مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی۔.. قسط نمبر 4
یہ دن تو جیسے پھیکو کی قسمت کا فیصلہ لیکر طلوع ہوا تھا ۔اس دن پھیکو بڑی موج میں تھا اورگاہکوں کے سروں کی مالش کرتے ہوئے سُروں سے بھی کھیل رہا تھا ۔ گاہک کے سر پر مالش کرتے ہوئے یوں تھاپ اٹھا رہاہوتا تھا جیسے کوئی ڈھولک پر ٹھیکا لگا کر سرسنگیت کو ہم آہنگ کرتا ہے ۔گاہک بھی اسکا لطف لیتا اور اس پر جیسے مستی چھاجاتی اور کہتا" اور تیز ذرا “ گاہک کی آواز میں سرور امڈ آتا اور پھیکو کا جوش اس وجہ سے بڑھ جاتا کہ اسکی آواز کو داد مل رہی ہے ۔
اس وقت وہ صوفی کلام ہی گارہا تھا جب دوکان سے باہر دنیائے موسیقی کے ایک تاجور پنڈت کا گزر ہوا۔پنڈت جی کے قدم جیسے رک گئے۔چونک کر آگے پیچھے دیکھا کہ یہ میٹھی اور پکی آواز کہاں سے آرہی ہے ۔اس زمانے میں گاڑیوں کا شور شرابہ تو ہوتا نہیں تھا ۔انسانی آواز ہی لاوڈ سپیکر کا کام دیتی تھی۔دوکان میں ٹیپ ریکارڈر بھی نہیں بج رہا ہوتا تھا ۔صرف ایک ریڈیو ہوا کرتا تھا جس پر دوکاندار گانے سنا کرتے تھے یا اپنی پسند کے پروگرام ۔۔۔۔پنڈت نے جانچ لیا کہ یہ آواز کسی ریڈیو سے نہیں آرہی۔بلکہ سامنے حجامت کی دوکان سے سُروں کا دھارا پھوٹ رہا ہے ۔
مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی۔.. قسط نمبر 3
پنڈت جی بے چین اور مشاق انسا ن تھے ۔ایسے گوہر نایاب تلاش کیا کرتے تھے جن کے گلوں سے سنگیت پھوٹتا تھا ۔دروازہ کھلا ہوا تھا ۔جھانک کر دیکھا ایک اٹھارہ سال کا نوجوان لڑکا مستی سے گاہک کے سر میں تیل کی مالش کئے جارہا ہے اور اپنی دھن میں گا بھی رہا ہے ۔پنڈت جی اسکے بول اور سُروں کو چٹکی بجا کر تولنے لگے ” ہاں گاتا تو پوری لے میں ہے اور گلا بھی بڑا اچھا ہے “
پنڈت جی کو دیکھ کر ایک نوجوان جھٹ سے ان کے پاس آیا اور ہاتھ ملا کر ادب سے بولا ” بسم اللہ پنڈت جی آپ ۔۔۔تشریف لائےے“ یہ حمید بھائی تھا محمد دین کا جگری دوست ۔وہ ریڈیو کی دنیا کا شناور تھا اور پنڈت جی کو جانتا تھا کہ یہ مہان موسیقار پنڈت جیون لال مٹّو ہیں جنہوں نے آل انڈیا ریڈیو پر کئی جوہر قابل متعارف کرائے ہیں۔
پنڈت جی نے سب کو پرنام کیا ” بالکا اچھا گاتا ہے “ انہوں نے توصیفی نظروں سے پھیکو کو دیکھا تو پھیکو نے شرما کر خالص لکھنوی انداز میں سلام کیا ۔
” دینو بھائی یہ اپنے پنڈت جی ہیں ۔ریڈیو والے “ اس نے جب تعارف کرایا تو پھیکو کی آنکھوں میں یکایک قندیلیں روشن ہوگئیں۔اس نے جھٹ سے تیل والے ہاتھ صاف کئے اور آگے بڑھ کر پنڈت جی کے گھٹنوں کو چھوا ۔
” جیتے رہو ۔بھگوان نے تجھے سُر مالا سے نوازا ہے ۔تم کسی روز ریڈیو پرآو۔میں تمہارا آڈیشن لوں گا ۔امید ہے پاس ہوجاوگے “
پھیکو کے لئے یہ آفر غیر معمولی اور کسی نعمت سے کم نہیں تھی۔ برسوں سے اسکو کسی ایسے دن کا انتظار تھا ۔ اگلے روز حمید بھائی اور وہ ریڈیو پہنچ گئے اور پنڈت جی نے ان کا آڈیشن دلوایا تو سوفیصد نمبروں سے اسکو پاس کردیا گیا۔اس روز سازندے ا ور دوسر ا عملہ بھی حیران تھا کہ پنڈت جی اس لڑکے پر اس قدر مہربان ہیں تو لازمی انہوں نے اس کے اندر کوئی خاص جوہر دیکھا ہوگا ۔انہیں یقین تھا پنڈت جیون لال مٹو جسے بھی سر سنگیت کی دنیا میں لاتے ہیں وہ ایک دن ہیرا بن ہی جاتا ہے ۔
پنڈت جیون لال مٹو تقسیم ہند سے پہلے آل انڈیا ریڈیو کے میوزک ڈائریکٹر تھے اور ہمیشہ نئے سنگیت کاروں کو تلاش کرکے انہیں تراشتے تھے۔وہ کشمیری پنڈت تھے ۔ان دنوں امرتسر میں رہتے تھے لیکن ملازمت کی وجہ سے وہ لاہور میں مقیم تھے ۔اگرچہ انہوں نے بہت سے نوجوانوں کو سنگیت کی تعلیم دی لیکن دو ایسے نوجوان بعد میں ان کے نام کا حوالہ بن گئے ۔ایک محمد رفیع اور دوسرے ستار نواز محمود مرزا،یہ وہی محمدو مرزا ہیں جو بعد میں برطانیہ میں سیٹل ہوگئے اور ستار نوازی کی تربیت کا خود ادارہ بن گئے ۔انہوں نے تین سال کی عمر میں ستار نوازی سیکھنا شروع کی تھی لیکن جب انہیں پنڈت جی کے پاس موسیقی کی تربیت کے لئے لایا گیا تو پنڈت جی اس گورے چٹے بچے کی ستار میں لگن دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور اپنا سارا فن اس بچے پر لٹا دیاتھا ۔
پنڈت جیون لال مٹوخاندانی موسیقار نہیں تھے لیکن جب موسیقی میں ان کی شناخت بنی تو ان کا خاندان مٹو انکی پہچان بن گیا ۔وہ موسیقی کو عبادت کا درجہ دیتے ،خالص کلاسیکل راگوں پر یقین رکھتے تھے ۔وہ جب تک حیات رہے ،انہوں نے روزانہ ریاض کی عادت نہیں چھوڑی۔ لاہور میں ایک کشمیر شوالہ میں انہوں نے موسیقی کا سنٹر بھی بنایا تھا جہاں روزانہ موسیقی کے پاٹ لگاتے تھے۔ہجرت کے بعد وہ لٹے پٹے دہلی گئے اور دہلی ریڈیو میں ملازمت کرلی ۔ انہوں نے دہلی ریڈیو پر ہی پہلا آرکسٹرا تیار کیا تھا جسے بعد میں پنڈت روی شنکر نے مزید ترقی دی تھی ۔
ریڈیو پر پھیکو کے دروازے کھلے تو پنڈت جی نے پہلے ہی روزحمید بھائی سے کہہ دیا تھا” دیکھو اب اسکو کوئی پھیکو نہ بولے گا ،اسکا نام محمد رفیع ہے تو اسکا نام پکارا بھی اسی نام سے کرو۔نام سے بندے کے بھاگ کھلتے ہیں “
اس دن سے پھر یہ طے کرلیا گیا کہ اب کوئی محمد رفیع کو پھیکو نہیں بولے گا ۔اسکو محمد رفیع پکارا اور لکھا جائے گا ۔پنڈت جی نے محمد رفیع کے اندر امنگ اور لگن دیکھ لی تھی کہ جب یہ لڑکا سُر لگاتا ہے تو گیان میں ڈوب جاتا ہے ۔پنڈت جی نے اسکو صیقل کیا اورخالص راگوں کی تربیت دینی شروع کردی۔ریڈیو پر ہی ماسٹر عنایت حسین جیسی عظیم شخصیت موجود تھی ۔انہوں نے محمد رفیع کو فوک گائیکی کے رموز سکھائے ۔ ریڈیو پر اسکو گانے کا موقع ملنے لگا توفیصلہ کیا گیا کہ محمد رفیع کو باقاعدہ استادوں کے پاس بھی تربیت کے لئے ڈالنا چاہئے ۔لہذا محمد رفیع کو پہلے جن موسیقی کے استادوں کے پاس لے جایا گیا ان میں فیروز نظامی اوراستاد بڑے غلام علی خان ا ور استاد چھوٹے غلام علی خان شامل تھے ۔بعد میں مزید نکھار پیدا کرنے کے محمد رفیع کو استاد برکت اور استاد عبدالواحد کے پاس بھی تربیت دلائی گئی ۔ہر استاد اپنے تئیں محمد رفیع کوموسیقی کی تربیت دیتا جس کا یہ فائدہ ہوا کہ ایک سے زائد استادوں کی کلا محمد رفیع کے من میں رچ گئی ۔یہی وجہ تھی کہ آنے والے وقت میں جس جس موسیقار نے جہاں سے سُر کو پکڑا ،محمد رفیع نے وہیں سے اسکو گایا ۔یہ انفرادیت ایسی تھی جس میں ان کا کوئی ہم سر نہیں تھا ۔محمد رفیع کے سبھی اساتذہ غیر معمولی اور انڈوپاک کے بڑے نام تھے اور آج بھی جب موسیقی پر بات کی جاتی ہے تو بات انکے گھرانوں سے شروع ہوتی اور وہیں پر ختم ہوجاتی ہے ۔(جاری ہے )