پتھر کا زمانہ بمقابلہ علم کا اندھیرا

پتھر کا زمانہ بمقابلہ علم کا اندھیرا
پتھر کا زمانہ بمقابلہ علم کا اندھیرا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ہم جیسے کم علموں کو پتھر کے زمانے کا کوئی علم نہیں تھا کہ وہ زمانہ کیا تھا اور کب تھا۔ اس زمانے کو پتھر سے کیوں منسوب کیا جاتا ہے؟ بھلا ہو امریکی صدر بش جونیئر کا جس نے ہمیں بتایا کہ کوئی پتھر کا زمانہ بھی ہوتا تھا۔ 2001ء میں 9/11 ہوا،جس میں دو امریکی عمارتیں تباہ ہونے سے ان کے اندر کام کرنے والے تین چار ہزار لوگ بھی جاں بحق ہو گئے، جس سے امریکہ بہادر غصے سے آگ بگولہ ہوا اور امریکی صدر نے اسی لہجے میں فون کا ریسیور اُٹھایا اور اس وقت کے ہمارے صدر جنرل پرویز مشرف کو کھڑکا دیا، چھوٹتے ہی بولے کہ ہمارے ساتھ ہونا ہے یا پتھر کے زمانے میں جانا ہے؟ ظاہر ہے کہ ہمارے صدر صاحب نے ساتھ کا وعدہ کرنے سے پہلے پتھر کے زمانے کا احوال پوچھا ہو گا کہ وہ زمانہ کیسا تھا یا اب ہم اس زمانے میں پہنچیں گے تو کیسا ہو گا، بہرحال ہمارے صدر صاحب نے پاکستانی عوام کا فائدہ اسی میں سمجھا کہ ہم امریکہ کا ساتھ دیں۔ ہماری عافیت اسی میں تھی کہ ہم امریکہ کے سامنے یس سر کریں اور پتھر کے زمانے سے بچیں اور ساتھ کچھ ڈالر بھی اینٹھ لیں، کیونکہ ہمیں ڈالر کی کمی کا سامنا ہر دور میں رہا ہے۔ ڈالروں ہی کی ضرورت کے تحت ہم نے سوویت یونین کے خلاف جنگ میں بھی ہراول دستے کا کام سرانجام دیا تھا۔ ہم بات کر رہے تھے پتھر کے زمانے کی تو ستمبر 2001ء میں ہمیں پتا چلا کہ کوئی زمانہ پتھر کا بھی ہوتا تھا۔ اس وقت انسانوں کا سب سے بڑا ہتھیار پتھر ہی ہوتا ہو گا، انسان دور سے ہلکے پتھر کے ساتھ اُڑتے پرندوں کا شکار کرتا ہوگا اور بھاری پتھر کا قریب سے نشانہ لگا کر جنگلی جانوروں کا شکار کر لیتا ہو گا۔ شاید دھوپ میں پڑے پتھروں پر بار بی کیو بھی کیا جاتا ہو گا۔

کچھ تاریخ دان یہ بھی بتاتے ہیں کہ انسان نے پتھر سے پتھر ٹکرا کر آگ جلانا سیکھی تھا اور اس کے بعد کھانا پکا کر کھانا شروع کیا تھا۔ اب اُس زمانے پر مزید غور کیا جائے اور پھر آج کے علمی زمانے کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پتھر کا زمانہ انسانوں کے لئے اتنا نقصان دہ نہیں تھا جتنا آج کا زمانہ ہے۔ علم کا اندھیرا جسے ہم عرف عام میں علم کی روشنی فرماتے ہیں۔ یہ ظلمت کا زمانہ لگتا ہے۔اس علم کی روشنی نے ہمیں انسانوں کو ناحق قتل کرنا سکھایا ہے؟ فلسطین میں کیا ہو رہا ہے؟ کیا یہ ناحق خون نہیں بہایا جا رہا؟ کیا فلسطینی بچوں نے کوئی غلط کام کیا ہے یا ان بچوں کی ماوں کی کوئی خطا ہے کہ ان کے خون کی ندیاں بہا کر دریاوں کا رنگ سرخ کر دیا گیا ہے۔ کیا یہ علم کا اندھیرا نہیں کہ پوری دنیا میں کسی کو بھی یہ نسل کشی نظر نہیں آ رہی ہے؟ پتھر کے زمانے میں بھی لوگ لڑتے رہے ہوں گے، کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ آدم کے بیٹے نے بھائی کو قتل کر کے یہ ثابت کر دیا تھا کہ انسان یا تو جاہل ہے یا پھر انتہائی لالچی ہے، لیکن پتھر کے زمانے میں لوگ ہاتھ سے لڑتے ہوں گے یا پھر کوئی ڈنڈا سوٹا چلاتے ہوں گے اور اگر نوبت بھاری ہتھیاروں تک پہنچ جاتی ہو گی تو پھر پتھروں کا استعمال ہوتا ہو گا،جس سے کئی ہفتوں کی لڑائی میں شاید دس بیس لوگوں کو قتل کیا جاتا ہو گا اور آج یہ علم ہی کا فیض ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ اگر دو ممالک ایک دوسرے پر ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کر دیں تو چند ماہ میں اربوں انسان لقمہ اجل بن جائیں گے اور یہ جنگ مزید پھیلی تو اس زمین سے انسانوں کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے۔ تو پھر یہ علم کی روشنی، یا علم کا اندھیرا ہے؟ ہم مانتے ہیں کہ دنیا میں علم نے بہت فائدے بھی دئیے ہیں۔ کئی ایسے اللہ کے بندے سائنسدان ہیں جنہوں نے لاتعداد بیماریوں کا اپنے علم سے خاتمہ کیا ہے۔ کئی بیماریوں کی ویکسین بنا کر کروڑوں انسانوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا ہے۔ ہمیں روشنیاں دی ہیں۔ ہمارے مہینوں کے سفر کو گھنٹوں میں بدلا ہے۔ ہمارے پیغام رسانی کے نظام کو اس قدر جدت دے دی ہے کہ جہاں ہفتوں میں خط پہنچتے تھے اب چند سیکنڈ میں بات ہو جاتی ہے، بلکہ ہم ہزاروں میل دور بیٹھے اپنے پیاروں سے آمنے سامنے دیکھ کر بات کر سکتے ہیں۔ ہم نے ستاروں پر کمندیں ڈال لی ہیں اور ہم نے سمندروں کو تسخیر کر لیا ہے۔ اگر نہیں سمجھے تو ایک دوسرے کے زندہ رہنے کے حق کو نہیں سمجھے، نہیں چھوڑا تو اپنا لالچ نہیں چھوڑا،جو بیماری ختم نہ کر سکے وہ نفرت کی بیماری ہے۔ ہم نے علم کے نام پر مذہبی عصبیت عام کی مذہب کا کاروبار کیا اور لوگوں کو مذہب کے نام پر اُکسا کر انسانوں کا قتل عام کیا،اس دنیا کے انسانوں نے اپنے لئے زیادہ ہتھیانے کے منشور کے تحت بڑے بڑے ہتھیار بنائے تاکہ دوسروں کو زیر کر کے زیادہ سے زیادہ لوٹا جا سکے، انسانوں نے خود ساختہ قبضوں کو اپنے ملک کا نام دے کر دوسرے انسانوں کے لئے اس زمین میں داخل ہونے پر پابندیاں لگائیں۔ ہم انسانوں نے اپنی پہچان مذہبوں اور سرحدوں میں بند کر کے خود کو دوسروں سے اعلیٰ ہونے کا خود ہی اعزاز دے رکھا ہے۔ انسان نے جہاں سفر کو آسان بنایا وہی سفری پابندیاں عائد کر کے سفر کو انتہائی دشوار بنا رکھا ہے۔ ہم اللہ کی زمین پر گھوم پھر کر دیکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اپنی نسلی یا ملکی پہچان کے لئے ایک کتاب کی ضرورت ہوتی ہے جسے پاسپورٹ کہا جاتا ہے، پھر جس ملک میں جانا چاہتے ہیں ان کے اجازت نامے کی ضرورت ہے جسے ویزہ کہا جاتا ہے۔ یہ پابندیاں کیوں ہیں؟ کیا یہ ساری زمین اور اس کا نظام اللہ کا بنایا ہوا نہیں؟ کیا یہ سورج، چاند، ستارے، سیارے، سمندر، ہوا، آکسیجن، پانی، یہ کروڑوں قسم کے کھربوں درخت، لاکھوں قسم کے اربوں جانور یہ سب انسانوں نے پیدا کیے ہیں؟ خود انسان کو کس نے پیدا کیا ہے؟ اگر یہ سب اللہ تعالیٰ کی دین ہے۔ یا بقول ملحدین یہ فطرت کا نظام ہے تو پھر انسانوں کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ اس میں تقسیم پیدا کرے اور وہ بھی غلط اور نا انصافی سے؟ ان قدرت کے نظاروں پر تمام انسانوں کا برابر حق ہے۔ اس کائنات کے اندر رکھے رزق پر تمام جانداروں کا برابر حق ہے تو پھر ہمارا علم ان تمام چیزوں کے درمیان پابندیاں کیوں لگاتا ہے اور ہم دوسروں کو روکنے اور مارنے کے لئے ہتھیار کیوں  بناتے جا رہے ہیں؟ یہ ایٹم کس کا دشمن ہے اور اسے بنایا کس نے ہے؟ کیا کوئی مخلوق خود کو ہی تباہ کرنے کا سامان کرے تو پھر اس کا علم روشنی ہے یا اندھیرا؟

مزید :

رائے -کالم -