تھی، دیوار سے کھسک گیا اور کمرے میں میرے سر سے بمشکل ایک فٹ کے فاصلے پر آکر گرا۔ چھت کے ریزے فرش پر گرنے لگے اور پورا کمرہ غبار سے اَٹ گیا۔ میں نے یہ دیکھنے کے لئے اپنی آنکھیں کھولیں کہ زندہ ہوں یا مرچکا، لیکن نہیں۔ میں نہ صرف زندہ تھا ، بلکہ مجھ میں اتنی طاقت بھی تھی کہ اپنے پاؤں پر چل کر برآمدے میں پہنچا اور دو بوڑھی عورتوں کی چائے سے تواضع بھی کی، جو ادھر سے حیران و پریشان یوں بھاگ رہی تھیں، جیسے چڑیا گھر کے پنجرے میں خوفزدہ ہرنیاں فرار کی راہ ڈھونڈتی ہوں۔
مجھے یہ پختہ یقین تھا کہ میری والدہ کی روح میرے پہلو میں، ریڈیو کے پاس آکر کھڑی ہوگئی تھی اور اسی نے مجھے کھڑکی تک بھیجا تھا، ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ میں جو ریڈیو پر موسیقی کی دھنیں سن رہا تھا، اچانک اور بے سبب ریڈیو بند کردیتا۔ کیا ایک زندہ انسان کی روح ساڑھے چار ہزار میل کا فاصلہ طے کرسکتی ہے؟ یا میری والدہ میں اتنی روحانی طاقت تھی کہ اس قدر طویل فاصلہ کے باوجود، انہوں نے مجھے خطرے سے آگاہ کردیا۔ بہرحال دونوں صورت میں کسی نادیدہ طاقت نے اپنا کام کیا تھا۔ میں جب زیریں منزل پر پہنچا تو کسی نے مجھے بتایا کہ ایک صاحب اور ان کی اہلیہ ہال میں دروازے کے پاس کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ وہ اسی طرح اپنی اپنی نشست پر مردہ پائے گئے۔ ان کی آنتیں منہ کے راستے باہر نکل آئی تھیں۔ برطانیہ کے شہروں میں لوگوں پر جو کچھ گزری تھی، اس کا اندازہ میرا خیال ہے، باہر کے لوگوں کو نہیں ہوسکتا۔
ایک دن کا ذکر ہے کہ میں اپنے ایک دوست سٹینلے کا کسن کے دیہی مکان کے لان میں کھڑا تھا۔ وہ بکنگھم شائر میں فرمنہم کامن کے مقام پر رہتے تھے اور میں ہفتہ کے آخری ایام میں اکثر ان سے ملنے جاتا تھا۔ اچانک ہم نے دیکھا کہ پائلٹ کے بغیر ازخود اڑنے والا جرمن طیارہ ہمارے سروں کے اوپر سے گزررہا ہے۔ ہم اسے خاصے فاصلے سے دیکھ رہے تھے۔ طیارہ کوئی 10 میل دور جاکرگرا۔ میں لندن والوں کے اس مزاح کو آج تک فراموش نہیں کرسکا ہوں۔ ایک کارٹون میں لندن کے دو شہریوں کو دکھا گیا تھا کہ وہ وی ون طیارہ جسے ’’ڈوڈل بگ‘‘ کا نام دیا گیا تھا، کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے ایک شخص اپنے ساتھی سے پوچھ رہا تھا کہ آخر یہ اتنی عجلت میں کیوں ہے؟ دوسرا جواب میں کہہ رہاتھا۔ دیکھتے نہیں اس کے پچھلے حصے میں آگ لگی ہوئی ہے۔
1945ء میں جب یورپ میں امن کا اعلان ہوا تو جیسا کہ میں نے قبل ازیں لکھا ہے، امریکہ میں سان فرانسسکو کے مقام پر اقوام متحدہ کے افتتاحی اجلاس میں ہندوستان کی نمائندگی کے لئے وائسرائے لارڈویول اور ان کی کابینہ نے سرراما سوامی مدلیئر کے ساتھ مجھے بھی منتخب کیا۔ میں نے وائسرائے سے کہا ’’مجھے امید ہے کہ کانگریس ہماری عدم موجودگی میں حکومت پر قبضہ کرکے ہمیں واپس نہیں بلائے گی اور اگر ایسا ہوسکتا ہے تو میں وہاں جانے کو تیار نہیں۔‘‘
وائسرائے نے میز پر زور سے ہاتھ مارا اور کہا ’’کانگریس برسراقتدار نہیں آتی‘‘ میں ابھی لندن سے روانہ نہیں ہوا تھا کہ لارڈویول وہاں پہنچ گئے۔ یہ مجھے پہلے ہی معلوم ہوگیا تھا کہ کانگریس کے ساتھ بات چیت شروع ہوچکی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ لیبر پارٹی کے طرز عمل کا اندازہ لارڈویول کو بھی نہیں تھا۔ ہم نے سان فرانسسکو جاتے ہوئے ایک رات ٹورنٹو میں قیام کیا۔ نیوزی لینڈ کے وزیراعطم مستر فاش اور میں ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ میں رات گئے ہوٹل واپس آیا تو ملزم نے مجھے غلط چابی دے دی یعنی کمرہ نمبر 312 کے بجائے کمرہ نمبر 412 کی چابی۔ میں کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا مسٹر فاش بیٹھے ایک کتاب پڑھ رہے ہیں۔ شکر ہے کہ ان کی بیوی ہمراہ نہیں تھیں۔ ورنہ مجھے کہیں زیادہ خفت کا سامنا ہوتا۔ اس تجربے سے میں نے یہ سبق سیکھا کہ اپنی قیام گاہ سے نکلنے کے بعد چابی ہمیشہ اپنے پاس رکھنی چاہیے۔(جاری ہے)