26ویں آئینی ترمیم

26ویں آئینی ترمیم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

صدر آصف علی زرداری نے 26 ویں آئینی ترمیم کے منظور شدہ مسودے پر دستخط کر دیئے، اس کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔  حکومت اور اُس کی اتحادی جماعتیں آئینی ترمیم کرانے میں کامیاب ہو گئیں،کابینہ کے بعد سینیٹ اور قومی اسمبلی نے بھی اِس کی منظوری دے دی۔ سینیٹ میں ترامیم پیش کی گئیں تو اِس کے حق میں 65 جبکہ مخالفت میں چار ووٹ آئے، قومی اسمبلی میں ترامیم کی منظوری کے لئے دوتہائی اکثریت درکار تھی یعنی کل 224 ووٹ چاہئے تھے، وہاں 225 ووٹ حق میں پڑے جبکہ مخالفت میں صرف 12 ووٹ ڈالے گئے۔ سینیٹ میں حکومتی اتحاد کے 58، جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے پانچ اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)کے دو ارکان حق میں ووٹ ڈالنے والوں شامل تھے جبکہ قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد کے علاوہ جے یو آئی اور اپوزیشن کے بعض اراکین نے حمایت میں ووٹ دیا۔  پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) دعویٰ کر رہی تھی کہ ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والوں کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ وہ آزاد اراکین ہیں، اُنہوں نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا۔اتوار کو سینیٹ کے بعد رات گئے قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس کی صدارت سپیکر ایازصادق نے کی، نوید قمر نے معمول کی کارروائی معطل کرنے کی تحریک پیش کی جسے ایوان نے منظورکر لیا۔ وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26ویں آئینی ترمیم کے چیدہ نکات بیان کرتے ہوئے تحریک پیش کی اور اِسے عدالتی اصلاحات سے تشبیہ دی۔ عدالتی معاملات کے علاوہ جے یو آئی کی سود کے خاتمے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نبٹنے کے لیے صاف ہوا کو بنیادی انسانی حق قرار دیے جانے سے متعلق تجاویز کو بھی ترامیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ان آئینی ترامیم کے تحت سپریم کورٹ کا آئینی بینچ تشکیل دیا جائیگا، جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تقرر کرے گا، آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے اور آرٹیکل 184 کے تحت آئینی بینچوں کے پاس ازخود نوٹس کا اختیار ہوگا۔  چیف جسٹس کے تقرر کے لیے 12 رُکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنے گی، اِس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی متناسب نمائندگی ہوگی،چار قومی اسمبلی اور چار ہی ارکان سینٹ سے لئے جائیں گے۔ یہ کمیٹی سپریم کورٹ کے  تین سینئرترین ججوں میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی، اِس کی سفارش پرچیف جسٹس کا نام وزیراعظم صدرِ مملکت کو بھجوائیں گے، کسی جج کے انکارکی صورت میں اگلے سینئرترین جج کا نام زیرِ غور آئے گا، کمیٹی کا اجلاس اِن کیمرہ ہوگا۔ چیف جسٹس کی مدت تین سال ہوگی لیکن اگر چیف جسٹس مدت مکمل ہونے سے پہلے ان کی عمر  65 سال ہو گئی تو وہ پہلے ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔ اب چیف جسٹس کے پاس سومو نوٹس لینے کا اختیار نہیں رہا اور ججوں کی ترقی کارکردگی کی بنیاد پر ہوگی۔ ترمیم کے مطابق چیف الیکشن کمشنر مدت ختم ہونے کے بعد نیا چیف الیکشن کمشنر تعینات ہونے تک اپنے عہدے پر موجود رہیں گے، آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 4 میں ترمیم کے تحت صدرِ مملکت، کابینہ اور وزیرِاعظم کی طرف سے منظور کردہ ایڈوائس کو کسی عدالت یا ٹربیونل میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا، آرٹیکل 111 میں تجویز کردہ ترمیم کے تحت ایڈووکیٹ جنرل کے ساتھ ایڈوائزر بھی قانونی معاملات پر صوبائی اسمبلی میں بات کرنے کے مجاز ہوں گے، عدلیہ کو استدعا سے زیادہ کسی آئینی معاملے پر حکم یا تشریح کا اختیار نہیں ہوگا۔ آرٹیکل 179 میں ترمیم کے تحت چیف جسٹس پٹیشن سے متعلق ہی نوٹس جاری کر سکتے ہیں۔ آرٹیکل 215 میں بھی ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل 13 ممبران پر مشتمل ہوگی، چیف جسٹس سپریم کورٹ جوڈیشل کمیشن کے سربراہ ہوں گے، چار سینیئر ترین ججوں اور ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس یا جج کے علاوہ وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کے سینئر وکیل کمیشن کا حصہ ہوں گے۔ ججوں کی تقرری سے متعلق جوڈیشل کمیشن میں چار اراکین پارلیمنٹ بھی شامل ہوں گے، دو اراکین قومی اسمبلی اور دو سینیٹ سے لیے جائیں گے جن میں سے دو کا تعلق حکومتی بینچ اور دو کا حزب اختلاف سے ہو گا، حکومت کی طرف سے اراکین کے نام وزیراعظم تجویز کریں گے جبکہ دوسری طرف اپوزیشن لیڈر یہ کام کریں گے، حکومت نے ججوں کی تقرری سے متعلق آرٹیکل 175۔اے میں بھی ترمیم کی ہے جس کے تحت جوڈیشل کمیشن جو پہلے صرف تقرری کرتا تھا اب ہائی کورٹ اور شریعت کورٹ کے ججوں کی کارکردگی کا جائزہ بھی لے سکے گا۔

موجود چیف جسٹس رواں ماہ کی 25 تاریخ  کو سبکدوش ہو جائیں گے اور اس سے پہلے نئے چیف جسٹس کا تقرر ہونا ہے،جس کے لئے آئین کے آرٹیکل 175۔اے کی ذیلی شق 3 کے تحت چیف جسٹس نے آج رات تک تین نام پارلیمانی کمیٹی کو بھجوانے ہیں جو کہ اِن میں سے ایک جج کا نام فائنل کر کے وزیراعظم کو بھیجے گی جس کی حتمی منظوری صدر مملکت دیں گے۔ اگر موجودہ تین سینئر ترین ججوں میں سے کسی نے انکار نہ کیا تو جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحیٰ آفریدی میں سے کوئی ایک نئے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھال لیں گے۔واضح رہے کہ چیف جسٹس کی تعیناتی کیلئے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔

چھبیسویں آئینی ترمیم کے بارے میں بہت سی باتیں کی گئیں، اسے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی مدت ملازمت بڑھانے کا ذریعہ قرار دیا جا رہا تھا، اتنا شور مچا کہ چیف جسٹس صاحب  کو واضح کرنا پڑا کہ وہ کسی قسم کی ایکسٹینشن نہیں لیں گے۔ان کو روکنے کے لئے پاکستان تحریک انصاف نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا،احتجاج کئے، دھرنے دئیے، ریلیاں نکالیں لیکن حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں نے مذاکرات کا راستہ اپنایا۔ گزشتہ کئی روز سے رات گئے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا، مولانا فضل الرحمان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے بار بار لوگ ان کے پاس جا رہے تھے، بات چیت ہو رہی تھی۔ مولانا نے مسودے کا مکمل مطالعہ کیا، اس کا تجزیہ کیا، تجاویز بھی دیں اور بالآخر اتفاق رائے ہو گیا۔اب مختلف حلقوں میں طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں، کوئی اِسے پارلیمانی فتح قرار دے رہا تو کسی کے نزدیک شب خون مارا گیا، رات کی تاریکی میں ترامیم کی بات کی گئی۔اب کوئی کچھ بھی کہے ترامیم تو ہو گئیں اور بحیثیت مجموعی دونوں ایوانوں میں ماحول پُر اَمن ہی رہا، زیادہ شور شرابا نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی بد مزگی ہوئی۔ امید افزا بات یہ ہے کہ مذاکرات کے ذریعے سب کچھ طے ہو گیا۔پاکستان تحریک انصاف کو بھی اِس طرف غور کرنا چاہئے، ہر وقت احتجاج اور دھرنے دینے والا رویہ ترک کر کے جمہوری طریقہ اپنائے، گفتگو کرے بڑے سے بڑا مقصد بھی حاصل کرنے کے لئے مل بیٹھنا، بات کرنا، کچھ اپنی سنانا کچھ دوسرے کی سننا ضروری ہے، ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا لینے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔

مزید :

رائے -اداریہ -