”زہر دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پینا ہو گا“

     ”زہر دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پینا ہو گا“
     ”زہر دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پینا ہو گا“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عربی میں ایمرجنسی قوت،صندوق،قانون، حالت اور جلسہ کے معانی میں استعمال ہوتا ہے، یعنی ایسی صورت حال جس کو پلٹ کر یا قوت بازو اور قوت تخیل  سے بہتر بنایا جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بہتری کا مطلب الٹنا پلٹنا ہی ہے۔ طاقت و قوت کا استمال کہاں اور کیسے کرنا ہے۔یہ سلیقہ ندارد ہے۔کئی لوگ تو جست بھرنے کا مطلب  دوسروں کے گھر کودنے کا لیتے ہیں۔ ہمارے ہمسائے نیچے والی منزل سے سیڑھی لگا کر ہمارے گھر میں جھانکتے رہتے ہیں۔ ان رویوں کی وجہ سے شاید بہتری ریت کی طرح مٹھی سے پھسل جاتی ہے۔ نئے پاکستان سمیت ہم کتنی ہی ایمرجنسیاں بھگت چکے ہیں۔ نئی تصاویر بنانے میں دل کے  کتنے ٹکڑے ادھڑ گئے  اس پر بات دشوار ہے، لیکن اس وقت بات ہے تعلیمی ایمرجنسی کی، جس کے ذریعہ سکول میں زیادہ سے زیادہ بچے بھرتی کیے جائیں گے،یعنی وہ بچے جن کی سکول تک رسائی نہیں یا ان کے والدین ان کو سکول بھیجنا نہیں چاہتے۔ ذہنی امراض کے پیکر والدین سے بچوں کو محفوظ رکھنے کا نسخہ ابھی دریافت نہیں ہوا۔  قریباً سال پہلے بھی کچھ اس قسم کی ہدایات جاری کی گئی تھیں جہاں اساتذہ کو گھر گھر جا کر والدین کو قائل کرنا ہوتا تھا کہ وہ بچوں کو سکول داخل کروائیں۔کچھ علاقوں میں بچے سکول تو آتے ہیں، لیکن گندم اور چاول کی کٹائی کے دِنوں میں چھٹیاں کر کے مزدوری جاری رکھتے ہیں۔جائیکا نے آؤٹ آف سکول چلڈرن کے لئے زمینی حقائق پر سروے کے بعد بہت عمدہ اور  قابل عمل منصوبہ بنایا ہے، بلکہ ایسے بچوں کے لئے الگ نصاب بھی ترتیب دیا ہے،جس کو رائج کیا جا سکتا ہے۔ ویسے تو ہمارے ہاں نصاب کے لئے بھی ایک ایمرجنسی کی ضرورت ہے۔موجودہ نصاب باوزن تو ہے، لیکن با وضع قطعی نہیں۔ کسی بھی سکول میں بچوں کے بجھے، بے زار اور لاتعلق چہرے اس حقیقت کے غماز ہیں۔سوائے ان سکولوں کے جہاں بچوں کی نفسیات کو سمجھنے والے استاد انہیں مثبت اور تعمیری سرگرمیوں میں مشغول رکھتے ہیں۔سیالکوٹ کے صہیب فاروق انتہائی تخلیقی ذہن کے مالک اور بچوں کے لئے رول ماڈل ہیں۔وہ نہ صرف بچوں کی صلاحیتوں کو پہچانتے ہیں،بلکہ ان صلاحیتوں کے مطابق کام لے کر بچوں کے اعتماد میں اضافہ کرتے ہیں۔ایسے اساتذہ کو ٹریننگ کے لئے ہر سکول میں بھیجا جانا چاہئے۔ دوسری طرف ہماری یونیورسٹیز کے بعض اساتذہ طلبہ کو صرف اس لئے فیل کر دیتے ہیں کہ وہ کینٹین میں کسی لڑکی کے ساتھ چائے پی رہا تھا یا پھر طالب علم کو اس سوال کا جواب کیوں معلوم ہے،جسے استاد نے نہیں پڑھ رکھا۔ ایسی صورتحال کو کئی استاد اپنی توہین سمجھتے ہیں۔سمجھ سے باہر ہے کہ ایک گورنمنٹ ملازم کی اے سی آر سے اس پر پیڈا لگانے اور اس کی پروموشن کو کارکردگی سے ملحق رکھا جاتا ہے، لیکن یونیورسٹیز میں بھرتی ذہنی مریضوں کو تا زندگی کلین چٹ کیوں دی جاتی ہے۔ نہ صرف یہ استثنیٰ بلکہ پی ایچ ڈی کی بنا پر انیسویں سکیل میں پروموشن بھی ریپر میں لپیٹ کر دی جاتی ہے۔ کالجز اور یونیورسٹیز کے بی ایس طلبہ و طالبات کو دی گئی سہولیات اور ان کے اعتماد اور گرومنگ میں بھی زمین آسمان کا فرق صاف نظر آتا ہے۔ لاہور کالج یونیورسٹی نے تو اپنے Repatriate  ہونے والے آدھے سٹاف کے بقایا جات تک ڈکار لئے،حالانکہ لسٹ موجود تھی۔سوال یہ ہے کہ دس میزوں سے فائل گزرنے میں کوئی ایسا انسان نہیں تھا جو فائل کو پڑھ ہی لیتا۔اس کا جواب کون دے گا کہ یہ   typing errorتھی یا کرپشن۔کچھ ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا ایمرسن یونیورسٹی سے واپس جانے والے اساتذہ کو بھی ہے۔ کالجز میں سی ٹی آئی بھرتی کرنے کے لئے دس بار میرٹ بنایا گیا۔ ان کے انٹرویوز کے لئے سلیکشن بورڈ کو ہدایات دی گئیں، لیکن یونیورسٹیز میں اگلے سمسٹر کے بچے بنا کسی اخلاقی یا آفیشل ٹیسٹ پاس کیے استاد کے درجہ پر فائز ہو جاتے ہیں اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کو چغل خوری اور جاسوسی کے ذریعہ معلومات مہیا کرتے ہیں۔اس پر کون سی ایمرجنسی کا اطلاق ہو گا۔ایک ایمرجنسی  ان اخلاقی رویوں پر بھی لگائی جائے اور بولنے سے پہلے تولنے کی پالیسی بھی وضع کی جائے۔ پنجاب کالج کے حوالے سے جھوٹ سچ تو الگ چیز ہے، لیکن جن طلبہ و طالبات کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا وہ ساری زندگی جھوٹ اور سچ کی راہداریوں میں بھٹکتے رہیں گے۔پہلے ہی ہم نے بچوں کو نصاب کے نام پر ہاں اور نہیں سکھا رکھی ہے۔ درمیانی راستہ میں دلیل،سوال اور وضاحت کی گنجائش تک نہیں چھوڑی۔ ایک طرف سے یہ سوال بھی تواتر سے ہوتا رہا کہ وہ بچی سامنے آئے۔ یعنی میڈیا پر آئے بنا کسی جرم کی شنوائی نہیں ہو سکے گی۔ کون وائرل ہے یہ بھی ہمیں بتایا جائے گا۔یعنی دکھائی سے زیادہ سنائی دے گا، جہاں لیڈر انصاف کے نام پر لٹتے رہیں وہاں عام آدمی کا کیا حال ہے۔ بتانے کی ضرورت نہیں۔محمد نواز شریف نے جو شعر پڑھا۔اس کا اطلاق ہر ایمرجنسی پر کیا جا سکتا ہے۔

ناز و انداز سے کہتے ہیں کے جینا ہو گا

زہر دیتے ہیں تو کہتے ہیں پینا ہو گا

جب میں پیتا ہوں تو کہتے ہیں کہ مرتا بھی نہیں 

جب میں مرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ جینا ہو گا

کتنے ہی  سقراط زہر سمیٹ کر مٹی ہو گئے،لیکن سرخ فیتے نہیں کھل سکے۔اب یہ فیتے دماغوں پر باندھے گئے ہیں اور سوچ و فکر پر خطرہ کا نشان چسپاں ہے کہ خبردار  عقل کا استعمال ممنوع ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -