جب آپ خو دکو غیراہم اور بے قدر سمجھتے ہیں، تو پھرآپ دوسروں کیلیے بھی محبت و چاہت کے اظہار کے قادر نہیں ہو سکتے

 جب آپ خو دکو غیراہم اور بے قدر سمجھتے ہیں، تو پھرآپ دوسروں کیلیے بھی محبت و ...
 جب آپ خو دکو غیراہم اور بے قدر سمجھتے ہیں، تو پھرآپ دوسروں کیلیے بھی محبت و چاہت کے اظہار کے قادر نہیں ہو سکتے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر 
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:26
جب آپ خو دکو غیراہم اور بے قدر سمجھتے ہیں اور حُبِ ذات آپ کے لیے ایک ناممکن نظریہ ہے تو پھرآپ دوسروں کے لیے بھی محبت و چاہت کے اظہار کے قادر نہیں ہو سکتے۔ اگرآپ کا وجود اور ذات بے قدر اورمحبت سے محروم ہے تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ آپ دوسروں کو اپنی محبت و چاہت سے سرفراز کر سکیں؟ اس وقت آپ کی محبت کی قدروقیمت کیا ہو گی؟ اور پھر اگر دوسروں کے لیے محبت و چاہت کا اظہار نہیں کر سکتے تو پھر دوسرے لوگ کس طرح آپ کو اپنی محبت کا مرکز بنا سکتے ہیں اورپھر اس محبت و چاہت کی قدر اور اہمیت کیا ہو گی جسے ایک بے وقعت اور غیراہم شخص کے لیے مرحمت کیا گیاہو؟ محبت وچاہت کا یہ تمام نظام جو محبت کا اظہارکرنے اور محبت وصول کرنے پر مبنی ہے، کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب آپ پہلے اپنی ذت سے محبت و چاہت کی ابتداء کرتے ہیں۔
فرض کیجیے درمیانی عمر کا ایک آدمی نوح اپنی بیوی اور بچوں سے نہایت شدید اور گہری محبت کرنے کا دعویدار ہے۔ ان کے لیے اپنی محبت کے اظہار کے لیے اس نے بیوی اور بچوں کے لیے مہنگے اور قیمتی تحائف خریدے، انہیں تعطیلات کے دوران نہایت پرتعیش سیر کروائی اور جب کبھی کاروباری دورے پر جاتا تو اپنے خطوط کے ذریعے بھی ان کے لیے محبت و چاہت کا اظہار کرتا لیکن نوح اپنی بیوی اور بچوں کو یہ کبھی نہیں بتا سکاکہ وہ خو داپنی ذات سے بھی محبت کرتا ہے۔ اپنے ان والدین کے ساتھ بھی اس کا یہی مسئلہ تھا جن کے ساتھ وہ شدید محبت کرتا تھا۔نوح یہ الفاظ کہنا چاہتا تھا، وہ اس کے ذہن میں بار بار ابھرتے رہتے تھے جب ہر بار وہ ”مجھے آپ سے محبت ہے“ کہنے لگتا، یہ تمام الفاظ ا س کے ذہن سے نکل جاتے۔
نوح کے دماغ میں ”مجھے آپ سے محبت ہے“ کی موجودگی سے مراد یہ تھی کہ وہ اپنی ذات سے محبت کرنے پر مبنی رویہ اورطرزعمل اپنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر وہ کہتا ”مجھے آپ سے محبت ہے۔“ تو پھر کسی نے ضرور جواب دیا ہوتا کہ ”نوح مجھے بھی تم سے محبت ہے!“ دوسروں کے لیے اس کی طرف سے محبت و چاہت کا اظہار اپنی ذات کی قابل قدر حقیقت کی تصدیق تھی۔ اگر نوح یہ الفاظ کہہ دیتا تو اس امر کا بہت زیادہ امکان تھا کہ اسے اپنے ان الفاظ کا جواب نہ ملتا اور اس کی تمام قدروقیمت سوالیہ نشان بن کر رہ جاتی۔ بصورت دیگر اگر نوح یہ فرض کر لیتا کہ وہ محبت کیے جانے کے قابل ہے تو پھر اسے ”مجھے آپ سے محبت ہے“ سننے کو نہ ملتا تو اس کی زندگی نہایت ہی غیراہم ہوتی۔ نوح دوسروں سے بھی محبت و چاہت کی خواہش کر سکتا ہے لیکن پھر اس کی اپنی ذات کی قیمت و قدر صفر ہو جاتی۔
آپ اپنے تمام احساسات کو حُبِ ذات کے لیے اپنی صلاحیت کے طو رپر سمجھ سکتے ہیں۔ یاد رکھیے، ہمیشہ حُبِ ذات کا جذبہ خود سے نفرت کے جذبے سے کہیں زیادہ طاقتور اور زبردست ہوتا ہے۔ اگر آپ کے ساتھ ناپسندیدہ سلوک بھی کیا جاتا ہے تو پھر اس پر آپ کی طرف سے اظہار ناپسندیدگی کے باعث آپ میں غیرفعالیت، سستی اور کاہلی پیدا ہو سکتی ہے۔ اپنے وجود سے نفرت کرنے کے بجائے اپنی ذات کے لیے مثبت جذبات و احساسات پیدا کیجیے۔ اپنی غلطیوں سے سبق کیجیے اور انہیں نہ دہرانے کا عزم کیجیے لیکن ان غلطیوں کو اپنی ذات کی قدروقیمت سے مشروط قرار نہ دیجیے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -