مہر کیا ہے

مہر کیا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام ایک مکمل دین، جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، اسکے سنہری اصولوں سے پہلو تہی بہت سی پیچیدگیاں پیدا کرتی ہیں۔ دین حق میں نکاح ازدواجی زندگی کے لئے لازمی شرط ہے جو کہ مہر کے بغیر نا ممکن ہے۔
نکاح کے وقت جو رقم مرد اپنی عورت کے لئے مخصوص کرتا ہے خواہ وہ نقدی کی صورت میں ہو یا بعد میں ادائیگی کے وعدہ کے مطابق طے ہو مہر کہلواتا ہے اسلام نے مرد پر گھر کے خارجی اور مالی امور کی ذمہ داری ڈالی ہے جبکہ عورت پر گھر کے داخلی امور کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے، مرد بمطابق شرع اسلام اصولی لحاظ سے عورت کے اخراجات کا ذمہ دار ہے اور نکاح کو اسی ایک ذمہ داری کے تحت قبول کرتا ہے اور اس قبولیت کی نشانی مہر ہے اور اسے اس لیے ازدواجی مسئلہ کا ایک اہم جزو قرار دیا گیا ہے، اس بارے میں ارشادِ ربانی ہوتا ہے کہ: عورتوں کو ان کے مہر ادا کر دو عورتوں کو خوش دلی سے ان کے مہر ادا کرو مردوں کو چاہئے کہ اس کے ادا کرنے کا پورا پورا خیال رکھیں (النساء) شرع اسلامی میں مہر کی تین اقسام مقرر ہیں، جو مہر معجل، مہر مؤجل اور مہر مثل ہیں۔ مہر معجل وہ مہر جس کی ادائیگی فی الفور کی جائے یعنی انعقاد نکاح سے پہلے یا فوری بعد ہو اگر نکاح کے بعد بھی مہر کی ادائیگی نہ ہوسکی تو ذیل کے شرعی احکام نافذ ہوجائیں گے، (1) عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے شوہر سے رشتہ ازدواج قائم کرنے سے انکار کردے۔ (2) اگر رشتہ ازدواج کو برقرار رکھے تو مطالبہ مہر کا حق برقرار رہے گا۔ (3) رشتہ ازدواج کے قیام کی صورت میں شوہر کو جلد از جلد مہر کا حق ادا کرنا لازمی ہوگا۔ (4) جب تک مہر موصول نہ ہوجائے عورت کو اپنے مہر کے برابر مطالبہ کا حق حاصل رہے گا۔ (5) مہر کی فوری ادائیگی نہ ہوسکنے کی صورت میں یا عورت کے طلب و تقاضہ کے باوجود وصول نہ ہونے پر مہر معجل مؤجل نہیں ہوجائے گا بلکہ مہر معجل ہی ر ہے گا۔ (6) عورت کو حق حاصل ہے کہ جب چاہے عدالت میں جاکر اپنا حق مہر (مہر معجّل) طلب کرے۔ (7) عورت کی رضا مندی سے مہر معّجل کی ادائیگی میں کچھ مہلت تو دی جاسکتی ہے مگر اس کی اس مہلت سے شوہر نا جائز فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور نہ ہی اس کی دی ہوئی مہلت سے تجاوز کرسکتا ہے بلکہ اس کو مقررہ میعاد پر مہر کا ادا کرنا واجب ہوگا۔
مہر مؤجل وہ مہر جس کی فوری ادائیگی کی شرط نہ ہو بلکہ اس کی ادائیگی کے لئے مہلت میعاد مقرر ہو اس کی دو صورتیں ہیں، اولاً جب معیاد مقرر کی جائے تو اس کو شوہر کی وفات کے بعد لازماً ادا کرنا ہوگا، اگر بیوی اس کو طلاق اور وفات سے قبل ادا کرنے کا مطالبہ کرے اور اس سلسلہ میں کوئی معاہدہ طے ہوجائے تو وہ معاہدہ عند الشرح جائز ہوگا اور شوہر کے اوپر معاہدہ کے مطابق ادائیگی لازم ہوجائے گی، بہر حال اس حال میں بھی پر مہر مؤجل ہی رہے گا۔ فوری ادائیگی سے یہ مہر معّجل نہیں ہوجائے گا۔ دوسری حالت میں جس کی ادائیگی کی معیاد معلوم اور مقرر ہو اور عورت اپنے شوہر کے ساتھ رشتہ ازدواج کو نبھا رہی ہو مگر مقررہ میعاد کے باوجود ادائیگی کا وقت گزر گیا اور شوہر اپنی بیوی کو مہر ادا نہ کرسکا تو مندرجہ ذیل احکام نافذ ہوں گے، (1) عورت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے مہر کا مطالبہ شروع کردے۔ (2) عورت کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ جب تک شوہر سے اپنا مہر وصول نہ کرے تعلق ازدواج سے کنارہ کش رہے۔ (3) مطالبہ کے باوجود اگر شوہر اس کے مہر کو ادا ہ کرے یا لیت و لعل سے کام لے تو وہ اس کے ساھ تعلق ازدواج نبھانے سے رک جائے۔ (4) مقررہ معیاد معلوم پوری ہونے کے بعد بھی اگر شوہر مہر ادا نہ کرسکا تو یہ مہر مؤجل معّجل ہوجائے گا اور عورت فوری وصولی کی حقدار ہو جائے گی۔ مہر کی تیری قسم مہر مثل ہے وہ مہر ہے جو عورت کے یعنی اس کے باپ کے خانوادوں میں سے کسی ایسی عورت کے مہر کے مطابق ہو جو عین اس عورت کے مشابہ ہو یعنی اسکے تمام محاسن، خوبیاں اور فضائل اس کی دنیا اور دینداری علم اور شائستگی، متانت اور سنجیدگی، عفت اور پاکدامنی، جمال اور خوبصورتی، عمر اور وقت، شکل و صورت اور اس کے اخلاق و کردار کے عین مماثل ہو اگر نکاح کنوارے پن کی حالت میں اس عورت کا ہوا تھا تو جو مہر اس کا مقرر تھا وہی مہر اس عورت کا مقرر ہوگا اس کو مہر مثل کہا جاتا ہے۔ مہر مثل یعنی خاندانی مہر وقت واجب ہوتا ہے۔ جب مندرجہ ذیل صورتیں یا کوئی ایک صورت درپیش ہوں۔ (1) نکاح کے وقت مہر کا بالکل ذکر نہ آیا ہو۔ (2) نکاح کے وقت مہر کا ذکر آیا ہو لیکن اس کی مقدار مقرر نہ کی گئی ہو۔ (3) مقدار مقرر کی گئی ہو لیکن اس کی مالیت مذکورہ مقدار سے کم ہو۔ (4) مہر کی مقدار مقرر کی گئی ہو لیکن اس کی قسم ظاہر نہ کی گئی ہو۔ (5) کسی ایسی شے کو مہر قرار دینا جس کا اعتبار عرف اور شرع میں مال کا نہ ہو اور نہ ہی اس سامانوں میں سے جن کو عوض مال لینا شرعی نقطہ نظر سے درست ہو۔ (6) ایسی شے کو مہر قرار دینا جو شریعت کی نظر میں سرے سے مال ہی نہ ہو جیسے بھنگ، شراب، الکحل، خنزیر، غضب کیا ہوا مال رشوت، بیاج اور سودی روپیہ وغیرہ۔ (7) مہر کی مقدار مقرر کردینے کے بعد ایسی بات کا ذکر کردینا جس سے مہر ہی کی نفی ہوجائے۔ شرعی نقطہ نظر سے مہر عورت کا واجبی حق ہے جس کا ادا کرنا شوہر پر واجب ہے اور عورت کو حق حاصل ہے کہ جب تک اپنا مہر وصول نہ کرلے شوہر کی دلجوئی، تمتع نفس اور اس کی ہر طرح کی خدمت و اطاعت سے اپنا ہاتھ روک لے کیونکہ مہر دین کہلاتا ہے اور دین قبل از وقت لیا جاسکتا ہے۔ مہر کے سلسلے میں چند وجوہات ایسی ہیں جن کے پیش نظر عورت کی حقدار نہ ہوگی بشرطیکہ علیحدگی سے پہلے ازدواجی رشتہ قائم نہ ہوا ہو۔ (1) جب نا بالغ شوہر اور بیوی دونوں کا نکاح کا معاہدہ بغیر ولی کے ہو ایسا نکاح باطل ہوگا اور بیوی کو مہر کا حق حاصل نہ ہوگا۔ (2) جب نا بالغ نکاح کرنے کے بعد نا بالغ ہوکر چنار ہوکر بلوغ کا حق استعمال کرے۔ (3) جب عدالت سے کسی بھی وجہ سے طلاق کی اجازت مل گئی ہو۔ (4) جب کوئی مرض الموت کے عالم میں نکاح کرلے اور صحبت سے پہلے مرجائے۔ (5) کوئی عورت مرض الموت کے عالم میں نکاح کرے اور بیماری کی وجہ سے صحبت نہ ہوسکے تو اس کے وارث اس کا مہر وصول کرسکتے ہیں لیکن اگر بیماری کو چھپا کر نکاح کیا گیا ہو تو اسی حالت میں عورت مہر کی حقدار نہ ہوگی۔

مزید :

ایڈیشن 1 -