سینتیسویں قسط۔ ۔ ۔بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ
سلطان شہاب الدین ابھی خالصہ ہی پر تھا کہ گشت کے سواروں نے دشمن کی فوج کے گھسیارے اور لکڑ ہارے جنگل سے پکڑ کر حاضر کئے سواروں کو انعام دے کر رخصت کیا اور حکم دیا کہ جو کچھ مانگیں انہیں کھلاؤ پلاؤ۔ ان میں دوبٹہ سے ہشیار اور تجربہ کار نکلے کہ جن سے لشکر کے اوتارے کا رخ۔ فوج کی تعداد پیچھے کی رسد کے بندوبست غرض ڈیرے ڈیرے کا حال معلوم کر لیا۔ تمام رات فوج کی تقسیم اور مورچوں کی تقرری میں گزری ۔ پچھلی رات تھی کہ کمر بندی کا حکم پہنچا صبح ہوتے ہوتے تمام لشکر کیل کانٹے سے لیس ہو کر میدان میں جم گیا۔ آگے پیچھے دائیں بائیں ہر ایک سردار اپنی فوج کو سنبھالے تھا اور وہ خود شمشیر اصفہانی کمر میں باندھے۔ پشت پر سپر، کندھے پر کمان، زین پر علم کے سایہ کے نیچے نیزہ تانے کھڑا تھا۔ اسپ عربی جس پر پوست پلنگ کی پاکھر پڑی تھی زانوؤں میں سے نکلا جاتا تھا۔ اور ادھر دشمن کے لشکر میں پہلے ہاتھیوں کی قطار، بعد اس کے رتھیں، پلٹیں اور پیادہ و سوار فوج تھی کہ جس کا شمار سوائے منشی تقدیر کے کسی کو معلوم نہ تھا۔ ہاں سلسلہ انتظامہ اسکا خاص ایک شخص کی چٹکی میں تھا کہ جدھر چاہے ادھر جھونک دے۔ وہ تھا راجہ پتھورا جو سورج مکھی کے سایہ میں ہاتھی پر بیٹھا تھا اور دونوں لشکروں پر نظر تھی اور غور سے دیکھا رہا تھا آخر نہ رہ سکا اور تڑپ کر ہاتھی سے کود کر گھوڑے پر سوار ہوا۔ بھائی کو ہاتھی پر بٹھا دیا۔خود وہ دکنی گھوڑے کو اڑاتا سپاہ گری کا بانکپن دکھاتا، بہا لے کے ہاتھ، نکالتا ہوا دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں تک ایک چکر لگایا اور ایک لشکر کے سامنے کھڑے ہو کر اہل لشکر کے دلوں کو اس طرح بڑھایا کہ’’راجپوتوں کے سپوتو، پہاڑوں کے افغان فوج کا سامنا ہے یہ سب مسلمان ہیں اور ست دھرم کے بھر شٹ کرنے پر کمریں باندھ باندھ کر آئے ہیں ابھی تمہاری سرحد پر کھڑے ہیں اگر ہمت کریں تو کچھ نہیں۔ خرگوشوں کی طرح جھاڑیوں میں بھگا بھگا کر مارلو گئے اور اگر ایک قدم تمہارا پیچھے ہٹا تو ان کے پاؤں تمہارے گھروں میں اور ہاتھ ننگ و ناموس تک پہنچ جائیں گے۔آج دھرم گیان کی لاج تمہاری تلوار کی باڑھ پر ہے۔ مارو، مارو، دم نہ لو اور جانے نہ دو۔‘‘ راجہ ابھی یہ تقریر تمام نہ کر چکا تھا کہ اتنے میں لشکر شاہی کے بائیں ہاتھ پر جو افغان اپنے پیر جمائے کھڑے تھے آگے بڑھے اور خلجی افغانوں نے بھی باگیں اٹھا لیں۔ انہیں دیکھ کر راجپوت بہادروں کے سپوت بھی جن کی تلواریں میانوں میں بجلی کی طرح تڑپی جاتی تھی۔ ہاتھیوں کی صف کو چیر کر نکل آئے اور تیر برساتے ہوئے دوڑے اور ایک دم میں برچھیوں پر لے لیا جب یہ حال دیکھا تو افغان پیچھے ہٹے۔ اور خلجیوں کی فوج نے بھی گھونگھٹ کھایا۔ (خلجی نام قوم افغان ہے) مگر شہاب الدین بے سپاہ قلب میں اسی طرح جما ہوا تیر مارے جاتا تھا جو ایک ساتھی نے آخر عرض کی کہ افغانوں نے پیٹھ دکھائی، جن سرداروں سے پسینے کی جگہ خون گرانے کی امید تھی وہ جان بچا کر بھاگ گئے دشمن چڑھتا چلا آتا ہے۔ حضور اب کس کی راہ دیکھتے ہیں برائے خدا گھوڑے کی باگ پھیرئیے۔ اب لاہور میں پہنچ کر دشمنوں کا بندوبستقرار واقعی ہو جائے گا۔ یہ سنتے ہی بادشاہ شلعہ کی طرح بھڑک اٹھا۔ جو رہی سہی بقایا فوج تھی اس کو سمیٹ کر للکارا اور گھوڑے کو ایڑھ لگا کر برق کی طرح دشمن پر جا پڑا اور نیزہ و شمشیر سے گزر کر فقط خنجر و کٹار کی نوبت آگئی۔
چھتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اتنے میں کہانڈے راؤ کی نظر بادشاہ پر پڑی اس نے فیلبان کو آواز دن کہ خبردار جانے نہ پائے۔ا س نے ہاتھی کو ریلا ۔ سلطان شہاب الدین بھی چمک کر اس طرح جھپٹا کہ گھوڑے کے دونوں پیر ہاتھی کے اوپر پہنچے اور اس کے منہ میں ایسا نیزا مارا کہ دانت ٹوٹ گئے مگر خود بھی کاری زخم کھایا۔ ڈگمگا کر گھوڑے سے گرا چاہتا تھا کہ ایک سپاہی باوفا، جست کرکے پیچھے جا بیٹھا اور گھوڑااڑا کر برق کی طرح نظروں سے غائب ہوگیا۔ غرض کے بھاگے پھٹکے سپاہی اور ٹوٹا پھوٹا لشکر لاہور میں واپس پہنچا اور یہاں کے علاقے کا بندوبست غزنی کو روانہ ہوگیا۔
اس لڑائی میں تماشہ یہ ہوگیا کہ جن جن سرداروں کو بہادری و جاں نثاری کے بڑے برے دعوے تھے اور بادشاہ کو بھی ان پر بھروسا تھا وہی میدان جنگ سے بھاگ گئے تھے۔ چنانچہ غزنی میں پہنچ کر علماء سے فتویٰ طلب کیا کہ جو مسلمان جہاد سے بھاگے اس کے لیے کیا حکم ہے۔ سب نے لکھا کہ وہ مجرم خدا ہے ۔بادشاہ نے حکم شرع ہاتھ میں لیا اور تمام سرداروں کو گرفتار کرکے جو اور چنے گھوڑوں کے توبروں میں ڈالکر انہیں چڑھوا دیئے۔ اور بازاروں میں گھمایا۔ تاکہ خاص و عام عبرت پکڑیں۔ اور جو نہ کھائے اس کا سر الگ۔ پھر یہ سزا تو معاف ہوگئی ۔(جاری ہے)
اٹھتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔