ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 44
دو عالمی جنگوں کا سبق
مغرب کس طرح سبق سیکھتا ہے اس کو ایک اور مثال سے سمجھیں ۔ مغربی اقوام دنیا کے تین براعظموں پر حکمران ہیں ۔ یعنی یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا۔ مگر اصلاً مغربی اقوام کا مرکز یورپ ہی تھا۔یہ یورپ پہلی اور دوسری عظیم جنگوں میں بری طرح تباہ ہو گیا اور کروڑ وں لوگ مارے گئے تھے ۔ ان دوجنگوں سے پوری مغربی دنیا نے ایک سبق سیکھا تھا۔ وہ یہ کہ جنگ بہت بری چیز ہوتی ہے ۔چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ستر برس کے عرصے میں ان تین براعظموں پر کوئی جنگ نہیں ہوئی ہے ۔(خیال رہے کہ یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعدوہاں ہونے والافساد ایک مقامی مسئلہ تھا جسے مغربی طاقتوں نے مداخلت کر کے فوراً ختم کرادیا تھا)نیشنل اسٹیٹ ہونے کے باوجود یہ لوگ باہمی طور پر امن کے ساتھ رہتے ہیں اور سارے وسائل عام آدمی کی ترقی کے لیے وقف ہیں ۔
ایسا نہیں ہے کہ ان کے باہمی اختلاف نہیں ہیں ۔مگر یہ اختلاف کے باوجود مل کر رہنے کی کوشش کرتے ہیں اوریورپ کی حد تک انھوں نے یورپی یونین بھی بنالی ہے ۔بدقسمتی سے برصغیر کے دو ممالک یعنی انڈیا اور پاکستان نے پچھلے ستر برسوں میں چار جنگیں لڑ یں ۔جبکہ بھارت نے پانچویں جنگ چین کے خلاف لڑ ی۔ پاکستان کی پانچویں جنگ افغانستان پر روس کے حملے کے بعد پچھلی چاردہائیوں سے جاری ہے ۔ اس جنگ نے پاکستان کے سماجی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے ۔منشیات اور اسلحے کو ہمارے ہر گلی کوچے میں پہنچادیا ہے ۔فرقہ واریت اور مذہبی انتہا پسندی کو ہمارے رگ و پے میں اتاردیا ہے ۔دہشت گردی نے ہمارے بازاروں اور گھروں کو خوف اور خون سے بھردیا ہے ۔
ایمان واخلاق کے بغیر
اس کے باوجود بھی ہم کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں ۔ہم یہ بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ ہم فوجی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ ایمان واخلاق کے اس پہلو سے بھی بدترین درجے پر ہیں جہاں خدا کی مدد آتی ہے ۔ہمارے ہاں لوگ ایمان کے بجائے فرقہ واریت اور تعصبات کے اسیر ہیں ۔ ہمارے مذہبی طبقات سے لے کر عام لوگوں تک سب اخلاقی اعتبار سے بہت کمزورجگہ پر کھڑ ے ہیں ۔اس کی تفصیل میں کیا بیان کروں ۔ سب کو معلوم ہے ۔
ایسے میں اصل کام ایمان واخلاق اور علم و شعور کے فروغ کی کوشش کرنا ہے ۔ مادی اور ایمانی طور پر اتنی کمزور قوم میں جنگ کا صور پھونکنا اس کی تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ اس تباہی کی تفصیل کہیں اور نہیں پڑ ھ سکتے تو میری کتاب آخری جنگ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے حوالے سے پڑ ھ لیں ۔
پیش گوئیوں میں درست رویہ
بہت سے لوگ جنگ کا صور پھونکنے کے لیے بعض پیش گوئیوں کا سہارا لیتے ہیں ۔ ان کی خدمت میں یہی عرض ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ضعیف اور موضوع روایات کی بنا پر کچھ منسوب کرنا ہر اعتبار سے ایک غلط عمل ہے ۔یہ تو خود مذہبی طور پر ایک جرم ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اس طرح کی روایات بیان کی جائیں ۔
باقی جو صحیح روایات ہیں ان میں درج پیش گوئیوں پر آپ یقین رکھتے ہیں تو ضرور رکھیے ۔ مگر اس میں بھی صحیح راستہ یہ ہے کہ ان کے پورا ہونے کا انتظار کیجیے ۔پیش گوئی کسی واقعے کے ظہور کی کی جاتی ہے تو خود بخود پوری ہوجاتی ہے ۔ جیسے عرب میں بلند و بالا عمارات کے ظہور کی وہ پیش گوئی جو سرکاردوعالم نے کی اور مکمل طور پر پوری ہوگئی۔ پیش گوئی کسی شخصیت کے آنے کی کی جاتی ہے تو یہ صرف اس شخصیت کا حق ہے کہ وہ آئے اور پھر اپنی دعوت پیش کرے ۔ کسی اور کو یہ حق نہیں کہ اس کے نام پر کھڑ ا ہوکر لوگوں کو بلانا شروع کر دے ۔ اس کی مثال حضرت عیسیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ دونوں کی آمد کی پیش گوئیاں موجود تھیں ۔ آپ آئے اور اپنی دعوت پیش کی۔ کسی اور کا حق نہیں تھا کہ وہ ان کی آمد سے قبل ہی دوسروں کو ان کے نام پر کسی قسم کی جنگ کے لیے اٹھانا شروع کر دیں ۔
پچھلوں کے بوجھ
اس کے ساتھ ہم ایک دوسری بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں ۔ وہ یہ کہ قرآن مجید نے صحابہ کرام کو ایک دعا سکھائی تھی۔ وہ یہ کہ پروردگارہم پر وہ بوجھ مت ڈال جو تونے پچھلوں پر ڈالے تھے ۔ نہ وہ بوجھ جن کو اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں ، (البقرہ286:2)۔ اسی دعا کا نتیجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پورے عرب کی شدید دشمنی اور ان کی طرف سے مسلط کی گئی جنگوں کے باوجود ان پر غلبہ حاصل ہو گیا اور اس عمل میں صرف دو تین سو مسلمان شہید ہوئے ۔ جبکہ پچھلی دو صدیوں میں بلامبالغہ لاکھوں مسلمان مارے جا چکے ہیں ۔
اس دعا کے مطابق ہونا تو یہی چاہیے کہ شہادت حق کے لیے جو قربانی صحابہ کرام نے دی ، آج کے مسلمانوں سے اس سے کہیں کم قربانی لے کران سے شہادت حق کا وہی کام کرایا جائے ۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اب وہ سارے لوازمات جمع کر چکے ہیں جن کی بنیاد پر مسلمان عملاً ایک جان کا نقصان کیے بغیر بھی دنیا پر شہادت حق دینے کا کام کرسکتے ہیں ۔ مگر شرط یہ ہے کہ مسلمان پہلے حق کو ا۔ختیار تو کریں ۔ شہادت دینے کا مرحلہ تو بعد میں آتا ہے ۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 43
قرآن مجید کی عظمت
ڈنر میں میرا خطاب قرآن مجید کی عظمت کے حوالے سے تھا۔سورہ رحمن کی ابتدائی آیات کی روشنی میں خواتین و حضرات کے سامنے میں نے یہ عرض کیا کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت کا ظہور ہے ۔قرآن کی شکل میں انسانوں کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ نے انھیں وہ عزت دی ہے جو کسی اور مخلوق کو نہیں دی۔ اللہ تعالیٰ کی بلند شان کے سامنے یہ کسی مخلوق کی اوقات نہیں کہ و ہ اسے مخاطب کریں ۔شہنشاہ کائنات کے سامنے بے کس مخلوق کی کیا حیثیت کہ اسے مخاطب کیا جائے ۔ یہ عزت گنتی کے چند فرشتوں اور چند انبیا کو ملی ہے ۔
مگر قرآن مجید کی شکل میں یہ عزت اب انسانوں کو مستقل طور پر دے دی گئی ہے کہ ان کو مخاطب کر کے اپنا کلام ان کے لیے نازل کیا گیا۔مگر ہم لوگ اس عظیم کتاب کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں وہ نہ صرف عظمت قرآن اور دی جانے والی عزت سے بے خبری کا ثبوت ہے بلکہ ایک بہت بڑ ا جرم ہے ۔پھر میں نے قرآن مجید کی اصل دعوت جو آخرت میں نجات اور اِس دنیا میں اپنے تزکیہ کے حوالے سے ہے ، اس کا کچھ بیان کیا۔یہ بتایا کہ دین کا ہر حکم کس طرح اصلاً انسانی شخصیت کے تزکیے اور اسے بہتر بنانے کے لیے دیا گیا ہے ۔لیکچر کے بعد ڈنر اور پھر سوال وجواب کا سیشن ہوا۔
نصرت دین
اگلے دن المورد سڈنی کے ممبران کو ڈاکٹر ذوالفقار صاحب نے گھر پربلارکھا تھا۔ آج ایک تربیتی نشست تھی جس کا موضوع نصرت دین تھا۔ میں نے کھانے سے پہلے اور بعد کے دو سیشنز میں اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی کہ نصرت دین کے کتنے عظیم اور کس قدر آسان مواقع انسانی تاریخ میں پہلی اور آخری دفعہ پیدا ہو چکے ہیں ۔
میں نے یہ واضح کیا کہ انسانی تاریخ اپنے اختتامی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے ۔ختم نبوت کے بعد یہ مسلمانوں کی ذمہ داری تھی کہ ان کے ذریعے سے دین حق کا پیغام دنیا تک پہنچے ۔ مگر مسلمان اپنے علمی اور اخلاقی زوال کی بنا پر مغربی اقوام کے غلام بن چکے تھے ۔ انیسویں صدی میں مغربی اقوام نے انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ الحاد کو اتنے بڑ ے پیمانے پر فروغ دے کر خداکے خلاف اعلان بغاوت کر دیا تھا۔ان کی گرفت کرنے سے قبل ان پر درست بات واضح کرنا ضروری تھی۔
چنانچہ سب سے پہلی بیسویں صدی کے آغاز پر پے در پے ایسی سائنسی دریافتیں سامنے آئیں جنھوں نے انیسویں صدی کے مادی نظریات کے پرخچے اڑ ادیے ۔ یہ یقین ختم ہو گیا کہ کائنات ازلی اور غیر فانی مادی وجود ہے جس کے بارے میں سائنس سب کچھ بتا سکتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی پہلی جنگ عظیم برپا ہوگئی۔ یہ عظیم تباہی اہل یورپ کے لیے ایک وارننگ تھی۔جب وہ باز نہ آئے تو دوسری جنگ عظیم میں ان پر شدید تر تباہی مسلط کر دی گئی۔
اسی تباہی سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی آزادی کا انتظام کیا اور پورا عالم اسلام آزاد ہو گیا۔ مسلمانوں کو سیاسی آزادی دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو تیل کی دولت دے کر معاشی طور پر آزاد کر دیا۔ان کو وہ جغرافیہ دیا کہ وہ دنیا کے وسط میں رہ کر امت وسط ہونے کی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا سکیں ۔وہ فوجی طور پر کمزورتھے ، اس لیے سو ویت یونین اور مغرب کے ٹکراؤکے پچاس سالہ دور میں ان کو ایک مکمل وقفہ امن اور وقفہ تعمیر دیا گیا کہ وہ اپنے معاشرے کی تعمیر اسی طرح کر لیں جس طرح مثال کے طور پر مشرق بعید کے ممالک جاپان، کوریا وغیرہ نے کی۔
بدقسمتی سے مسلمانوں نے ان تمام عظیم مواقع کو ضائع کر دیا۔جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انفارمیشن ایج کو شروع کر دیا۔دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے ایک صدی پہلے امام فراہی کے ذریعے سے قرآن مجیدکی بنیاد پر دین کو واضح کرنے کا ایک عمل شروع کیا تھا جو اب اپنے منتہائے کمال پر پہنچ چکا ہے ۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے دین کی اصل دعوت یعنی ایمان ، اخلاق اور شریعت اور اس کی ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتمام حجت کو مکمل طور پر واضح کر دیا ہے ۔ اب گنتی کے کچھ لوگ بھی قرآن و سنت کی اس اصل دعوت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اتمام حجت کو پوری دنیا کو سمجھا سکتے ہیں ۔اس عمل کے ساتھ ہی انسانیت پر شہادت حق کا کام پورا ہوجائے گا۔ یہی اب نصرت دین کا بہت بڑ ا کام ہے ۔(جاری ہے)
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 45 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں