قصبہ میمفس فرعونوں کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا، پانی بھرے کھیتوں اور کھجوروں کے جھنڈ میں تیرتے نظر آتے یہ کھنڈرات پراسرار منظر پیش کر رہے تھے

 قصبہ میمفس فرعونوں کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا، پانی بھرے کھیتوں اور ...
 قصبہ میمفس فرعونوں کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا، پانی بھرے کھیتوں اور کھجوروں کے جھنڈ میں تیرتے نظر آتے یہ کھنڈرات پراسرار منظر پیش کر رہے تھے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:39
 گاڑی ایک عظیم الشان معبد کے کھنڈرات کے پاس سے گزرتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ عبدو نے بتایا کہ یہ چھوٹا سا قصبہ میمفس کہلاتا ہے اور کسی زمانے میں یہی فرعونوں کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ جگہ جگہ قدیم عمارتوں اور عبادت گاہوں کے کھنڈرات بکھرے ہوئے تھے جن کے پتھر وقت کے بے رحم ہاتھوں تباہ و برباد ہو کر اِدھر اُدھر لڑکھڑاتے پھر رہے تھے۔ آس پاس پانی بھرے کھیتوں اور کھجوروں کے جھنڈ میں تیرتے ہوئے نظر آتے یہ کھنڈرات بڑا ہی پُراسرار منظر پیش کر رہے تھے۔ وہاں کچھ دیر کے لئے اترے اور آس پاس بکھرے ہوئے بہت سے چھوٹے چھوٹے اہرام اور قدیم مدفن دیکھے تو وہ خالی خالی اور اجڑے ہوئے نظر آ رہے تھے۔
عبدو نے اپنا معاوضہ جائز قرار دلوانے کے لئے مجھے وہاں کھڑا کر کے یہاں کی کچھ تاریخ بیان کرنے کوشش کی اور مجھے متاثر کرنے کے لئے کوئی درجن بھر فرعونوں، ان کی ملکاؤں اور بھائیوں بہنوں کے نام گنوادیئے اور ساتھ ہی ساتھ ان کے غلیظ کرتوت بھی بیان کئے جو زیادہ تر ایک دوسرے کے خلاف سازشوں، لڑائی جھگڑوں اور جنگ و قتال پر ہی ختم ہوتے تھے۔ یہ جان کر بڑا تعجب ہوا کہ ان کے معاشرے میں بادشاہوں یا شہزادوں میں اپنی بہنوں سے شادی کرنے کا رواج عام تھا۔ مشہور زمانہ ملکہ قلوپطرہ نے بھی باری باری اپنے دوبھائیوں سے شادی کی تھی۔ جن میں سے ایک اس سے بڑا اور ایک چھوٹا تھا۔
پھر وہ مجھے لے کر کھجوروں کے جھنڈ میں سے گزرتا ہواایک احاطے کی طرف بڑھا جہاں ایک بہت بڑا ہال نما کمرہ ہمارا منتظر تھا۔ بہت سارے سیاح اپنے اپنے راہبروں کی معیت میں اس طرف بڑھ رہے تھے اور وہ ساتھ ساتھ ان کو اس مقام کی تاریخ اور اہمیت سے بھی آگاہ کر رہے تھے۔ ہال کے اندر بھی اسی طرح کے کئی گروپ مصروفِ کار تھے۔ عبدو مجھے لے کر اس طرف بڑھا۔ تب ہی اس نے انکشاف کیا کہ وہ مجھے عظیم فرعون یعنی  راعمیس ثانی کا ابھی تک کا دریافت ہونے والا سب سے بڑا مجسمہ دکھانے جا رہا تھا۔ ہال میں داخل ہوئے تو سامنے ہی وہ پورے شہنشاہی جاہ و جلال کے ساتھ ایک بڑے سنگلاخی چبوترے پر محو استراحت تھا۔ وہ مکمل طور پر اپنے شاہی لباس میں ملبوس تھا۔ پتھر کے اس دیوہیکل مجسمے کا قد کوئی 33 فٹ یعنی 3 منزلہ عمارت کے برابر اونچا تھا اور اس کا وزن بھی بیسیوں ٹن ہوگا۔ اس کے آس پاس پھرتے ہوئے جیتے جاگتے انسان بلامبالغہ چھوٹے چھوٹے گڈے نظر آ رہے تھے۔ ایک عام سے قد کاٹھ کا بندہ بمشکل اس لیٹے ہوئے فرعون کی پنڈلیوں تک ہی پہنچ پاتا تھا۔مجھے اسے دیکھ کر للی پت کے بونوں والی کہانی یاد آگئی۔ 
اس کو مزید تفصیل اور ایک نظر میں مکمل طور پر دیکھنے کے لئے وہاں کی اوپری منزل پر جانا ضروری طے پایا۔ سیڑھیوں سے چڑھ کر اوپر گئے اور جب نیچے جھانکا تو وہ ایک سویا ہوا جن ہی لگ رہا تھا۔ جس کو دیکھ کر خوف کی لہر سی اٹھتی تھی اور حیرت بھی ہوتی تھی کہ کس طرح ایک بڑی چٹان کو تراش کر اسے ایک ہی پتھرسے بنایا گیااور پھر یہاں میمفس میں لا کر اسے ایک معبد میں نصب کیا گیا تھا، جہاں وہ صدیوں تک موجود رہا اور ایک بلندی سے کارِ جہاں کو دیکھتا رہا تھا۔ پھر ایک شب نجانے کیا ہوا کہ اس علاقے میں آجانے والے زلزلے کے نتیجے میں وہ اچانک ایسا زمیں بوس ہوا کہ پھر اٹھ ہی نہ سکا۔ اس حادثے میں اس کے نچلے دھڑ کا کچھ حصہ بھی منہدم ہو کر جھڑ گیا۔ پھر کسی کو یہ بوجھ اٹھانے کی ہمت ہی نہ ہوئی،وہ گرا ہی رہااورسینکڑوں سال تک ایسے ہی ریت میں منھ دبائے پڑا رہا جہاں تک کہ وقت کی دھول نے اس کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دھرتی میں سمو دیااوروہ مکمل طور پر دنیا والوں سے پردہ کر گیا۔(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

ادب وثقافت -