بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ ۔ ۔ ۔قسط نمبر 55

بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ ۔ ۔ ۔قسط ...
بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ ۔ ۔ ۔قسط نمبر 55

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملتان میں افغانوں کی حکومت
لودھی خاندان: اس سے پیشتر کہ عہد اکبری کے بعد عہد جہانگیر وغیرہ کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اس تسلسل کو قائم رکھا جاسکے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک مختصر سی رودادملتان کے لودھی افغان سربراہان کی قلمبند کی جائے جو دلچسپی کا باعث ہوگی اور ایک بہت ہی عام غلط فہمی کا ازالہ بھی۔ ان افغان سربراہان نے الپتگین اور سبکتگین(۷۵۳ و ۰۹۳ھ) کے دور حکومت میں ملتان میں اپنی بادشاہت کا آغاز کیا تھا اور تین پشت حکومت کرنے کے بعد سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوں ان کی بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔ ان کا پہلا بادشاہ شیخ حمید تھا جس کا مختصر سا ذکر اس کتاب میں کیا جا چکا ہے۔ اس کے بعد اسکا بیٹا نصر (بانصیر) بادشاہ ہوا اور پھر اس کا بیٹا ابو الفتح داﺅد بادشاہ بنا۔ نصر اور اس کے بیٹے کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ ملحد ہوگئے تھے جو درحقیقت ایسا نہ تھا بلکہ مخالفین کی ایک سیاسی چال تھی۔ جس کا انجام سلطان محمود غزنوی کے دوبارہ ملتان پر حملہ آور ہونے اور ابوالفتح داﺅد کو ۶۹۳ھ میں شکست دے کر باجگزار بنانے اور پھر ۲۰۴ھ میں ملتان سے افغانوں کی حکومت کو ختم کرنا تھا۔ جیسا کہ اسی دوران ۱۰۴ھ میں غور کے بادشاہ محمد سوری افغان پر قلعہ آہنگراں میں سلطا نے وعدہ خلافی کرکے اچانک حملہ کیا اور غوریوں کی بادشاہت کو ختم کیا تھا۔
الغرض اسی سیاسی چال اور پروپیگنڈے کو اس قدر ہوا دی گئی تھی کہ غیر تو غیر خود افغان قوم بھی غلط فہمی کا شکار ہوگئی تھی۔ نصر کے چچا زاد بھائی شیخ رضی لودی علیہ رحمتہ جس کو شیخ حمید نے ملتان سے قندہار کی طرف دین اسلام کی تبلیغ کے لیے بھیجا تھا اور اس نے دو سال پہاڑوں میں مسلسل تبلیغ کرکے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس پر بھی ا س پروپیگنڈے کا برا اثر ہوا تو اس نے قندہار سے ایک تادیبی خط نصیر کو پشتو زبان میں نظم کی شکل میں لکھا جسے محمد ہوتک نے اپنی مشہور تصنیف....پٹہ خزانہ میں جو حکومت کابل کی وساطت سے شائع ہوا ہے، من و عن شائع کیا ہے جس میں اس نے نصر کو لکھا ہے کہ تم الحاد کی طرف مائل ہوگئے ہو جو ہمارے لئے باعث شرم ہے اور لودھی خاندان تمہاری وجہ سے بدنام ہوگیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

شجاع قوم پٹھان کی تاریخی داستان، قسط نمبر 54پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

نصیر نے ان کو اس خط کے جواب میں الحاد اور قرامطہ واسماعیلی عقائد سے انکار اور اپنے اسلامی عقیدے کا اظہار بھی ملتان سے خط کے ذریعہ پشتو زبان میں نظم کی شکل میں کیا۔ جسے مصنف پٹہ خزانہ میں من و عن شائع کیا ہے۔
نصیر کے اس جوابی خط کو ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں تاکہ پڑھنے والے حضرات اس سے مستفید ہو سکیں اور نصیر کے دلی جذبات اور اسلامی عقیدہ کو صحیح طورپر سمجھ سکیں۔

شجاع قوم پٹھان کی تاریخی داستان، قسط نمبر 56پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

ترجمہ:میں الحاد کے الزام سے بدنام ہوا۔ اگرچہ میں ابتدا ہی سے ملحد نہیں ہوں۔ میرے دشمن ویسے ہی بہتان لگا رہے ہیں۔ درحقیقت میں دشمن کا ملحد ہوں۔ جب سے بحیثیت قوم ہم مسلمان ہوئے ہیں آج تک میں اسی دین پر قائم ہوں لیکن تورانیوں کے نزدیک میں دین سے کنارہ کش ہوں۔ میری جماعت اور گروہ وہی پیشر و آباﺅ اجداد ہیں اور ابھی بھی میں ان کے نقش قدم پر مضبوطی سے قائم ہوں۔ میں اسلام کی بلندی کو چمکاﺅں گا اور چمکتا ہوں۔ اگرچہ تورانیوں کے نزدیک میں اندھیرا ہوں۔ میں لودھی کا بیٹا اور اہل سنت ہوں۔ حمید کے بلند گھرانے اور نسل سے ہوں۔ تورانی دشمن کا کہنا ہے کہ میں اپنے گروہ یعنی اسلام سے روگردان ہوا ہوں۔ یہ سب بہتان ہے بدگمانی پیدا کرکے مجھے آپ کی نظروں میں حقیر بنانا ہے۔ اگرچہ درحقیقت میں مومن ہوں اور آپ کے نقش قدم پر قائم ہوں۔ دشمنوں کا پروپیگنڈا اور باتیں نہ سنو۔ لودھی اور پکا مسلمان ہوں۔ جب تک میں زندہ ہوں گزرے ہوﺅں کو خدا بخشے اور خدا کی رحمت ہر ان پر جس نے خدا کے احکام مانے ہیں۔“
اب ایک اور موضوع: نصر کے خط میں تورانی دشمن سے فریاد اور تورانیوں کی اس دشمنی کو جسے وہ اوائل اسلام کے وقت سے یاد کرتا ہے کی تشریح اور کچھ بحث ضروری سمجھتا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ اوائل اسلام میں ماہویہ نامی ایک افغان حکرمان جو سوری خاندان سے تھا اور اس وقت وہ مع اپنے قبیلہ کے مذہبا دین عیسوی پر قائم تھا یزدگردساسانی شاہ ایران کے ماتحت مرد کامرزبان تھا۔ اسی زمانہ میں یزدگرد عرب سے شکستہ اور پریشان حال ادھر ادھر پھرتے تھے۔ اچانک مرد اس خیال سے روانہ ہوا کہ ماہویہ عربوں کو شہر سے نکال کر اسکو پناہ اور امداد دے گا لیکن اس کے برعکس ماہویہ نے یزدگرد کو مرد میں داخل ہونے سے روک دیا اور عربوںکے تحفظ کا خیال رکھ کر جنگ پر آمادہ ہوا۔ یزدگرد مرد سے ناکام پھرا اس واقعہ کے متعلق تاریخ ابن خلدون حصہ اول رسول اور خلفائے رسول میں درج ہے کہ:
یزدگرد بعد ہ خراسان آیا۔ اس قصد سے کہ لشکر جمع کرکے مسلمانوں سے مقابلہ کرے۔ مرد کی طرف روانہ ہوا۔ اس سفر میں فرخ زاد اور مملکت ایران کے دہقانوں کے لڑکے بھی یزدگرد کے ہم رکاب میں تھے۔ یزدگرد نے ملوک چین، فرغانہ، خزر اور کابل سے مددد طلب کی۔ کوچ و قیام کرتا ہوا مرد کے قریب پہنچا۔ مرد کے مرزبان ماہویہ کے لڑکے نے یزدگرد کو مرد میں داخل ہونے سے روک دیا۔ بعض کہتے ہیں کہ یزدگرد نے مرد کی حکومت ماہویہ سے چھین کر اپنے برادر زادہ کو دینے کا قصد کیا تھا۔ اتفاق یہ کہ ماہویہ ، مرزبان مرد اس سے مطلع ہوگیا۔ یزدگرد بخوف جان بھاگ کر مرد سے دو فرسخ کے فاسلہ پر ایک چکی چلانے والے کے گھر جا چھپا ۔ چکی چلانے والے نے اس سے چار درہم طلب کئے۔
یزدگرد نے کہا میرے پاس روپیہ پیسہ نہیں ہے لیکن میری یہ پیٹی لے لو۔ چکی والے نے کہا مجھے درہم کی ضرورت ہے اور تم مجھے پیٹی دیتے ہو۔ چکی چلانے والے نے اس کے ظاہری لباس سے اسے جھوٹا سمجھ کر مار ڈالا اور لاش کو اسی کے پاجامے میں باندھ کر دریا میں ڈال دیا اور عیسایان مرد ن یہ سن کر ایک جلسہ کیا اور اس کے حقوق سابقہ کے لحاظ سے دریا سے نکال کر تابوت میں رکھ کر تادس(دختہ) میں دفن کیا۔ یزدگرد کی حکومت بیس برس رہی۔ ازاں جملہ سولہ برس عرب کی لڑائیوں میں مصروف رہا۔ ملوک ساسانیہ کی حکومت کا سلسلہ اس کے مرنے سے منقطع ہوگیا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ قتیبہ نے فتح صغد(علاقہ توران) کے وقت دو عورتیں گرفتار کی تھیں۔ جو مخدج بن یزدگرد کی اولاد سے تھیں۔ مخدج کی ماں سے یزدگرد(یایزدجرد) نے بہ زمانہ قیام ”مرد“ میں تعلق قائم کر لیا تا پس اس کے بطن سے بعد از موت یزدگرد ذاہب الشق نامی لڑکا پیدا ہوا ۔چونکہ وہ یزدگرد کے قتل کے بعد پیدا ہوا تھا۔ اس وجہ سے مخدج کے نام سے موسوم ہوا۔ پھر اس کی اولاد خراسان میں پیدا ہوئی۔ قتیبہ نے ان دونوں عورتوں کو جو اسکی نسل سے تھیں حجاج کے پاس بھیجا۔ اور حجاج نے دونوں یا ان میں سے ایک کو ولید کے پاس بھیج دیا جس کے بطن سے یزید ناقص بن ولید پیداہوا۔“
کہتے ہیں کہ سلطان محمود غزنوی کا والد سبکتگین، خدج بن یزدگرد کی نسل سے تھا اور ترکستان یا توران کا باشندہ تھا۔ افغانوں سے ان کی یہ دشمنی قدیمی تھی اور اس دشمنی نے الپتگین کے وقت سے زیادہ شدت اختیار کی۔ اگرچہ سبکتگین کے وقت میں جنگ نہ کرنے کا معاہدہ آپس میں ہوا تھا لیکن سلطان محمود غزنوی کے عہد میں پھر حالات سخت خراب ہوگئے تھے۔

جاری ہے