اللہ والوں کے قصّے...قسط نمبر 15

اللہ والوں کے قصّے...قسط نمبر 15
اللہ والوں کے قصّے...قسط نمبر 15

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حضرت شفیق بلخی ؒ فرماتے ہیں ’’میں149 ؁ھ میں حج کا ارادہ لیکر گھر سے نکلا،قادسیہ میں اتر کر لوگوں کی زینت اور ان کی کثرت دیکھ رہا تھا کہ ایک خوبصورت جوان پر نظر پڑی وہ نفیس لباس پہنے ہوتے تھا۔اُوپرم اُونی چادر اور پاؤں میں جُوتی پہنے لوگوں سے الگ بیٹھا تھا۔
میں نے اپنے دل میں خیال کیا کہ یہ جوانی صو فی ہے لوگوں پر بار ہو گا اس لیے الگ تھلگ بیٹھا ہے۔میں اس کے پاس جا کر اسے دھمکاؤں یہ سوچ کر میں اس کے قریب گیا۔اس نے مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر کہا۔
ؔ ؔ ’’اے شفیق!گمان کرنے سے بچو،بعض گمان گناہ چلے جانے کا کہا اور مجھے چھوڑ کر چل دیا میں نے اپنے جی میں کہا یہ بُرا ہوا،میرے دل میں جو کچھ تھا اس نے کہہ دیا اور میرا نام بھی لیا۔یہ تو کوئی مرد صالح معلوم ہوتاہے میں اسے ضرور ملوں گا اور اپنی بدگمانی معاف کرواؤں گا۔

اللہ والوں کے قصّے...قسط نمبر 14 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں اس کے پیچھے چل پڑا مگر ادھر ادھر دیکھنے کے باوجود اسے کہیں نہ پایا آخر ہم قادسیہ سے چل پڑے۔جب ہم واقعہ میں اُترے تو اس کو نماز پڑھتے ہوتے پایا اس کے اعضاء کانپ رہے تھے اور آنسو جاری تھے۔
میں نے اپنے آپ سے کہا یہ تو وہی میرا دوست ہے میں اس سے مل کر اپنا قصور بد گمانی معاف کرواؤں گا۔میں نے کچھ دیر صبر کیا اور جب وہ نماز سے فارغ ہو کر بیٹھا تو میں اس کی طرف متوجہ ہوا۔
جب اس نے مجھے آتے دیکھا تو بولا ’’اے شفیق! یہ آیت پڑھ۔)ترجمہ( جو کوئی توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھے عمل کرے اور راہ پائے ، میں اس کے گناہ بخش دیتا ہوں‘‘۔
پھر وہ مجھے چھوڑ کر چلتا ہوا۔
میں نے کہا۔یہ جوان ضرور ابدال ہے۔میرے دل کی بات دو مرتبہ بیان کر دی ۔اس کے بعد جب ہم منیٰ میں اُترے تو میں نے اس جوان کو ایک کنوئیں پر ہاتھ میں کوزہ لیے کھڑے پایا اس کے ہاتھ کوزہ کنوئیں میں گر پڑا۔میں اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔اس جوان نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور کہا۔
’’خدا وندا! اے میرے مالک!میرے سردار !تو خوب جانتا ہے۔میرے پاس سوائے اس کے اور کچھ نہیں،مجھ سے یہ گم نہ کرنا۔‘‘
حضرت شفیق ؒ فرماتے ہیں،خدا کی قسم میں نے دیکھا کہ کنوئیں کا پانی اُوپر تک ابل آیا۔اس جوان نے اپنا کوزہ لیکر پانی سے بھرا اور وضو کرکے نماز کیلئے کھڑا ہوا۔بعد اد ائے نماز ایک ریت کے ٹیلے کی طرف گیا اور ریت اٹھا اٹھا کر کوزے میں بھرتا تھا اور اسے پانی سمجھ کر پیتا تھا۔میں اس کے پاس گیا اور سلام کیا۔اس نے میرے سلام کا جواب دیا ۔میں نے کہا۔’’ اپنا جوٹھا مجھے بھی عنایت کیجئے۔‘‘
وہ بولا۔’’اے شفیق!خدا کی نعمتیں ظاہر و باطنی ہمیشہ ہمارے ساتھ ہیں اپنے پروردگار کے ساتھ نیک گمان رکھو۔‘‘
پھر مجھ کو کوزہ دیا میں نے اس میں سے پیا۔اس میں شکر اور ستو گھلے ہوئے تھے۔خدا کی قسم اس سے لذیذ اور خوشبو دار چیز میں نے پہلے کبھی نہیں پی تھا۔میری بھوک پیاس جاتی رہی اور کئی دن تک وہاں ٹھہرارہا۔کھانے پینے کی کو ئی خواہش میرے دل میں پیدا نہ ہوئی۔اس کے بعد جب ہم مکّہ معظّمہ میں داخل ہوئے تو آدھی رات کے وقت میں نے اسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔نہایت عاجزی سے نماز پڑھ رہا تھا ۔اس کے رونے کی آواز سنی جا تی تھا۔اسی حالت میں تمام رات گذر گئی۔پھر وہ اپنے مصلّے پر بیٹھا تسبیح پڑھتا ر ہا۔اسکے بعد کھڑے ہو کر نماز فجر ادا کی اور اسلام پھیر کو خانہ کعبہ کا طواف کیا اور حرم سے باہر نکلا۔میں اس کے ساتھ ہُوا۔آگے بڑھتے تو مجھے اس کے خادم اور غلام نظر آئے۔اثناء راہ میں جس وضع سے تھا یہاں اس کے خلاف پایا۔ لوگ اُس کے گر د جمع ہوئے اور اسے سلام کرتے تھے۔میں نے ایک شخص سے جو اس کے قریب تھا، دریافت کیا‘‘۔ ’’یہ جوان کون ہے۔‘‘ لوگوں نے کہا۔’’یہ حضرت امام جعفر صادق ؑ ہیں۔ ‘‘
مجھے سخت تعجب ہوا کہ بے شک یہ عجیب و غریب کرامات ایسے ہی سیّد کی ہیں۔
***
ایک دفعہ حضرت جنید بغدادیؒ کی ملاقات مسجد کے دروازہ پر ایک ضعیف شخص کی صورت میں ابلیس سے ہو گئی۔آپ نے اس سے سوال کیا۔
’’آدم کو سجدہ نہ کرنے کی کیا وجہ تھی؟‘‘
ابلیس نے جواب دیا۔’’غیر اﷲ کو سجدہ کرنا کہاں جائز ہے؟‘‘
اس جواب سے آپ سخت حیران ہوئے۔
اُسی وقت آپ کو غیب سے آواز سُنائی دی۔
’’اس سے کہہ دو کہ تُو کاذب کہے۔کیونکہ بندے کو مالک کے حکم سے انحراف کی اجازت نہیں۔’’ابلیس اُسی وقت آپ کے غیبی الہام کو بھانپ گیا اور رفو چکّر ہو گیا ۔
***
حضرت ابراہیم بن ادھمؒ جب بلخ کے سلطان تھے تو رات کے وقت کسی کے چھت پر چلنے کی آہٹ انہیں محسوس ہوئی۔
آواز دے کر پوچھا۔’’چھت پر کون ہے؟‘‘
جواب ملا۔’’میں آپ کا ایک واقف کار ہوں اور اپنے گمشدہ اُونٹ کی تلاش میں چھت پر آیا ہوں۔‘‘
آپؒ نے فرمایا۔’’چھت پر اُونٹ کیسے آسکتا ہے؟‘‘
اس بات پر آپ کو جواب ملا۔’’آپ کو تاج و تخت میں خدا کیسے مل سکتا ہے؟‘‘
یہ سُن کر آپ دم بخود ہو کر رہ گئے۔
دوسرے دن جب کہ دربار لگا ہوا تھاایک بہت ہی ذی حشم شخص دربار میں حاضر ہوا۔اس کی آمد نے درباریوں پر کچھ ایسا رعب ڈالا کہ کسی کو یہ پوچھنے کی سکت نہ رہی وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے؟
وہ شخص تیزی کے ساتھ تخت شاہی کے نزدیک پہنچ کر کھڑا ہو گیا۔پھر اس سے حضرت ابراہیم ادھمؒ نے سوال کیا۔’’تم کون ہو اور کس کی تلاش میں آئے ہو؟‘‘
اس نے جواب دیا۔’’میں تو یہاں قیام کرنے کی نیت سے آیا تھا مگر یہ تو سرائے ہے۔
اس لیے اب یہاں قیام کرکے کیا کروں گا؟‘‘
آپؒ نے فرمایا ۔’’بھائی!یہ سرائے نہیں بلکہ شاہی عمل ہے۔‘‘
اس پر اُس نے سوال کیا ۔’’آپ سے قبل یہاں کون آباد تھا؟‘‘
حضرت ابراہیمؒ نے فرمایا۔’’میرے آباؤ اجداد آباد تھے۔‘‘
پھر اس نے اسی طرح حضرت ابراہیمؒ ادھم سے کئی پشتوں تک پوچھا۔
پھر آخر میں یہ پوچھا۔’’آپ کے بعد یہاں کون رہے گا۔‘‘
آپ نے فرمایا ۔’’میری اولاد۔‘‘
اس نے کہا۔’’ذرا غور کیجئے کہ جس جگہ اتنے لوگ آئے اور چلے گئے اور کسی ایک کو بھی ثبات حاصل نہ ہو سکا۔وہ جگہ اگر سرائے نہیں تو اور کیا ہے‘‘۔ اتنا کہہ کر وہ اچانک غائب ہو گیا۔ان واقعات نے حضرت ابراہیم بن ادھمؒ کی کایا ہی پلٹ دی۔آپؒ نے تاج و تخت کو خیر باد کہہ دیا اور صحرا بصحراگر یہ وزاری کرتے ہوئے نیشاپور جا پہنچے اور ایک تاریک وبھیانک غار میں داخل ہو کر تقریباً نو برس تک محو عبادت رہے۔
آپ ہر جمعہ کو لکڑیاں جمع کرکے فروخت کر دیتے او ر جو کچھ ملتا آدھا راہ مولا میں دے دیتے او ر باقی ماندہ رقم سے روٹی خرید کر نماز جمعہ ادا کرتے اور پھر ہفتہ بھر کے لیے غار سے باہر نہ نکلتے۔

(جاری ہے ۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)