درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 41
پچھلے شیر کو ہلاک ہوئے پورے دو سال ہو چکے تھے اور’’اسکور بک‘‘میں اب تک دوسرا اندراج نہ ہوا تھا۔ریاست میں ’’لنگڑے مہاراج‘‘کا ہر طرف شہرہ تھا۔پریوں،دیوؤں یا سانپوں کی طرح اس کے متعلق بھی طرح طرح کے افسانے رائج ہو چکے تھے۔کہیں اسے جن سمجھا جاتا اور کہیں کسی دیوتا کا اوتار۔غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔۔۔جنگل میں اگر کسی بھینس یا بیل کے کھروں کا نشان نظر آتا تو عوام اسے شیر ہی کا نقش پا سمجھتے اور دنوں غائب رہتے۔نواب صاحب کے کانوں تک بھی یہ افواہ پہنچ چکی تھی کہ سیسے کی گولی سے جن ہر گز ہلاک نہ ہو گا،اس کے لیے کسی عامل کا تعویذ ہی مجرب ہو سکتا ہے۔ایسی باتیں سن سن کر اور زیادہ طیش آتا اور بندوق کی نالی پر ہماری گرفت مضبوط تر ہو جاتی لیکن جب شکار ہی نہ ہو تو گولی کا ہد ف کون بنے؟
جون کی وہ شام مجھے ہمیشہ یادرہے گی۔دن بھر کی سخت گرمی اور لوکے بعد قویٰ کچھ مضمحل سے تھے،شربت اور فالودہ کا دور چل رہا تھا۔اچانک ٹیلیفون کی گھنٹی بجی اور سرکار کا نادر شاہی حکم صادر ہوا جیسے بیٹھے ہو چلے آؤ۔خدا معلوم کیا واقعہ پیش آیا تھا۔بیگم سے دو چار فقرے کہہ کر سیدھا نواب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہاں خوب گہما گہمی تھی۔فوراً تہہ کو پہنچ گیا۔ ان کی محفل پر برطانیہ کی شکست کا بھی اتنا اثر نہ ہو سکتا تھا،جتنا شیر کی خبر کا۔جملہ تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔عید کے چاند کی طرح شیر نظر آگیا تھا اور کلیکاکھیڑی سے دس میل دور صندل کے جنگلوں میں چھپا ہوا تھا۔مجھے صرف آدھ گھنٹے کی مہلت دی گئی کہ رخت سفر باندھ کر تیار ہو جاؤں۔
درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 40 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مسلسل ناکامیوں نے ہمتیں پست کر دی تھیں۔۔۔دل کہتا’’بیٹا اس مرتبہ بھی خالی ہاتھ آؤ گے۔‘‘پھر کسی گوشے سے امید کی ہلکی سی کرن پھوٹتی اور قنوطی دل اس سے جگمگا اٹھتا۔ امید وبیم کی ان متضاد کیفیات میں ہم لوگ شکار گاہ تک پہنچ گئے۔
جنگل کا محدود رقبہ دیکھ کر یقین نہ آتا کہ ایسا دیوقامت شیر اتنی سی مختصر جگہ میں چھپا ہو گا لیکن ایک ہفتے میں مردم خوری کی دووارداتیں اس بات کا بین ثبوت تھیں کہ یہی اس خونخوار عفریت کی جائے پناہ ہے۔اس مرتبہ بجائے ایک کے،چار مچان بنائے گئے۔گویا شکار گاہ کو ہر طرف سے گھیر لیا گیا۔ تین طرف ہانکنے والے تعینات کر دیے گئے کہ ڈھول بجا بجا کر شیر کونواب صاحب کے مچان کی طرف بھگائیں اور وہ گولی کی زد پر آجائے۔
رات تک تیاریاں مکمل ہو گئیں اور ہم لوگوں نے اپنااپنا مستقر سنبھال لیا۔ نواب صاحب کے ہمراہ میں اور مجومیاں بیٹھے تھے۔بندوق کی نالیاں گھاٹ کی طرف تھیں اور آنکھیں جھاڑیوں پر مرکوز۔ گیارہ بجے کے قریب چاند کی کرنیں گردوپیش کے ماحول کو روشن کرنے لگیں۔ہوکا عالم طاری تھا، ہوا تک ساکت تھی کہ اچانک پتوں کی کھرکھڑاہٹ سے تلاطم سا پیدا ہوا۔ایک جانور تیزی سے بھاگتا ہوا سامنے سے گزرا اور چشم زدن میں غائب ہو گیا۔درختوں پر لنگور اچھلنے کودنے اور بلند ترین شاخوں پر چڑھنے لگے۔ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ مجومیاں نے میرے پہلو میں ہلکی سی چٹکی لی۔جنوب کی طرف سے ایک نامعلوم سا سایہ نمودار ہو رہا تھا۔ہم نے دور بینوں کا رخ اس کی طرف پھیر دیا۔سامنے وہی جانا پہچانا شیر تھا۔ اس نے اپنی ٹانگ اٹھا رکھی تھی اور پھدک پھدک کر چل رہا تھا۔ یکایک اس طرف کے مچان سے فائر ہوا۔شیر نے پینترا بدلا اور وارخالی گیا۔ ہانکے والوں نے ڈھول پیٹنے شروع کر دیئے تاکہ جانور سراسیمہ ہو کر دوسری طرف کا رخ کرے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ مشرق کی طرف مڑا اور قریب تھا ہانکے والوں کو زخمی کرکے نکل جائے۔اچانک دوسری گولی نے ان کا دایاں پاؤں توڑ ڈالا۔ہمارے مچان سے اگرچہ فاصلہ زیادہ تھا لیکن نواب صاحب کے واسطے صبر سے بیٹھنا ناممکن ہو گیا۔ شیر اپنے تازہ زخم کو دیکھ رہا تھا ۔ انہوں نے شست باندھ کر فائر کر دیا۔گولی بجائے سر میں پیوست ہونے کے جبڑا چیرتی ہوئی نکل گئی۔جنگل کا بادشاہ ایسی گستاخی کس طرح برداشت کر سکتا تھا؟اس نے ایک ایسی ہیبت ناک آواز بلند کی کہ دشت و جبل گونج اٹھے اور بدن میں لرزہ پیدا ہو گیا۔ ہانکے والے یا تو پیچھے ہٹ گئے یا بھاگ گئے۔میں نے بھی رائفل تانی اور قبل اس کے کہ وہ اس وقفے سے فائدہ اٹھا کر فرار ہونے کی کوشش کرتا، سرکا نشانہ لے کر لبلبی دبا دی۔شیر اب خطرے سے پوری طرح آگاہ ہو چکا تھا۔ ادھر میں نے فائر کیا، ادھر اس نے پہلو بدلا۔گولی سر کے بجائے ران کا گوشت چھیدتی ہوئی باہر نکل گئی اور اس کا تیسرا عضو بے کار ہو گیا۔وہ ایک بارپھر دہاڑا۔مجومیاں کے اوسان خطا ہو گئے اور ان کی بندوق نیچے جا گری۔اب خدا کا کرنا یکھئے،شیر نے غصے میں آکر رائفل دبوچ لی اور اس طرح بالکل ہمارے نشانے کی زد میں آگیا۔ ہماری دونوں گولیاں بیک وقت اس کے سینے میں اتر گئیں لیکن کس دل گردے کا جانور تھا!ہماری طرف نظریں جمائے گھورتا ہی رہا۔ خون کے کئی فوارے بدن سے جاری تھے۔ تمام نچلا دھڑ خون میں لت پت تھا مگر وہ اب بھی شکست تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھا۔میں نے چاہا سر پرگولی مار کر خاتمہ کر دوں مگر نواب صاحب کے جذبہ ترحم نے اس کی اجازت نہ دی۔وہ تو اس کی جرات اور پامردی کو تحسین کی نظروں سے دیکھ رہے تھے اور متاسف نظر آتے تھے۔تقریباً پندرہ منٹ تک یہی کیفیت رہی لیکن کب تک؟خون کے مسلسل اخراج سے نقاہت پیدا ہونے لگی اور بالآخر ہمارا شیر زمین پر چت ہو گیا۔اس کی نیم مردہ آنکھیں اب بھی مجھے گھور رہی تھیں لیکن ہمیں ان میں بجائے انتقامی جذبے کے مظلومیت کے آثار زیادہ نظرآتے تھے اور جب وہ دم توڑنے لگا تو نواب صاحب نے اپنا منہ رومال سے ڈھک لیا۔
نواب صاحب کی سنچری مکمل ہو گئی۔احباب نے مبارک بادیں دیں،اہلکاروں نے نذرانے پیش کیے،شاعروں نے قصیدے کہے،محل میں چراغاں کیا گیا، دعوتیں ہوئیں لیکن عجیب بات ہے اس موقع پر دل کی کلی جس طرح شگفتہ ہونی چاہئے تھی، وہ نہ تھی۔(جاری ہے)
درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 42 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں